اگست کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ملک کے طول و عرض میں سبز ہلالی جھنڈوں،جھنڈیوں اور بیجز کی خرید و فروخت شروع ہو جاتی ہے ۔ ۱۴ اگست کی شام تک یہ جوش و خروش اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے ۔ سڑکوں کے کنارے لگے سٹالز پر صبح سے لے کر شام تک ملی نٖغموں کی دھنیں بجائی جاتی ہیں ۔ بلکہ اب تو سبز لباس جن پر جشن آزادی کے نعرے یا جھنڈے چھپے ہوتے ہیں ،عام بکتے نظر آتے ہیں ۔ سرکاری ، نیم سرکاری پرائیویٹ اداروں ، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں جبکہ چھوٹی چھوٹی جھنڈیوں سے گلی محلوں کو بھی سجایا جاتا ہے۔ہر ٹی وی چینل پر پورا دن خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ان تمام تقریبات میں جان ڈال دیتی ہے ۔ یہ جشن ِ آزادی ہے۔۱۴ اگست کی رات تک تمام ملک میں یہ جوش و خروش اور گہما گہمی جاری رہے گی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۱۴ اگست کا دن باقاعدہ ایک تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم نے ۱۴ اگست کو صرف اور صرف ایک تہوار تک محدود کر دیا ہے ۔
لیکن جیسے ہی ۱۴ اگست کا سورج غروب ہو گا ، سبز ہلالی جھنڈیاں گلیوں اور بازاروں میں پائوں تلے روندی جائیں گی ۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان جھنڈیوں کو زمیں سے اٹھاتے ہیں عموما لوگ زمین پر گری جھنڈیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ۱۴ اگست کا دن گزرتے ہی گاڑیوں میں بھارتی گانے بجنے لگے ہیں ، ٹی وی چینلز پر بھارتی ڈرامے اور فلمیں چلائی جانے لگتی ہیں ۔
تصویر کا ایک رخ اگر تاریک ہے تو دوسری طرف جشن کا یہ سماں جہاں مسائل سے گھری عوام کے لیے ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے کا کام دیتا ہے وہاں آزادی کا جشن منانا نئی نسل کو اس دن کی اہمیت کی یاد بھی دلاتا ہے ۔بلاشبہ ہم نے ۱۴ اگست کو ایک تہوار کی شکل دی ہے اور اس تہوار کو منانے کے لیے ہر ممکن تیاری بھی کی جاتی ہے ۔ لیکن کیا یہ تہوار منا لینا ، سبز کپڑے زیب تن کر لینا کافی ہے ؟ بالکل نہیں ۔ بلکہ ہمیں پاکستان اور پاکستانیت کے فلسفہ کو نئی نسل میں منتقل کرنا ہو گا ۔۱۴ اگست کو تقریبات سے نکال کر نظریہ پاکستان کی ترویج کر نا ہوگی۔
نظریہ پاکستان درحقیقت ہے کیا ؟ کیا یہ تمام جدوجہد ایک زمین کے ٹکڑے کے حصول تک محدود تھی ؟ کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد صرف ایک لکیر کی حیثیت رکھتی ہے درحقیقت ان کی بنیاد ایک ہی ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کر دئیے گئے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو یہ تو پڑھاتے ہیں کہ یہ ارض ِوطن کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو بے انتہا قربانیاں دینا پڑی لیکن انھیں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ اس وطن کا حصول ضروری کیوں تھا ؟ اور وہ کیا عوامل تھے جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان بننے کے حق میں فیصلہ دیا جنھیں پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔ وہ یہ جانتے ہوئے کہ انھیں بے انتہا مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا اس تاریخی قربانی اور کامیابی کا حصہ بنے ۔ ۔نظریہ پاکستان کو توڑ مروڑ کر اس کی اصل روح تک کو بگاڑ دیا گیا ہے۔
نام نہاد لبرل نئی نسل کے ذہنوں میں یہ ابہام راسخ کر دینا چاہتے ہیںکہ پاکستان اور بھارت میں درحقیقت ایک سرحد ہی تو ہے ۔ ان دونوں ممالک کا معاشرتی اور تہذیبی ورثہ ایک سا ہے ۔ واضع رہے کہ یہ سرحد خون سے کھینچی گئی ایک باڑ ہے جس کے ایک پار وہ ہندو بستے ہیں جن کے لیے آج بھی مسلمان ایک اچھوت سے زیادہ نہیں ۔جن کی تہذیب مسلمانوں کی تہذیب سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ ان کے ہیرو مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں ۔ جن کے ترانے بندے ماترم میں مسلمان دشمنی کا پرچار ہے ۔ دوسری جانب پاکستان ہے جس میں تمام مذاہب بالخصوص مسلما ن اپنی زندگیاں ، مذہب کے مطابق گزار رہے ہیں ۔ سرحد کے اس پار آج بھی گائے کے ذبح بلکہ ذبیحہ کے شک میں بھی ہندئو مسلم فسادات کا آغاز ہو جاتا ہے اور ان فسادات میں ان گنت مسلمان اپنی جانوں کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ ہندئو انتہا پسند تنظیمیں گائے کے ذبیحہ کو وجہ بنا کر مسلمانوں کی بستیوں میں خون کی ہولیکھیلتے ہیں ۔ ہندوئوں کی مسلم دشمنی کا اندازہاس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہر سطح پر مسلمانوںاور خصوصا پاکستان پر قدغن لگانے میں دریغ نہیں کرتے ۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہی کو لے لیجیے ۔ اس کی تمام تر خارجہ پالیسی پاکستان کے خلاف گھومتی ہے ، بھارت میں دہشت گردی کے چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو پاکستان اور آئی ایس آئی کا کارنامہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے ۔ آئے روز بھارت کی جانب سے سرحد خلاف ورزیاں عام ہیں جن میں نہتے شہری شہید ہو جاتے ہیں ۔ حال ہی میں بھارت نے اپنے ہی شہر ممبئی میں دہشت گرد ی کے حملے کروائے اور ان کا الزام پاکستان پر لگایا ۔ اقوام ِ عالم میں پاکستان پر ایک دہشت گرد ریاست ہونے کا ٹھپہ لگوانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ۔ اگرچہ چشم ِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بھارت ممبئی حملوں کے مزوجہ مقدمے پر کسی قسم کے ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان پر کیچڑ اچھالتا رہا ۔
دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم کی انتہا ہو چکی ہے ۔ ۷۱ سال سے مسئلہ کشمیر اقوام ِ متحدہ کے ایوانوں میں قراردادوں میں مقید ہے لیکن زمینی سطح پر اس مسئلہ کا حل ابھی تک نہیں نکالا جا سکا ۔ تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کے لیے بھارت ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں نہ تو کسی کی عزت محفوظ ہے ، نہ جان اور نہ ہی املاک ۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج کی تعیناتی اور افسپاء جیسے کالے قانون کا مقبوضہ کشمیر میں رائج ہو جانا بھارت کی مجموعی ذہنیت کا شاخسانہ ہے ۔
اب ایک نظر بھارت کے اندر بسنے والے مسلمانوں کی حالت ِزار پر بھی ڈالیے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو ابھی تک مذہبی آزادی حاصل نہیں بلکہ کسی مسلمان کی نسبت ہندو کو ہر معاملہ میں اہمیت دی جاتی ہے ۔ہندوستانی مسلمان ، ہندو کے کم ترین طبقہ دلت سے بھی کم تر حیثیت کے مالک ہیں ۔ مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریکیں عروج پر رہتی ہیں تو دوسری طرف گجرات اور دیگر علاقوں میں ہونے والے مسلم کش فسادات سے کون واقف نہیں ۔
یاد رکھیے ! پاکستان صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ یہ ہماری دینی ، معاشرتی ، معاشی اساس ہے ۔ پاکستان کا حصول اس لیے بھی ازحد ضروری تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تا تو ان ۲۲ کروڑ مسلمانوں کا بھی وہی حال ہوتا جو بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کا ہو رہا ہے ۔ یہ ایک ایسی وراثت ہے جس کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ۔ یہ وطن عزیز مسلمانوں کے لیے قلعہ کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ واحد اسلامی ریاست ہے جو ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی اور دشمنوں کو پہلے دن سے کھٹکتی ہے ۔ اگر آج ہم نے اس ریاست کی حفاظت نہ کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]