بالکل بہن۔ارسہ میری اپنی بچی ہے۔ رابعہ نے کہا ۔ درحقیقت رابعہ ارسہ کو عاٸشہ ہی کی طرح چاہتی تھی ۔ میں سچ پوچھیں تو اپنی بچی کے لیے بہت پریشان ہوں ۔ صدیق نے اسے کوٸی خوشی نہیں دی۔ قسمت ہی خراب ہے میری بچی کی ۔ثمرین نے پہلی بار ارسہ کے نصیب کا شکوہ کیا ۔ نہیں بہن یوں نہ کہیں ۔ قسمت نہیں خراب ۔ بس آزماٸش ہےاللہ کی طرف سے ۔ یہ آزماٸش جلد ہی ختم ہو جاۓ گی ۔ رابعہ نے تسلی دی ۔ بس بہن میرا ہر وقت دھیان اپنی بچی کی جانب ہی رہتا ہے ۔ نہ جانے اب صدیق کیا کر گزرے۔ ثمرین اپنے دل کا حال رابعہ سے کہنے لگی ۔۔ بہن فکر مند تو میں بھی ہوں۔ اللہ رحم کرے ہماری بچی پر ۔ رابعہ نے کہا ۔ وہ دونوں دنیا داری باتیں کرنے لگیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارسہ کی طبیعت اب اکثر و بیشتر خراب رہنے لگی تھی ۔ ارسہ بیٹا کچھ کھا لو ۔۔مسز رشید پیار بھرے لہجے میں اس سے مخاطب ہوٸی ۔ آنٹی جو کھاتی ہوں الٹی ہو جاتی ہے۔ مجھے سخت تھکان ہو رہی ہے ۔ ارسہ نے کہا ۔ میرا بچہ ۔۔ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ تمھیں پریشان نہیں ہونا اور اپنا خیال رکھنا ہے۔ چلو یہ دودھ پیو۔۔ اٹھو ۔ مسز رشید نے پیار سے کہا ۔ چوہدری صدیق گھر میں داخل ہوا ۔ ماں کو دیکھا ۔ ایک لمحےکے لیے اسے اپنے بچے کا خیال آیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسے بچے کی ماں کا خیال آیا ۔ وہ اک لمحے خوش تو دوسرے لمحے خود کو کوسنے لگا ۔ ارسہ اسے وہ خوشی دینے جا رہی تھی جس کی خواہش ہر مرد کرتا ہے لیکن اسے افسوس یہ تھا کہ یہ خوشی اسے ارسہ کیوں دے رہی تھی ۔ وہ بیک وقت دھرے جذبات کا شکار ہو گیا تھا۔ امی ۔ اگر ارسہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آپ اسے اپنے ماں باپ کے گھر چھوڑ آٸیں۔ چوہدری صدیق کا لہجہ ہمیشہ کی طرح سختی لیے ہوۓ نہیں تھا ۔ارسہ اور مسز رشید دونوں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔ پہلی بار چوہدری صدیق ایک لمحے کے لیے شرمندہ ہو گیا ۔ بیٹا ۔۔اولاد یہ ہماری ہے اور ہم اسے ننہیال بھیج دیں ۔۔یہ اچھی بات ہے بھلا ؟ مسز رشید نے چند لمحے کی خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا۔ امی! میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ ارسہ اپنے والدین کے ساتھ زیادہ بہتر محسوس کرے گی ۔ چوہدری صدیق نے اپنی شرمندگی چھپانے کی کوشش کی ۔ یہ یہاں بھی بہتر محسوس کر رہی ہے ۔ تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔مسزرشید نے سرزنش کی۔ امی میں تو یوں ہی بات کی تھی ۔ اچھا ابھی چاۓ تو پلوا دیں ۔ چوہدری صدیق نے ماں کو ٹالتے ہوۓ کہا ۔ چاۓ پلوا دوں گی ۔ اب تم بڑے ہو جاٶ سمجھداری کی بات کرٶ ۔تم اب باپ بننے والے ہو۔ مسز رشیدنے چوہدری صدیق کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا ۔

چوہدری صدیق مسکرایا۔ کاش یہ بچہ تمھارا نہ ہوتا ارسہ ۔ اس نے سوچا اور اسی لمحےاس کے چہرے کی مسکراہٹ معدوم ہو کر رہ گٸی ۔ آنٹی میں جاتی ہوں چاۓ بنانے ۔۔ارسہ ایک دم سے اٹھی ۔ بے دھیانی میں اس کا پاٶں مڑا اور وہ دھڑام سے گری ۔ ارسہ۔۔۔مسز رشید چلاٸیں۔ تمھیں کس نے کہا تھا اٹھنے کو ؟ چوہدری صدیق نے ایک دم سے ڈانٹا ۔ صدیق اٹھاٶ اسے ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہو گا ۔جلدی کرو ۔ مسز رشید نے چلا کر کہا ۔ چوہدری صدیق نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا اور اسے ہسپتال لے گٸے ۔ راستے میں ثمرین کو اطلاع کر دی گٸی۔ علی اور ثمرین بھی ہسپتال پہنچ گٸے ۔ ہسپتال پہنچ کر انھیں بچہ ضاٸع ہو جانے کی خبر ملی ۔ یہ خبر سبھی کے لیے دکھ کا باعث تھی خصوصا ارسہ کے لیے۔ میری بچی ۔۔میرا نواسہ ۔۔ثمرین رونے دھونے لگی ۔ بہن صبر کریں ۔ مسز رشید نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ہاں ہاں۔۔تم لوگ توصبر کا ہی کہو گے نا۔ مار دیا تم نے میری بچی کو ۔۔کتنے ظالم ہو تم لوگ۔ ثمرین نےدہاٸی دی ۔ امی ۔بس کریں ۔ ہسپتال ہے یہ ۔ علی نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ بہن آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔۔ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ مسز رشید نے کہا۔ وہ جانتی تھیں کہ صدیق کے سابقہ رویے نے ثمرین کو ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا ۔ ہاں ہاں میں غلط سمجھ رہی ہوں ۔ کیا میں نہیں جانتی میری بچی کن حالوں میں ہے۔ ثمرین نے لڑنے کے سے انداز میں کہا ۔ آنٹی ۔وہ میری بھی اولاد تھی ہم أیسا کیوں کرتے ۔ چوہدری صدیق نے کہا تو علی نے استفہامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا ۔ وہ سر جھکا کر رہ گیا ۔ بالکل ۔۔ہمیں علم ہے ۔ علی کا لہجہ کاٹ دار تھا آنٹی۔مسز رشید نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ علی نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں چپ کروایا ۔ امی پلیز ۔۔ ثمرین نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھاکہ علی نے انھیں بھی چپ کروا دیا ۔ مبادا کہ ہسپتال میں دونوں خواتین کی لڑاٸی نہ ہوجاۓ ۔ اتنی دیرمیں نرس آ گٸی اورزیادہ لوگوں کو باہرچلے جانے کا کہنے لگی ۔ فیصلہ یہ ہواکہ اک رات مسز رشید رکیں گی اور ایک رات ثمرین ۔ آج ثمرین اور علی کو گھر جانے کا کہا ۔ مجھے یقین ہے کہ انھوں نے خود دھکا دیا ہو گا۔ خود کچھ کیا ہوگا۔ ثمرین نے گھر پہنچتے ہی روتے ہوۓکہا ۔ امی۔۔۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ تو ارسہ ہی بتا سکتی ہے نا ۔ اسے ٹھیک ہونے دیں ۔ علی نے سوچتے ہوۓ کہا وہ کیا کہے گی ۔۔۔میری صابر بچی ہے ۔ اس کی زبان تو خود میں نے بند کر دی ہے ۔ ثمرین بات کرتےکرتے خود کو کوسنے لگی ۔ امی اب بس کر جاٸیں ۔ یوں رونے دھونے اور خود کوکوسنے سے سب ٹھیک نہیں ہو جانا ۔ علی نے کہا ۔ اتنی دیر میں چوہدری عدیم بھی گھر پہنچ گٸے ۔ ثمرین نے روتے دھوتے انھیں تمام کہانی سناٸی ۔ چوہدری عدیم خاموشی سے صوفے پر ڈھے سے گٸے  ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ اس طرح کے معاملات ہوں گے. ابو ۔۔آپ ٹھیک تو ہیں نا ۔۔چوہدری عدیم کی خاموشی علی کو کھلنے لگی۔ ہاں ہاں میں ٹھیک ہی ہوں . ارسہ کو اب گھر لے آٸیں گے ۔ہمیشہ کے لیے ۔اب میں اپنی بچی کو اس گھر میں نہیں چھوڑ سکتا۔ چوہدری عدیم نے کہا میں بھی یہی سوچ رہی ہوں ۔ بہت ہو گیا ۔ ہماری بچی نے کتنا کچھ سہہ لیا ہے نا۔ ثمرین نے دکھی لہجے میں کہا ۔ ابو ۔۔یہ فیصلہ ہمیں ارسہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ علی نے ماں اور باپ دونوں سے اختلاف کیا ۔ ارسہ فیصلہ کر پاۓ گی کیا ؟ وہ تو بس صبر ہی کرے گی ۔ثمرین نے خدشہ ظاہر کیا ۔ پھر بھی امی ۔یہ ارسہ کی زندگی ہے اسے فیصلہ کرنے دیں ۔۔۔علی نے کہا

علی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب ارسہ کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔بلکہ ہمیں بالکل بھی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ وقت دیکھیں اور جو بھی ہو اس کا فیصلہ ہو جانے دیں۔“ چوہدری عدیم نٕے دھیمے لہجے میں کہا ۔ آج گویا ان کی ہمت جواب دے گٸی تھی۔ ”ہاں اس وقت تو وہ صدمے سے بے حال ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کس طرح اس کو زندگی میں واپس لاٶں گی۔ “ثمرین نے دکھی لہجے میں کہا ”امی۔!۔کوشش کریں کہ گاٶں کی کم سے کم عورتیں ارسہ سے ملیں کیونکہ افسوس کرنے والیوں کےبھی سو سوال ہوں گے جو ارسہ کو مزید ڈپریشن میں لے جاٸیں گے۔“ علی نے سوچتے ہوۓ کہا۔ ”علی ٹھیک کہہ رہا ہے ثمرین ۔ یہاں افسوس کرنے کم اور باتیں  کرنے والے زیادہ آٸیں گے۔“ چوہدری عدیم نے کہا۔ ثمرین نے اثبات میں سر ہلایا ۔ جس جس کو پتہ چلا کہ ارسہ کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے وہ وہ تعزیت کرنے چلا آیا ۔ حویلی آنے والوں میں سب سے پہلی خواتین میں رابعہ اور عاٸشہ بھی تھیں ۔ ”ارسہ دل چھوٹا نہ کرٶ ۔ اللہ ضرور عطإکرے گا ۔“ عاٸشہ نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔۔ ارسہ زیادہ تر اپنے کمرے ہی میں رہا کرتی تھی۔ اس کے لیے یہ بہتر بھی تھا۔ ”بس ۔ جو کسی کا دل دکھاتے ہیں نا ۔ ان کا دل ضرور دکھایا جاتا ہے۔“ ارسہ نے رسانیت سے کہا۔ ”ارے نہیں ۔ یہ تو اللہ کی جانب سے آزماٸش ہے بس۔ تمھیں ایسا کچھ نہیں سوچنا ۔ بلکہ میں کہتی ہوں میرے ساتھ چلو ۔ کہیں گھومنے چلتے ہیں۔“ عاٸشہ نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔ ”نہیں یار۔کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا“ ۔ ارسہ نے جھجھکتےہوۓکہا ”کیا مطلب کسی نے دیکھ لیا۔ دیکھو تمھیں اپنی زندگی میں واپس تو آنا ہے نا ۔ اورآنا ہی چاہیے یہ حق ہے تمھارا۔“ عاٸشہ نے ٹھوس لہجےمیں کہا ۔ ”میری زندگی اب غم اور اس کمرے سے عبارت ہے عاٸشہ“ ۔ ارسہ نے کہا ۔ ”یہ کیا بات ہوٸی ؟ جاہلوں والی باتیں نہ کرٶ ۔ زندگی چلتے رہنی چاہیے۔ یہ رک نہیں جانی چاہیے“۔ عاٸشہ نے کہا ”عاٸشہ تمھیں کیا پتہ ۔ میری زندگی کا ۔ صدیق کو کسی اور سے محبت تھی اس نے کبھی مجھے قبول ہی نہیں کیا ۔ایک امید اس بچے سے تھی کہ وہ میری زندگی میں جگنو بن کے چمکے گا ۔ وہ بھی گٸی“ ۔ آج ارسہ نے اپنا دل عاٸشہ کے سامنے کھول کے رکھ دیا ۔ ”اف ارسہ اور تم یہ سب برداشت کرتی رہی ۔ کم از کم مجھ سے تو بات کرتی“ ۔ عاٸشہ نے دکھ سے پوچھا ۔ ”برداشت کرنا ہی پڑتا ہے عورت کو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ میں دن میں کٸی کٸی بار مرتی رہی۔ رات کا عذاب مجھے زندگی سے نفرت کرنا سیکھا گیا۔“ارسہ نے روہانسے لہجے میں کہا ۔ ”جانتی ہو عاٸشہ کہ زندگی کی تلخی کیا ہوتی ہے ؟ زندگی نے میرے وجود میں زہر گھول دیا ہےاور تم دیکھنا یہ زہر میری جان لے کے چھوڑے گا “ارسہ نے کہا اس کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے ۔ عاٸشہ نے اسے کہنے دیا ۔ دکھ کے لاوے کو بہہ دینا چاہیےورنہ یہ آتش فشاں بن کر پھٹ جاتا ہےاور زندگیاں تباہ کر جاتا ہے ۔ عاٸشہ نے ارسہ کے دکھ کو آنسوٶں کی صورت میں بہہ جانے دیا۔ ”تم جانتی ہو عاٸشہ ۔ مجھے طلاق کے دو نوٹس آ چکے ہیں ۔ اور میں جانتی ہوں صدیق آخری نوٹس ضرور بھیجے گا ۔ لیکن میں نہیں چاہتی کے میرے ماتھے پر طلاق کا دھبہ لگ جاۓاور میرے بابا کو گاٶں کے لوگوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے ۔“ ارسہ نےسر جھکاتے ہوۓ کہا ۔ ”ارسہ ۔ اتنی تکلف دہ زندگی منظورہے تمھیں کیا “؟ عاٸشہ نےپوچھا۔ ”ہاں عاٸشہ میں کسی بھی طرح چاہتی ہوں کہ میرا گھر آباد رہے۔ میرے ماں باپ کی عزت اسی میں ہے۔“ ارسہ نے کہا ۔ ایک لمحے کےلیے عاٸشہ لاجواب ہو کر رہ گٸی۔ ”پتہ ہے میں سوچ رہی ہوں ابو سے کہوں گی کہ مجھے خود ہی چھوڑ آٸیں میرے سسرال“۔ ارسہ نے کمرے میں چھاٸی خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا۔ ”ارسہ ۔۔یہ تم اپنے آپ کو اذیت میں جھونک رہی ہو۔ اتنا ظلم نہ کرٶ خود پر “۔ عاٸشہ نے کہا۔ ”عاٸشہ تم نہیں سمجھ سکتی ۔میں نے اپنے ابوکوسر جھکاۓکھڑے دیکھا ۔ اور یہ میرے لیے سب سے بڑی اذیت ہے“ ۔ارسہ نے دکھی لہجے میں کہا۔

اور میں اس اذیت سے اپنے ابو کو نکالنا چاہتی ہوں۔میں کسی صورت طلاق نہیں لینا چاہتی . ارسہ نے کہا ۔ عاٸشہ دہرے دکھ میں مبتلا ہو گٸی ۔ یہ اس کی ہنستی مسکراتی دوست تو ہرگز نہیں تھی ۔ ارسہ ۔اللہ تمھارے حال پر رحم کرے ۔ میں تمھارے لیے دعا کرٶں گی ۔ عاٸشہ نے سچے دل سے کہا ۔ مجھے دعا ٶں ہی کی ضرورت ہے عاٸشہ ۔ ارسہ نے کہا ۔عاٸشہ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اور اس کا سر تھپتھپانے لگی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہدری صدیق کے دل میں اپنی اولاد کے کھو جانے کا دکھ تھا تو دوسری طرف اس کے پاٶں کی زنجیر قدرت نے خود ہی کھول دی تھی ۔ چوہدری رشید اورمسز رشید بے انتہا دکھی تھے۔ اس بچے کی صورت میں انھیں یہ رشتہ مضبوط ہوتا دیکھاٸی دے رہا تھا۔ اب کوٸی وجہ نہ بچی تھی کہ وہ صدیق اور ارسہ کے رشتہ کو قاٸم رکھنے کے لیے دباٶ ڈال سکتے۔ مسز رشید تو ہر وقت پریشان رہنے لگی تھیں ۔ اس پریشانی نے انھیں بلڈ پریشر کا مریض بنا دیا تھا۔ وہ گاہے بگاہے چوہدری صدیق کو سمجھاتی لیکن جو سمجھنا ہی نہ چاہے اس کو سمجھانا عبث ہوا کرتا ہے۔ چوہدری رشید نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ جون کا مہینہ تھا ۔ مسز رشید لاٶنچ میں بیٹھی تھیں۔ چوہدری صدیق کہیں باہر سے آیا تھا ۔ اس کے چہرے پر تفکر اور سکون کے ملے جلے آثار دکھاٸی دے رہے تھے۔ امی ۔ آج مجسٹریٹ کے دفترجانا ہے مجھے ۔ یونین کونسل نے بلایا ہے ۔ چوہدری صدیق نے اپنی ماں کو بتایا ۔ بیٹا ! تم ان کاغذی کارواٸیوں میں کیوں پڑ گٸے ہو۔پنجاٸیت بلاتے اور اس معاملے کو گاٶں ہی میں سلجھا لیتے۔ مسز رشید نے کہا ۔ امی ۔ میں قانونی کارواٸی کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوٸی سقم نہ رہے۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔ بیٹا ۔۔۔چوہدریوں کو زیب نہیں دیتا یونین کونسلوں میں خوار ہونا۔ مسز رشید نے کہا ۔ امی ۔۔اب بس کر جاٸیں ۔ میں جب اسے سیدھے سے طلاق دینا چاہتا تھا تب بھی آپ لوگوں کو مسٸلہ ہے۔ اب جب قانونی کارواٸی کرنا چاہتا ہوں تب بھی مسٸلہ ہے۔ آخرآپ اس مسٸلے کو حل کیوں نہیں ہونے دینا چاہتیں۔۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔ میں تمھیں کیسے سمجھاٶں ؟ مسز رشید نے سر پر ہاتھ رکھا۔ امی ۔۔۔آپ مجھے نہ سمجھاٸیں ۔۔ چوہدری صدیق نے کہا۔

ٹھیک ہے لیکن یہ یاد رہے چوہدری صدیق ۔۔یونین کونسل میں کسی بھی طرح سے کوٸی لڑاٸی جھگڑا نہ ہو ۔ مسزرشیدنے کہا۔ میں کوشش کرٶں گا امی ۔۔۔چوہدری صدیق نے کہا ۔ نہیں ۔۔تمھیں میری قسم ۔۔۔مسز رشید نے اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھوایا ۔ امی۔۔۔۔چوہدری صدیق نے ایک سرایت سے اپناہاتھ ماں کے سر سے کھنچ لیا ۔ کھاٶ قسم ۔۔۔چوہدری صدیق ۔۔تم ان کا ہر مطالبہ مانو گے ۔ ورنہ میں تمھیں کبھی نہیں بخشوں گی ۔ یاد رکھنا ۔ مسز رشید نے کہا ان کی آنکھیں آنسوٶں سےبھر گٸیں تھیں۔ امی ۔۔۔چوہدری صدیق کے تمام الفاظ اس کے حلق میں کسی گولے کی مانند پھنس گٸے تھے۔ جو میں نے کہا ہے وہ کان کھول کر سنو ۔۔ورنہ اپنی مری ماں کا منہ دیکھنا ۔ مسز رشید نے کہا تو گویا چوہدری صدیق کی جان پر بن آٸی ۔ امی ۔۔میں ان کے سب مطالبات مانوں گا۔ آپ ابوکومیرے ساتھ بھیج دیجیے گا۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔ دوسری طرف یونین کونسل میں پیشی کے سمن چوہدری عدیم کو بھی ملے ۔ ثمرین کو تو گویا دوسرا جھٹکا لگا ۔ میں کہتی ہوں کریں اپنے دوست کو کال۔کیوں ہماری عزت کو نیلام کر رہا ہے ۔ثمرین تلملاٸی ہوٸیں تھیں۔ ثمرین غصہ مت کرٶ۔ ایسے معاملے غصے سے حل نہیں ہوتے ۔ چوہدری عدیم نے کہا ۔ تو کیا کرٶں۔ یہ کوٸی حالات ہیں۔ اب چوہدری عدیم یونین کونسل میں جا کے پیش ہو گا ؟وہ جو پورے گاٶں کے فیصلے کرتا ہے۔۔ثمرین نے کہا ۔ آپ کال کریں چوہدری رشید کو ۔۔چھوڑنا ہے ہماری بچی کو تو عزت سے چھوڑدیں یوں علاقے میں ذلیل نہ کریں ۔ ثمرین نے کہا ۔ ان کی آواز خاصی بلند تھی۔ سوچنے دو مجھے کچھ ۔۔۔چوہدری رشید نے کہا چوہدری عدیم اور ثمرین اپنے کمرے میں بیٹھے تھے ۔ان کی آوازیں کمرے سے باہر آ رہی تھیں ۔ علی جو کچھ دیر پہلے ہی زمینوں سے واپس آیا تھا۔ ان کی آوازیں سن کر بے اختیار ان کے کمرے کی جانب بڑھا ۔ کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر موجود نفوس ایک دم سےخاموش ہو گٸے۔ آجاٶ۔۔۔چوہدری عدیم نے کہا ۔ اتنی دیرمیں ثمرین بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گٸی تھی۔ ابو ۔ امی سب خیرتو ہے۔ علی نے پہلے باپ کی طرف پھر ماں کی طرف دیکھتےہوۓ کہا۔ علی ۔ یونین کونسل کی طرف سے سمن آیا ہے۔جس میں ارسہ یا اس کی طرف سے منتخب کردہ نماٸندہ کو پیش ہوناہے ۔ ثمرین نے کہا تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے امی ۔میں چلا جاٶں گا۔ علی نے بات کو چٹکیوں میں اڑایا . یہی میں بھی سمجھانا چاہ رہاہوں لیکن تمھاری ماں کو سمجھ آۓ تب نا ۔چوہدری عدیم نے مسکراتےہوۓ کہا۔علی کی بات نے انھیں بھی تسلی دے دی تھی ۔ میں کہہ رہی ہوں کہ چوہدری رشید کو بلاٸیں اوراپنے مردان خانے میں بیٹھ کے معاملہ حل کریں۔یہ یونین کونسل کے چکرمیں نہ پڑیں۔ ثمرین نے اپنا مطمع نظربیان کیا ۔ ہاں۔ اس بات پر بھی سوچاجا سکتا ہے۔ علی نےکہا۔ اچھا تم دونوں کی یہی صلاح ہے تو میں کال کیے دیتا ہوں۔ چوہدری عدیم کی پریشانی کچھ حد تک کم ہو چکی تھی۔ انھوں نے کہا اورچوہدری رشید کو فون ملایا ۔ سلام دعا کے بعد اپنا مدعا بیان کیا ۔ چوہدری عدیم میں خود نہیں چاہتا تھا کہ چوہدری صدیق ایسا کرے ۔ لیکن اس نے بے وقوفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ جیسے کہیں گے ہم ویسے ہی کریں گے۔ چوہدری رشیدنے کہا چوہدری رشید۔۔ہمیں اپنی بچی کاجہیز واپس چاہیے اورعزت سے طلاق ۔۔۔۔یہ یونین کونسل میں ہم نہیں آٸیں گے۔ اورنہ ہی پنچاٸیت بیٹھے گی ۔ چوہدری عدیم نے سختی سے کہا۔ چوہدری صاحب ۔۔میں آپ سے شرمندہ ہوں۔۔۔میں اپناوعدہ نہیں نبھا سکا ۔چوہدری رشید نے شرمندگی سے کہا ۔ چوہدری رشیدوعدےوعید کو اب چھوڑ دو۔۔اپنی نہیں تومیری عزت کا کچھ خیال کرو۔ چوہدری عدیم کا لہجہ سخت سے سخت ہوتا چلا گیا۔ چوہدری صاحب ۔۔۔ہم پورا خیال رکھیں گے ۔ آپ اپنے بندے بھجوا کر اپنی بچی کا سامان اٹھوا لیجیے۔چوہدری رشید نے کہا ۔ شرمندگی بدستور ان کے لہجے سے ٹپک رہی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *