”بیٹا یہ اتنا مشکل تو نہیں ۔۔۔تم کوشش تو کر سکتے ہویا نہیں ؟ “چوہدری رشید نے اداسی سے کہا ۔ ”ابو میں کوشش کرنا چاہتا ہی نہیں ۔ آپ اس عورت کو میری زندگی میں تھوپ کر اس پر اور مجھ دونوں پر ظلم کر رہے ہیں“۔ چوہدری صدیق نے دلیل دیتے ہوۓ کہا۔ ”ابو ابھی وہ جوان ہے اس کے لیے کسی اور مرد کو چننا آسان ہو گا کچھ سالوں بعد اس کے لیے بہت کچھ ممکن نہیں رہے گا“ ۔چوہدری صدیق یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
چوہدری صدیق نے ارسہ کو گھر لانے کے لیے نہ ماننا تھا اور نہ وہ مانا۔ ”ابو ۔۔میں ارسہ کو طلاق کے کاغذات بھیجوانا چاہتا ہوں۔“ چوہدری صدیق نے اپنا فیصلہ ماں باپ کو سنایا ۔ ”صدیق کچھ ہماری عزت کا پاس رکھو۔ “مسز رشید نے منت بھرے لہجے میں کہا ۔ ”امی عزت کا پاس ہی تو رکھ رہا ہوں اسی لیے خود کو اور اس بےگناہ کو ڈیڑھ سال سے سولی پر چڑھا رکھا ہے۔“ چوہدری صدیق نے دلیل سے بات کی ۔ ”صدیق ۔۔۔بیٹا ۔“ چوہدری رشید نے کچھ کہنا چاہا ۔ ”ابو۔۔۔انسان کے جذبات بدلنا آسان نہیں۔ آپ نے کہا شادی کر لو ۔۔میں نے کر لی لیکن میں اپنے دل میں اس کے لیےمحبت کہاں سے لاٶں ؟“ چوہدری صدیق نے کہا ۔ کمرے میں ایک لمحے کے لے خاموشی چھا گٸی ۔ ”تم سوچ لو بیٹے ۔۔۔یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے ۔ ہماری پرکھوں کی۔“۔چوہدری رشید کہتے کہتے رک گٸے ۔ ”ابو ۔۔۔یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ امی کے ساتھ نہیں آٸی ۔۔مطلب وہ بھی تھک چکی ہے ۔ اس کے بھی صبر کی انتہا ہو چکی ہے۔ اب آپ لوگ بھی بس کریں ۔“ چوہدری صدیق نے تھکے ماندے لہجے میں کہا۔ ”کہہ صحیح رہا ہے ۔ بختاں والیے ۔۔تم بھی اب انا کے خول سے باہر نکل آٶ۔“ چوہدری رشید نے سمجھایا۔ ”میں تو پاگل ہو جاٶں گی۔ اس لڑکے نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ “مسز رشید نے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔ ”امی۔۔ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ۔ اگر ارسہ آپ کی بیٹی ہوتی ؟“ چوہدری صدیق نے ترپ کا پتہ کھیلا۔
”اسی لیے تمھیں کہہ رہی ہوں کہ تم اپنے اندر لچک پیدا کرٶ ۔ اس بچاری نے تو اپنی ہمت سے زیادہ صبر کیا ہے ۔“ مسز رشید نے کہا ۔ ”امی ۔۔۔میں اپنی ذات میں لچک پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے آپ کو کہہ رہا ہوں کہ آپ اس معاملے کو ختم کریں ۔۔ مزید برداشت نہ اس میں ہے اور نہ مجھ میں ۔“ چوہدری صدیق نے کہااور سر جھکا لیا ۔ دل ہی دل میں اسے ارسہ پر ترس آنے لگا تھا لیکن یہ ترس اسے گھر واپس لانے پر قاٸل کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ ”کہہ یہ ٹھیک رہا ہے۔ “چوہدری رشید نے مسز رشید کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔ ”پھر مجھے بتاٸیں میں کیا کرٶں ۔پورے خاندان والوں کی لعنت ملامت طنز طعنے برداشت کرٶں ؟ اس مسٸلے کا کیا حل نکالوں ؟“ مسز رشید نے پریشانی سے کہا ۔ ”آپ ارسہ کے گھر جاٸیں اور اس کے ماں باپ سے بات کریں“۔چوہدری رشید نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوۓ کہا ۔ ”میں اس کو لینے جاٶں گی۔ اور کوٸی بات نہیں کرٶں گی میں۔۔سن لیں آپ اچھی طرح“۔مسز رشید نے تنک کر کہا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادل گھر چکے تھے ایسا لگتا تھا جیسے آج تو جل تھل ہو جاۓ گی ۔ حبس کافی سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ ارسہ کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ ”ارسہ تمھاری ساس کا فون آیا ہے۔ وہ آ رہی ہیں تمھیں لینے“ ۔ ثمرین نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔ ً”امی ۔۔صدیق“۔۔ارسہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ پاٸی ”صدیق کا تو میں نے پوچھا ہی نہیں ۔شاید وہ آۓ یا پتہ نہیں ۔“ ثمرین نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔ پوچھنا چاہیے تھا۔۔ارسہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہیں پاٸی۔ ”چلو کپڑے تبدیل کر لو اور تھوڑا فرش ہو جاٶ۔ وہ آٸیں گی تو یہ نہ کہیں کہ ماں باپ کے گھر تم نے حلیہ خراب کر رکھا ہے۔“ ثمرین نے سمجھایا۔ ارسہ ان کی اس بات پر سر ہلا کر رہ گٸی۔ ”بیٹا ۔۔بے شک صبر کا پھل میٹھا ہے۔“ ثمرین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ان کا دل دکھ سے بھر چکا تھا ۔ انھیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ اپنی پھول سی بچی کو صبر کی تلقین کریں یا نہیں ۔ کبھی کبھار ان کے دل میں علی کی باتوں کے درست ہونے کا خیال آتا۔ شام ڈھلے مسز رشید حویلی پہنچ گٸی۔ان کو مہمان خانے میں بٹھایا گیا اور چاۓ پانی کا انتظام کر دیا گیا ۔ ”ثمرین بہن ۔ میں اپنی بہو کو لینے آٸی ہوں ۔ “مسز رشید کی نگاہیں جھکی ہوٸی تھیں۔ ”بہن ۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ چوہدری صدیق اور چوہدری رشید بھی آتے۔“ ثمرین نے مضبوط لیکن ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا ۔ ”ہونا تو بہت کچھ چاہیے لیکن ہوتا نہیں ۔ “مسز رشید نے کہا ۔
”بہن آپ اپنے بیٹے کو سمجھاٸیں اسے قاٸل کریں ۔ معاملات اس طرح نہیں چلاۓ جا سکتے جیسے وہ چلا رہا ہے۔“ثمرین آج پہلی بار ارسہ کی طرفداری کرتے ہوۓ کہنے لگیں۔ ”ثمرین ۔ اگر سچ پوچھیں تو صدیق خوش نہیں ارسہ کے ساتھ ۔“ مسز رشید نے کسی ایسے چور کی مانند کہا جس کی چوری ایک دم سے پکڑی گٸی ہو۔ ”اس میں میری ارسہ کا کیا قصور ہے یہ بتاٸیں ۔ “ثمرین نے قدرے غصے کا اظہار کیا ۔ ”آپ کی بچی کا کوٸی قصور نہیں ہے۔“ مسز رشید نے سر جھکا کر کہا۔ ”تو پھر اپنے بیٹے کو کہیے گا کہ وہ میری بچی کو خود لینے آۓ۔ بیوی ہے اس کی ۔کوٸی اینٹ پتھر کی بنی مورت تو نہیں کہ آپ کابیٹا ہر دوسرے روز اس سے لڑتا ہی رہے ۔“ ثمرین نے کہا ”آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ ابھی میں اپنی بہو سے ملنا چاہتی ہوں“۔مسزرشید نے کہا ”میں ابھی بلواتی ہوں ۔“ثمرین نے چار و ناچار ارسہ کو بلوایا ”کیسی ہو بیٹا ؟“ سلام دعا کے بعد مسز رشید نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا کر پوچھا۔ ”آنٹی میں ٹھیک ہوں ۔ “ارسہ نے سر جھکا کر کہا ”بیٹا صدیق تمھیں لینے نہیں آیا ۔لیکن میں آٸی ہوں ۔ بچیاں اپنے گھرہی اچھی لگتی ہیں۔ ماں باپ کے گھر وہ پراٸی ہی ہوا کرتی ہیں ۔“ مسز رشید نے سمجھایا ۔ ”میں سمجھتی ہوں آنٹی۔ لیکن میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں کے مطابق فیصلہ کرٶں گی ۔“ ارسہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ وہ میکے کا سہارا نہیں گوانا چاہتی تھی۔ ”بیٹا ۔۔پھر سے سوچ لو ۔ آج تمھیں میرے ساتھ چلنا چاہیے ۔“ مسز رشید نے تنبہہ کے انداز میں کہا ۔ ”آنٹی ۔ میں نے ہمیشہ اپنے والدین کے فیصلوں پر عمل کیا ہے اور آٸیندہ بھی کروں گی ۔“ ارسہ نے اٹل لہجے میں کہا ۔ ”ٹھیک ہے بیٹے ۔ تم سمجھدار ہو ۔ ۔۔میں چلتی ہوں۔“ مسز رشید اٹھ کھڑی ہوٸیں۔ ”بہن ۔ زندگی بچوں نے گزارنا ہے۔ آپ صدیق کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔ “ثمرین نے کہا۔مسز رشید نے سر ہلایا اور باہر نکل گٸیں۔ ”امی۔۔۔صدیق کبھی مجھے لینے نہیں آۓ گا ۔“ ارسہ کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح صوفے پر ڈھے گٸی ۔ ”اسے آنا چاہیے ۔تم کوٸی لاوارث نہیں ہو ۔ “ثمرین نے کہا ۔ارسہ نے بے یقینی سے اپنی ماں کی طرف دیکھاجیسے کہہ رہی ہو کہ کیا یہ سچ ہے ؟ ثمرین نے اپنی بیٹی کی نظروں کا مطلب پڑھا اور شرمندگی سے سر جھکا گٸیں ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ”بیٹا ۔ رونا نہیں ۔“ثمرین نے کہہ کر اسے اپنے گلےسے لگایا ۔ اسی اثنإ میں چوہدری عدیم گھر داخل ہوۓ ارسہ کا رویا رویا چہرہ دیکھ کر فکر مند ہو گٸے ۔ ”کیا ہوا ۔۔؟ ارسہ بیٹے تم روٸی کیوں ہو ؟ “چوہدری عدیم نے پریشانی سے کہا۔ ”ابو ۔۔“ارسہ نے بات کرنا چاہی لیکن آنسو اس کے حلق میں پھنس کر رہ گٸے۔ ”چوہدری صاحب ! آج ارسہ کی ساس آٸی تھیں اکیلی اسے واپس لے جاۓ ۔“ ثمرین نے مختصرا بتایا ۔ ”ارسہ کی ساس اکیلے کیوں آٸی تھیں ۔ انھیں صدیق یا رشید بھاٸی کو ساتھ لانا چاہیے تھا ۔ “چوہدری عدیم نے کہا ”بالکل میں نے بھی یہی کہا ہے کہ کم از کم کوٸی مرد تو آتا حق یہ بنتا ہے کہ صدیق آتا۔ “ثمرین نے کہا ۔ ”تم نے بالکل ٹھیک کہا ۔ ہم نے پہلے ہی اپنی بچی کو بہت کم مایہ کر دیا ہے۔ “چوہدری عدیم نے سوچتے ہوۓ کہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بہن ۔۔میں سوچ رہی ہوں کہ اس دفعہ حمزہ پاکستان آۓتو اس کی شادی کر دوں۔لیکن وہ مانے تب نا۔رابعہ نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوۓکہا۔ ۔۔
بہن مان جاۓ گا ۔ بس اللہ ہر بچے کو خوش رکھے۔ ثمرین نے دعاٸیہ انداز میں کہا ۔
آمین آمین۔۔۔رابعہ نے کہا ۔
ارسہ آٶ ہم تمھارے کمرےمیں چلتے ہیں جب سے تمھاری شادی ہوٸی ہے تم سے کوٸی بات ہی نہیں ہو پاتی۔ عاٸشہ نے مسکرا کر کھڑتے ہوتے ہوۓ کہا۔
ہاں ہاں چلو ۔۔۔یار یہ شادی شدہ زندگی ہوتی ہی ایسی ہے ۔ ارسہ نے رسانیت سے کہااور وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گٸیں ۔
ارسہ سب خیرتو ہے نا ۔ ۔۔عاٸشہ نے ارسہ کے لہجےمیں چھپے ہوۓ دکھ کوپڑھتے ہوۓکہا۔
خیر ہے عاٸشہ۔۔ہونا کیا ہے۔۔ارسہ نےکہا۔ اسکا لہجہ اور آنکھیں اس کے حالات کے غماز تھے۔
ارسہ ۔۔۔ہم دوست ہیں ۔ تم مجھ سے بھی چھپاٶ گی ؟۔۔عاٸشہ نےگلہ کرنے کے سے انداز میں کہا ۔
نہیں نہیں ۔۔تم سے کیا چھپانا لیکن بتانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ ارسہ نے کہا ۔
سیدھی طرح بتاٶ کیا چل رہا ہے تمھارے ساتھ ؟ عاٸشہ نے پوچھا۔
یار ۔۔وہی سسرال کے معاملات کچھ بھی نیا نہیں ۔۔ارسہ نے ٹالنے کی کوشش کی ۔
صدیق بھاٸی تو ٹھیک ہیں نا تمھارے ساتھ ؟ عاٸشہ نے پوچھا ۔
ٹھیک ۔۔۔ہاں ٹھیک ہیں ۔ ارسہ چاہتی تھی کہ عاٸشہ کو سب سچ سچ بتا دے لیکن اس کی انا آڑے آتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
جون کے مہینے کا آغاز تھا۔سورج اپنی تمازت زمین کے چہرے پر بکھیر رہا تھا ۔زمین کا سنولایا ہوا چہرہ مزید دہکنے لگا تھا۔۔چوہدری عدیم کی حویلی کا بیرونی حصہ جیسے وہ ڈیرہ بھی کہتے تھے اس وقت مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ملازم اپنے کمروں میں پڑے اونگھ رہے تھے جبکہ چوہدری عدیم بھی تخت پر نیم دراز کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے ۔ چوہدری رشید چوہدری عدیم کے ڈیرے پر پہنچا۔
السلام علیکم چوہدری جی ۔ اس کے سلام پر چوہدری عدیم ایک دم سے اٹھ بیٹھے ۔پرتپاک انداز میں دونوں دوست ملے ۔
خیر چوہدری جی آپ یہاں ڈیرے پر ۔ چوہدری عدیم نے پوچھا ۔
بات ایسی تھی چوہدری جی کہ گھر میں کرنا مناسب نہ لگا۔ چوہدری رشیدنے قدرے شرمندہ لہجے میں کہا ۔
ایسی کیا بات ہے چوہدری جی۔چوہدری عدیم اس کی بات کرنے کے انداز سے اتنا متاثرہوا کہ چاۓ پانی پوچھنا ہی بھول گیا۔
چوہدری جی ۔۔میں نے صدیق کو بہت سمجھایا ہے لیکن مجھے لگتا ہے یہ معاملہ طے ہونہیں پاۓگا ۔ ارسہ کو میں اور تمھاری بھابھی تو بسانا چاہتے ہیں لیکن ۔۔۔چوہدری رشید شرمندگی کی اتھاہ گہراٸیوں میں ڈوب کر بولا۔
لیکن کیا چوہدری رشید ۔۔۔چوہدری عدیم نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
یار ۔۔۔صدیق کا رویہ ۔۔۔چوہدری رشید کے لیےمناسب الفاظ تلاش کرنا مشکل ہو گیا۔
کیا ہوا چوہدری رشید۔ بولو کیوں میرا دل ہولاۓ دیتے ہو ؟چوہدری عدیم بیٹی کے باپ تھے وہ بھی لاڈلی بیٹی کے ۔
چوہدری جی ۔۔صدیق ارسہ کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا ۔۔چوہدری رشید نے کہا ۔ کیا کہا۔۔۔
چوہدری عدیم کو ان سب باتوں کا اندازہ ضرور تھا لیکن انھیں لگتا تھا کہ کبھی نہ کبھی حالات بہتر ضرور ہوں گے۔ ۔چوہدری عدیم کو چوہدری صدیق کی بات نےجھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
چوہدری ۔۔۔ہم نے ہر طرح سے بات کر دیکھی ہے صدیق کسی طور ارسہ کو گھر لانٕے پررضا مند نہیں۔۔چوہدری رشید نٕے کہا ۔
کتنی آسانی سے کہہ رہے ہو یہ سب۔ کتنی آسانی سے ۔ چوہدری عدیم پر تو گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔
چوہدری جی ۔۔میں سمجھتا ہوں ۔۔میں نے اپنی کوشش کی پوری ۔۔چوہدری رشید نے شرمندگی سے کہا ۔
کوشش کی ۔کیسی کوشش کی جو پھل نہ لاٸی ۔ چوہدری عدیم نے گلہ کیا ۔ چوہدری رشید سے کچھ نہ بن پایا ۔ وہ خاموشی سے سر جھکا گٸے ۔ کافی وقت اسی خاموشی میں گزر گیا ۔
چلتا ہوں ۔۔۔مجھے معاف کر دینا دوست ۔ چوہدری رشید نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔
چوہدری عدیم نے جھکی ہوٸی گردن اٹھاٸی اس کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا ۔ چوہدری رشید بھاری قدموں سے ڈیرے کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔
علی جب ڈیرےپر آیا تو اس نے چوہدری عدیم کو سر جھکاۓ بیٹھے پایا ۔
خیرو بابا ۔۔خیردین بابا ۔۔پانی لاٸیں ۔ابو جی آپ کو کیا ہوا ؟ ۔ علی ڈیرے پر پہنچتے ہی گبھرا سا گیا ۔ اس نے آج سے پہلے اپنے باپ کو اس طرح پریشان نہ دیکھا تھا ۔
خیرالدین جیسے سب خیرو بابا کہہ کر بلاتے تھے علی کی آواز سن کر بھاگا چلا آیا ۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا جگ اور گلاس تھا ۔
ابوجی ۔۔پانی پیں ۔۔علی نے پانی کا گلاس باپ کی جانب بڑھایا ۔
ضرورت نہیں ہے علی۔۔چوہدری عدیم نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
ابوجی۔۔۔پھر بھی پانی پی لیں ۔۔خیرو بابا ۔۔یہ پانی یہاں میز پر رکھ دیں ۔ علی نے خیردین کو پانی میز پر رکھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا ۔ خیر دین نے پانی میز پر رکھا اور خود باہر نکل گیا ۔ علی اس کے باہر نکل جانے کا انتظار کرنے لگا ۔
ابوجی ۔۔مجھے بتاٸیں کیا ہوا۔۔۔پلیز ابو ۔۔۔علی باپ کے قدموں میں جا بیٹھا ۔
علی ایک طوفان گزر گیا اور دوسرا گزرنا باقی ہے۔۔۔چوہدری عدیم نے اسے اٹھایا اور کہا ۔
ابو جی ۔۔کیسا طوفان ۔۔؟ علی نے پوچھا۔۔
علی ۔ارسہ کا سسر اور میرا دوست ۔۔چوہدری رشید آیا تھا۔۔چوہدری عدیم نے کہا۔ کیا کہا اس نے ابوجی۔۔۔؟ علی نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا ۔ چوہدری عدیم اسے تمام بات بتانے لگے ۔
جیسے جیسے تمام واقعہ علی کے سامنے کھل رہا تھا علی کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہوتا جا رہا تھا۔
میں جانتا تھا ابوکہ یہی ہونا ہے ۔۔۔لیکن امی نے میری ایک نہ سنی۔ ارسہ کب سے سہہ رہی تھی کسی نے اس کا نہیں سوچا ۔ اگر سب کو خیال تھا تو صرف لوگوں اور ان کی باتوں کا ۔۔علی نٕے غصے سے کہا۔
علی ۔۔۔غصہ کرنے سے مسٸلہ حل نہیں ہونا ۔۔۔۔ ٹھنڈے ہو کر مسٸلوں کا حل سوچو ۔۔چوہدری عدیم نے کہا ۔
ابوجی ۔۔۔میرا بس چلے نا تو میں اس صدیق کو جان سے مار دوں آخر اس نے ہماری بہن کو سمجھا کیا ہے ؟۔۔علی نے تلملاتے ہوۓ کہا ۔
ابوجی ۔۔بس اب بہت ہو گیا ۔۔اگر آپ اجازت دیں تو میں صدیق سے خود بات کرٶں۔علی نے غصے سے کہا
نہیں علی ۔۔ایسے تو ارسہ کا بسا بسایا گھر اجڑ جاۓ گا ۔چوہدری عدیم نے سمجھایا ۔
ابو ۔۔آپ ابھی تک اس گھرکو بسا ہوا کہہ رہے ہیں ؟ کمال ہے۔ علی نے تلملاتے ہوۓ کہا ۔
علی ۔غصہ سے نہیں سمجھداری سے اس معاملہ کو حل کرنا ہے ابھی ۔ چوہدری عدیم نے سمجھایا ۔
حل ہو ہی نہیں سکتا ابوجی ۔۔۔یہ معاملہ کبھی حل نہیں ہوگا ۔ علی نے اپنے سرکو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔
لیکن ہم خلع نہیں لیں گے ۔ ارسہ یہیں حویلی رہے لیکن طلاق کا داغ نہ لگے اس کے ماتھے پر ۔ چوہدری عدیم نے سوچتے ہوۓ کہا
یہ کہاں کا انصاف ہے ابوجی کہ جو شخص اسے اپنے ساتھ رکھنا ہی نہیں چاہتا وہ اس کے نام کے ساتھ زندگی گزارتی رہے ۔ علی نے جنھجنھلا کر کہا۔
علی ۔۔تم بچے ہو ابھی ۔۔عزت غیرت کے معاملات میں کبھی کبھار زندگیوں تک کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔ چوہدری عدیم نے کہا
جی ابو ۔۔اور ہمیشہ سے یہ قربانی عورت دیتی آٸی ہے۔ لیکن میں ارسہ کو غیرت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا ۔۔علی نے کہا.
علی ۔ معاملات میں بہتری لانے کے لیے کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ چوہدری عدیم نے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا ۔علی نے بحث مناسب نہ سمجھی اور سر جھکا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری صدیق گھر سے نکلا تو سیدھا وکیل کے دفتر جا پہنچا ۔ آج اسے ہر حال میں طلاق کے کاغذات تیار کروانا تھے ۔
چند دن میں کاغذات تیار ہو گٸے
چوہدری صدیق نے کاغذات چوہدری عدیم کی حویلی میں بھجوا دیے ۔
طلاق کے کاغذات دیکھ کر جہاں ارسہ کا دل دکھ سے بھرا گیا وہاں ثمرین کے ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔
امی ! میں کہتا ہوں ٹھیک ہو گیا ۔ سمجھیں اس بات کو ۔ علی ان کاغذات کو دیکھ کر پرسکون ہو گیا۔
علی ۔۔۔خاندان میں۔۔۔۔ثمرین روہانسی ہو کر کہنےلگی ۔
کیا خاندان میں ؟ ۔۔۔امی ہم ارسہ کے لیے اب اک بہتر انسان تلاش کر سکتےہیں۔۔ علی نے ماں کو کندھوں سے تھامتے ہوۓ کہا۔
بہتر انسان ۔۔۔ثمرین نے حیرانی سے پوچھا ۔
جی امی ۔۔۔ارسہ کی ابھی عمر ہی کیا ہے ؟ کوٸی اور شخص ملنا اتنا مشکل تو نہیں ۔ علی نے سمجھایا۔
لیکن ایک طلاق یافتہ۔۔۔۔۔ثمرین نے جھجھکتے ہوۓ کہا ۔
آپ دعا کریں ۔۔۔کچھ بہتر سبب ہو ۔۔۔علی نے کہااور کمرے میں خاموشی چھا گٸی ۔
میں بات کرتا ہوں چوہدری رشید سے ۔۔یہ کیا طریقہ ہے کہ ہماری عزت کو نیلام کر دیا۔چوہدری عدیم جو کافی دیر سے سب کی باتیں سن رہے تھے ایک دم سے کہنے لگے ۔
کیا بات کریں گے آپ ؟ اب رہ گیا ہے کچھ بات کرنے کو ؟ ثمرین نے دکھ سے کہا
رہ گیا ہے ۔ میں اس سے پوچھوں تو سہی کہ کیا قانونی کارواٸی سےپہلے وہ مجھ سے بات نہیں کر سکتے تھے ۔ چوہدری عدیم نے تلملاتے ہوۓ کہا
ہاں یہ تو آپ نے ٹھیک کہا ہے ۔۔یہ تو کوٸی طریقہ ہی نہیں کہ ایک دم سے قانونی کارواٸی کر دی ۔ ثمرین نے کہا
نہیں امی ۔۔میرے خیال سے رہنے دیں ۔۔کوٸی فاٸدہ نہیں ۔ علی نے نفی میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا ۔
فاٸدہ ہے علی ۔۔۔وہ میرا دوست تھا سمدھی ہونے سے پہلے ۔ اسے اس سب کا جواب تو دینا پڑے گا ۔ چوہدری عدیم نے کہا ۔
دیکھیں لیں ابو جی ۔۔۔مجھے جو سمجھ آیا میں نے آپ کو کہا ۔ اب آپ بہتر سمجھتےہیں۔علی نے کہا
ہاۓ ۔۔لٹ میری بچی گٸی ۔ اب کچھ بھی ہو کوٸی بھی بات ہو ۔ کیا فاٸدہ ثمرین تھوڑہ تھوڑہ دیر بعد رونے لگتی۔
امی ۔۔۔خدا کے لیے سنبھالیں خود کو ۔۔علی نے ثمرین سے مخاطب ہو کر کہا ۔
ثمرین جو معاملہ ہو گیا ہے۔ اس کا سامنا تو کرنا ہے نا ۔۔چوہدری عدیم نے کہا ۔ ثمرین پھر سے سسک اٹھی
امی۔اب بس کریں ۔ علی نے کہا تو ثمرین نے آنسو پونچھ ڈالے
علی میں بیٹھک جا رہا ہوں ۔ تم ادھر آٶ۔ چوہدری عدیم نے ایک بار ثمرین کی جانب دیکھا پھر علی سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا۔
ارسہ مردہ قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں چلی آٸی۔ کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کر کے بستر پر گر گٸی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ جب رو کر تھک چکی اس کے دل میں جو پہلا خیال آیا وہ تھا حمزہ کی بددعا یا آہ.
حمزہ ۔۔۔۔اس نے نام پکارا اور فون اٹھایا۔
حمزہ ۔۔میں نے آپ کو دکھ دیا ہے دیکھیں آج مجھے کیسا دکھ نصیب ہوا ۔ کیسی ذلت میرے نصیب میں لکھی گٸی۔ ارسہ نے میسج ٹاٸپ کیا اور حمزہ کو وٹس ایپ کر دیا۔
حمزہ کو پاکستان آۓ آج بارہ دن ہو گٸے تھے ۔ وہ چاہتا تھا کہ علی اور چوہدری عدیم سے ملےلیکن اس کا دل اس بات پرقاٸل نہ تھا ۔
کیا ہوا آپ کو ۔۔۔ارسہ ۔۔۔؟ حمزہ نے میسج کا جواب دیا۔
مجھے طلاق ہو گٸی ۔ ارسہ نے جواباً کہا
کیا ۔۔۔طلاق ۔۔۔تم ہوش میں ہو ؟ ۔ حمزہ پر تو گویا گھڑوں پانی پڑ گیا ۔
میں نے تو تمھارے لیے خوشی کی دعا کی تھی ارسہ ۔ حمزہ نے باآواز بلند کہا ۔اوراپنے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا
کیا ہوا حمزہ ۔۔؟ عاٸشہ جو چاۓ کا کپ تھامے حمزہ کی جانب آ رہی تھی ۔ اسے اس حالت میں دیکھا تو چاۓ کا کپ ساٸیڈ ٹیبل پر رکھ کر پوچھنے لگی۔
باجی ۔۔۔ارسہ کو طلاق ہو گٸی ۔۔حمزہ نے سر اٹھا کر عاٸشہ کی جانب دیکھا شدت ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
یہ کیا کہہ رہے ہو تم اور تمھیں کیسے پتہ چلا ۔۔۔عاٸشہ نے بے یقینی سے پوچھا۔ حمزہ نے جواب دینے کی بجاۓ موباٸل عاٸشہ کی جانب بڑھایا۔
عاٸشہ نے موباٸل ہاتھ میں پکڑا میسج دیکھے اور بیڈ پر اچھال دیاایسے جیسے اس کے ہاتھ کو کسی بچھو نے کاٹ لیا ہوا۔
یہ کیسے ہو گیا سمجھ نہیں آتی ۔ ارسہ نے تو ہمیشہ کہتی تھی کہ اس کے گھر میں سب صحیح ہے ۔ تو اس طرح اچانک ۔ ۔۔حمزہ کیا تم ۔۔۔۔عاٸشہ بات کرتے کرتے دوسری بات کرنے لگتی۔
باجی ۔۔۔نہیں ۔۔میں نے کبھی اسے بددعا نہیں دی کبھی بھی نہیں۔ ہمیشہ دعا ہی دی ہے ۔ حمزہ نے صفاٸی دیتے ہوۓ کہا۔
حمزہ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کہوں ۔ عاٸشہ نے پریشانی سے کہا ۔
باجی ۔۔آپ ارسہ کو فون کریں ۔ اس سے پوچھیں ۔ حمزہ ابھی تک بے یقینی کاشکار تھا۔عاٸشہ حمزہ کی بات کا جواب دینے کی بجاۓ کمرے سے باہر نکل گٸی۔
عاٸشہ اپنے کمرے میں پڑے فون سے ارسہ کو کال ملانے لگی۔
ارسہ ۔۔یہ میں کیا سن رہی ہوں ۔۔تمھیں ۔۔۔عاٸشہ نےدانستہ بات ادھوری چھوڑی
ہاں ۔۔آج پہلا نوٹس آ گیا ہے۔ارسہ نے اداسی سے کہا اور ایک لمحے کے لیے دبیز خاموشی نے ان کے درمیان پر تان لیے۔
یار ۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے اس شخص کے ساتھ نبھانے کی ۔ ارسہ نےخاموشی کو توڑا
پہلا نوٹس ہے ۔ شاید آگے بہتری ہو جاۓ ۔ میں تمھارے لیے دعا کرٶں گی نا۔ عاٸشہ نہ جانے اسے تسلی دینا چاہتی تھی یا پھر ایک امید اس کے ہاتھ میں تھمانا چاپتی تھی ۔
یار۔۔۔کچھ بھی سہی ۔۔میں نہیں چاہتی کہ لوگ باتیں کریں اور میرے گھر والوں کو تکلیف پہنچے۔ ارسہ نے کہا
اللہ خیر کرے گا ۔ عاٸشہ نے کہا
ہاں ۔۔۔ارسہ نے مایوسی سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔