ارسہ اگرچہ چوہدری صدیق کے رویہ کی وجہ سے کبھی خوش نہ رہی تھی لیکن وہ پھر بھی طلاق لینا نہیں چاہتی تھی۔قدرت کو شاید اس کی خواہش کا مان تھا۔ اس کی طبیعت بگڑے لگی ۔ فشار خون کم ہونے کی وجہ سے وہ چکرا کر گری ۔ ارسہ میری بچی ۔ ثمرین بھاگ کر آٸیں۔ بی بی کیا ہوا چھوٹی بی بی کو ۔۔نوکرانی نے جب ارسہ کو گرتے ہوۓ دیکھا تو دوڑی آٸی زینت بی بی میرافون دیں ۔۔جلدی کریں ۔ ثمرین نے نوکرانی کو کہا ۔نوکرانی بھاگ کر فون لے آٸی۔ علی ۔۔۔ارسہ بے ہوش ہو گٸی ہے جلدی آٶ۔ ثمرین نے کال ملاتے ہی کہا ۔ چوہدری عدیم مردان خانے میں گم صم بیٹھے تھے علی ان کی برابر سر جھکاۓ بیٹھا تھا۔ دونوں کے دماغوں میں الگ الگ سوچ کا غبار تھا۔جب علی کا فون بجا اور اسے ارسہ کے بے ہوش ہونے کی خبر ملی ۔ ابو ۔۔ارسہ بےہوش ہو گٸی ہے ۔۔چلیں ۔ وہ دونوں عجلت میں اٹھے اورگھر کے اندرونی حصہ کی جانب بڑھے۔ کیا ہوا ؟ امی ۔۔کیا ہوا۔ علی پریشانی سے ماں کی جانب بڑھا جو ارسہ کےہاتھوں کو ملتے ہوۓ روۓ جا رہی تھیں۔ یہ ارسہ کو ہوش نہیں آ رہا۔ ثمرین نے کہا ۔ اچھا آپ اٹھیں ۔ اسے ہسپتال لے چلتے ہیں ۔ علی نے کہا اوربہن کو اٹھا کر تیز قدموں سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔ ہسپتال پہنچ کر ارسہ کو سٹریچر پر ڈالا گیا ۔ علی ثمرین اور چوہدری عدیم سبھی اس کی زندگی کے لیے دعا گو تھے۔ ارسہ کو کم و بیش دو سے تین گھنٹے میں ہوش آ گیا۔ آپ مریضہ کی والدہ ہیں ؟ نرس نے ثمرین سے پوچھا۔ ثمرین نے اثبات میں سر ہلایا۔ آپ کو ڈاکڑ صاحبہ بلا رہی ہیں ۔ نرس نے کہا اور ایک جانب چل دی بی بی ۔ آپ کی بیٹی ماں بننے والی ہے۔شدید پریشانی اور کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گٸی تھی ۔ آپ اس کا خیال رکھیں اور اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں ۔میں یہ دواٸیں لکھ کر دے رہی ہوں ان دواٶں کا استعمال باقاعدگی سے کرواٸیں ۔ ڈاکٹر نےپیشہ ورانہ لہجے میں ثمرین کو سرزنش کی ۔ ثمرین نےسر ہلایا ۔
انھیں سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ خوش ہوں یا روٸیں۔ آج ہی طلاق کا پہلا نوٹس ملا تھا اور آج ہی یہ خوش خبری۔ انھوں نے ڈاکٹر کے ہاتھ سے دواٶں کی پرچی لی اور کمرے سے باہر نکل آٸیں۔ کمرے کے باہر علی اور چوہدری عدیم بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ارسہ ماں بننے والی ہے ۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے گھر لے جا سکتے ہیں۔ ثمرین نے بمشکل کہا ۔ کیا کہا ۔ چوہدری عدیم کے لیے بھی یہ ایک چونکا دینے والی خبر تھی ۔ چلیں ارسہ کو گھر لے چلتے ہیں ۔ گھر جا کر سوچیں گے کہ اب کیا کریں ۔ علی کی بات موقع کی مناسبت سے سولہ آنے درست تھی۔ چوہدری عدیم اور ثمرین کو بھی یہ بات پسند آٸی ۔ وہ ارسہ کو لینے وارڈ چلی آٸیں ۔ راستہ خاموشی سے کٹا ۔ سبھی اپنی اپنی جگہ سکتے کی حالت میں تھے۔ کوٸی بھی اس خبر سے خوش نہ تھا سواۓ ارسہ کے جس کے لیے یہ خبر ایک نٸی امید ثابت ہوٸی تھی ۔ ارسہ تم اپنے کمرے میں جاٶ ۔۔آرام کرٶ۔۔ثمرین نے ارسہ کو کہا ۔ ارسہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے کی جانب بڑھ گٸی۔ باقی سب صوفوں پر ٹک گٸے۔ میں ابھی اس کی ساس کو فون کرتی ہوں۔ ارسہ کے اپنے کمرے میں جاتے ہی ثمرین نے کہا۔ چوہدری عدیم نے اثبات میں سر ہلایا ۔ امی ۔۔علی نے کچھ کہنا چاہا تو چوہدری عدیم نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔ ثمرین مسز رشید کو کال کرنے لگی ۔ مسز رشید ۔۔ارسہ ماں بننے والی ہے ۔ اور ہمیں آج ہی آپ کے بیٹے کی جانب سے طلاق کے کاغذات وصول ہوۓ ہیں ۔ اب آپ بتاٸیں ہم کیا کریں۔ ثمرین نٕے پریشانی سے کہا ارے بہن کرنا کیا ہے ۔ یہ تو خوشی کی خبر ہے ۔ ہم اپنی بہو کو گھر لے آٸیں گے آج ہی ۔ بس رجوع ہی بہتر ہے ۔ مسزرشید خوش ہو گٸیں جی بہن بہت بہتر ۔ ثمرین نے کہا اور فون کاٹ دیا ۔ ارسہ کے سسرال والے آٸیں گے آج اسے لے جاٸیں گے گھر۔ثمرین نے چوہدری عدیم سے کہا ۔ اس بچے نے فیصلہ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟ ثمرین نے چوہدری عدیم سے مخاطب ہوتےہوۓ کہا ۔ میں نے کیا کہنا ہے۔اب جو ارسہ فیصلہ کرے ۔ چوہدری عدیم ایک لمحے کے لیےخود کو بے بس محسوس کرنے لگے تھے ۔ علی ۔۔۔۔چوہدری عدیم نے علی کی طرف دیکھا ۔ ابو ۔۔ارسہ سے پوچھیں ۔ اس وقت ہمیں اس کی خوشی دیکھنا چاہیے۔ علی نے کہا اور یہ بھی ممکن ہے کہ صدیق کا رویہ بدل جاۓ ۔ اولاد کی خوشی انسان کو بدل دیتی ہے۔ ثمرین نے لقمہ دیا ۔ ہاں یہ بھی ممکن ہے ۔۔لیکن ہمیں پھر بھی ارسہ کے فیصلہ کو مقدم رکھنا ہے اب ۔ چوہدری عدیم نے کہا ۔ ہاں امی ۔۔آپ ارسہ سےپوچھیں۔۔۔لیکن اس پر دباٶ نہیں ڈالنا۔ علی نے کہا۔ ہاں ٹھیک ہے ۔۔۔ثمرین نے کہا اور اٹھ کر ارسہ کے کمرے میں چلی آٸیں۔ ارسہ ۔۔۔بیٹا ۔۔۔تمھاری ساس تمھیں لینے آنا چاہتی ہیں۔ تم بتاٶ کیا تم اپنے گھرجانا چاہتی ہو؟ یا چاہو تو یہاں ہی رہ جاٶ۔ ثمرین نے کہا ۔ امی ۔جیسے آپ کہیں ۔ارسہ نے کہا میں کیا کہوں ۔۔تمھارا دل کیا کہتا ہے ؟ تم اپنا فیصلہ بتاٶ مجھے۔ ثمرین نے کہا میں چلی جاٶں گی امی ۔۔۔ارسہ نٕے نیم دلی سے کہا ۔ ایک طرف تو اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ میکے ہی رہے دوسری طرف اسے یہ امید تھی کہ شاید صدیق کا دل اس خبر سے بدل جاۓ۔ چناچہ اس نے اپنے سسرال جانے کافیصلہ کر لیا ۔ اسی شام چوہدری رشید اور مسز رشید مٹھاٸیوں اور پھلوں کے ٹوکرے لے کر آۓ۔ مبارک سلامت کے ساتھ وہ ارسہ کو اپنے ساتھ لے آۓ ۔ چوہدری صدیق بھی گومگو کے عالم میں تھا ۔ اسے سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ خوش ہو یا اپنے سابقہ رویہ کو برقرار رکھے۔ اس بچے کی آمد نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ ارسہ اب تم زیادہ کام وغیرہ نہ کرنا ۔ بس آرام کرٶ ۔خوش رہو ۔اللہ میرے پوتے کو صحت سلامتی والا اس دنیا میں لاۓ. مسز رشید نے چہکتے ہوۓ کہا۔ جاٶ جا کر اپنے کمرے میں آرام کرٶ۔۔مسز رشید نے کہا اور ارسہ مسکراتے ہوۓ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸی
چوہدری صدیق کچھ دیر بعد گھر میں داخل ہوا ۔ صدیق بیٹا ۔۔مسز رشید نے اسے اپنے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھا تو پکارا جی امی ۔۔چوہدری صدیق کم و بیش ہر معاملے میں اپنے ماں باپ کا تابعدار تھا۔ بیٹے۔ میں ارسہ کو گھر لے آٸی ہوں ۔ مسز رشید کہتے کہتے رکیں کیوں امی ۔۔جب میں نے اسے ایک طلاق کا نوٹس بھیج دیا تھا تو آپ کیوں لے آٸیں اسے واپس ۔۔؟چوہدری صدیق ایک دم سے غصے میں آگیا۔ اس لیے کہ وہ تمھارے بچے کی ماں بننے والی ہے اور میں اپنی اولاد کو کسی اور کے ٹکڑوں پر نہیں پلنے دے سکتی ۔ مسز رشید نے تلملا کر کہا ۔
بچہ ۔۔۔چوہدری صدیق کو ایک دھچکہ لگا ۔ ہاں تمھارا بچہ ۔۔۔چوہدری صدیق ۔۔اب تمھیں اپنا رویہ اس بچے کی ماں سے بدلنا ہو گا ۔ مسز رشید نے کہا امی ۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس بچے کی آمد کی خوشی مناٶں یا پھر غم ۔۔۔کیونکہ ارسہ کا وجود ۔۔اف خدایا ۔ چوہدری صدیق نے اپنے ہاتھوں سے سر کو تھاما ۔ صدیق ۔۔بیٹے۔۔میں خود جاٶں گی تمھاری محبت کو بیاہنے. بس اب ارسہ کو بھی تسلیم کرو۔ اس کےوجود کو اپنے وجود کاحصہ سمجھو۔ سمجھ نہیں سکتے تو سمجھنے کی اداکاری کرٶ۔ مسز رشید اس نے بیٹے کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سمجھایا۔ امی ۔میرےلیے ۔۔۔یہ مشکل ہے ۔۔چوہدری صدیق نے سر جھکا کر کہا ۔ ناممکن نہیں ہے بیٹے ۔ مسز رشید نے اس کے سر پر تھپکی دی ۔ امی۔۔میں کوشش کرٶں گا۔ چوہدری صدیق کا بدلا ہوا رویہ مسز رشید کے لیے سکون کی ایک لہر ثابت ہوا تھا۔ اللہ تمھیں ہمت دے۔۔جاٶ۔ اس کو جا کر تسلی دو کہ تم اس کے ساتھ ہو ۔۔مسز رشید نے کہا ۔ چوہدری صدیق نے سر ہلایا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔ ارسہ جو اپنے کمرے میں لیٹی تھی سونے کی اداکاری کرنے لگی ۔ کاش ۔۔میری زندگی میں کوٸی اور نہ ہوتی ۔۔۔چوہدری صدیق ۔۔اس کے اوپر جھک کر کہا اور اس کے ماتھے کو چوم لیا۔ ارسہ کے لیے یہ بوسہ بھی کافی تھا۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔ مبارک ہو ۔۔چوہدری صدیق مسکرایا۔ ارسہ نے اپنی شادی کے بعد چوہدری صدیق کو بہت کم مسکراتے دیکھاتھا۔ آپ کو بھی مبارک ہو ۔ ارسہ نے مسکرا کراپنی نظروں کو جھکا لیا۔ چوہدری صدیق کو اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاٸشہ اور اس کے گھر والوں نے جب سے سنا تھا کہ ارسہ کو طلاق ہو گٸی ہے وہ دن رات اس کے لیے دعا کے لیے دعا کرتےتھے ۔ خصوصا رابعہ تو اس کے لیے خصوصی دعاٸیں کیا کرتیں تھیں۔ رابعہ بھی ثمرین کو گاہے بگاہے کال کر کے اس کا حال چال دریافت کرتی۔ حسب عادت رابعہ نے ثمرین کو کال کیا توانھوں نے پرسکون لہجے میں بتایا کہ ارسہ کو اس کے سسرال والے واپس گھر لے گٸے ہیں ۔ انھوں نے ارسہ کے ماں بننے کی خوش خبری بھی سناٸی ۔ بہن آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔۔میں آپ کے گھر ضرور آٶں گی ۔ رابعہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا ۔ خیر مبارک بہن۔۔بس دعا کیجیے گا کہ اب میری بچی کا گھر بسا رہے ۔ ثمرین نے منت کرنے کے سے انداز میں کہا