چوہدری صدیق ارسہ کو بےعزت کرنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ ارسہ کی عزت نفس مجروح ہو کر رہ گٸی تھی۔ چوہدری صدیق کا جب جی چاہتا وہ اس کو بےعزت کر کے رکھ دیتا۔ وہ اپنے نا کردہ گناہوں پر جلتی کڑتی رہتی ۔اس کا رنگ روپ گہنانے لگا تھا ۔

وہ حمزہ کو یاد تو کرتی لیکن اسے بھی اپنے دل کا حال نہ بتاتی۔ چوہدری صدیق نے اپنا رویہ نہ بدلا تھا ۔

گرمی کا موسم شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔

ارسہ بیٹے ۔۔تم آج نمکین لسی بناٶ ۔۔۔مسز رشید نے ارسہ سے کہا ۔

آنٹی مجھے لسی بنانی نہیں آتی ۔مجھے سیکھا دیں۔۔ارسہ نے معصومیت سے کہا ۔

ہاں میں سیکھاتی ہوں۔۔۔اور چلیں۔۔مسز رشید خوشی خوشی اٹھ کھڑی ہوٸیں ۔۔

وہ دونوں ساس بہو باورچی خانے میں کھانے پکانےمیں مصروف ہو گٸیں۔باورچی خانے میں آتے ہٕ مسز رشید کا دل ساگ لسی چٹنی بنانے کو چاہا ۔ ارسہ نے ساس کو خوش دیکھا تو ان کا ساتھ دینے لگی۔ارسہ کو جو جو نہیں بنانا آتا تھا مسز رشید اسے سیکھانے لگیں۔ دونوں کھانا بنا رہی تھی ساتھ ساتھ باتیں کرتی اور ہنستیں جا رہی تھیں۔ جب چوہدری صدیق آیا تو مسز رشید ہنڈیا میں چمچ ہلا رہی تھیں جبکہ ارسہ ساتھ کھڑی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ چوہدری صدیق باروچی خانے میں پانی لینے کے لیے آیا تو اس نے یہ منظر دیکھا۔

امی ۔آپ یہاں کچن میں کیا کر رہی ہیں؟۔۔۔ وہ ایک دم سے بولا ۔

صدیق بیٹا ۔۔تم کب آۓ ۔ میں نے سوچا آج ذرا دیسی کھانا پکواٶں تو بہو کے ساتھ باورچی خانے چلی آٸی ۔ مسز رشید نے مسکرا کر کہا۔

تو آپ کی بہو کو اس کی ماں نے کیا صرف ٹسوے بہانا سیکھایا ہے کوٸی اورکام نہیں سیکھایا۔ صدیق نے طنز کا تیر چلایا۔

صدیق تم ہوش میں ہو ؟ یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا ۔ مسز رشید نے اسے جھڑکا ۔

اس میں غلط کیا ہے امی ۔۔۔محترمہ کو فیشن کرنے کے سوا کیا آتا ہے ؟ ۔ صدیق نے کہا ۔

ارسہ نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ شادی کے بعد تو اس نے اچھا پہننا اوڑھنا تک چھوڑ دیا تھا۔

چوہدری صدیق ۔۔تم اتنا غصہ کیوں کرنے لگے ہو۔ مسز رشید نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا ۔

امی اس عورت کی شکل دیکھتے ہی مجھے غصہ آنے لگتا ہے اور پھر اس کی حرکتیں ۔ چوہدری صدیق دہاڑا ۔

مسز رشید کے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔


تم پانی پیو ۔۔۔ارسہ تم اپنے کمرے میں جاٶ بیٹے ۔ مسز رشید نے کہا۔

ہاں ہاں ارسہ تم جاٶ مہارانی جی ۔ کام کرنے کو میری ماں موجود ہے۔ ارسہ کسی بت کی مانند وہاں کھڑی تھی ۔ چوہدری صدیق کے زہر خندہ الفاظ اس کے دل میں چھید کرتے چلے گٸے۔

صدیق ۔۔بس کرو اب ۔ مسز رشید نے کہا ۔

امی میں بس کروں یا آپ بس کریں ۔ اس عورت نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے اور آپ لیکچر بھی مجھے ہی دے رہی ہیں ۔ چوہدری صدیق نے کہا۔

صدیق !۔۔میں نے کیا کیا ہے قصور کیا ہےمیرا۔ ارسہ کا لہجہ یہ الفاظ ادا کرتے ہوۓ بھیگ گیا ۔

قصور ۔۔ یہاں اس گھر میں ہونا ۔۔یہ ہے قصور تمھارا ۔چوہدری صدیق نے تلملاتے ہوۓ کہا ۔

ارسہ کے آنسو ضبط کے بندھن توڑ کر بہہ نکلے ۔

علی ارسہ کے گھر نہ جانے کس کام سے آیا تھا کام والی ماسی نے اسےبیٹھک میں بیٹھایا اور ارسہ کو بلانے باورچی خانے کی جانب بڑھی تھی۔ چوہدری صدیق کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔ علی کے کانوں میں بھی تمام بات پڑچکی تھی۔ نوکرانی نے جب ارسہ کو بتایا تو مسز رشید اور صدیق دونوں ہی علی کی اس بے وقت آمد پر چونک اٹھے ۔

تم یہ پانی لے کے جاٶ۔۔۔ہم آتے ہیں۔ مسز رشیدنے نوکرانی سے کہا ۔

ارسہ!۔۔۔ تم منہ ہاتھ دھو کر آنا بیٹے ۔۔بھاٸی ہے تمھارا تمھاری یہ حالت دیکھے گا تو اسے اچھا نہیں لگے گا۔ مسز رشید نے ارسہ سے کہا ارسہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی جانب بڑ گٸی ۔

اور ہاں ۔۔اپنا موڈ سیدھا کر کے آنا تم ۔۔مسز رشید نے دانت پیستے ہوۓ چوہدری صدیق سے کہا۔ چوہدری صدیق نے برا سا منہ بنایا ۔

یہ اور ان کے چونچلے ۔۔زیر لب بڑبڑاتے ہوۓ وہ بھی کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

مسز رشید بیٹھک کی جانب بڑھ گٸیں۔ شربت کا گلاس ابھی تک میز پر بھرا رکھا تھا ۔ علی نے اس میں سے ایک گھونٹ بھی نہ پیا تھا ۔

بیٹے! ۔۔۔آپ نے پانی بھی نہیں پیا ۔ مسز رشید نے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔

آنٹی! ۔۔پانی کی حاجت نہیں ہے ابھی مجھے۔ آپ ارسہ کو بلاٸیں۔ میں اسے لینے آیا تھا۔ امی نے بلایا ہے۔ علی نے کہا ۔

بیٹا !۔۔شربت پانی لو۔۔چاۓ شاۓ پیو ۔۔۔صدیق اسے چھوڑ آۓ گا ۔ مسز رشید نے شیرینی بھرے لہجے میں کہا ۔

آنٹی! ۔۔ارسہ ہے کدھر۔۔۔علی نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوۓ کہا ۔

آتی ہے ۔۔بلاتی ہوں اسے میں۔۔۔ارسہ ۔۔بیٹے۔۔مسزرشید نے آوازلگاٸی۔۔

ارسہ بیٹھک میں آٸی تو اس کے چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا جو اس کے دل کی حالت چھپانٕے کی بہترین کوشش تھی ۔ لیکن وہ آنکھوں کی سرخی کو نہ چھپا سکی ۔ علی نے بغور اس کی جانب دیکھا ۔

کیسے ہو ؟میرے پیارے بھاٸی ۔۔ارسہ نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما۔

باجی !۔۔۔۔میں تو ٹھیک ہوں آپ سناٸیں ۔۔صدیق بھاٸی کدھر ہیں ۔ علی نے پوچھا تو ارسہ ایک لمحے کو گڑبڑا گٸی۔

علی! ۔۔وہ تو ابھی گھر نہیں اور میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ تم یہ بتاٶ خیر سے آۓ ہو ۔ ارسہ مکمل طور پر اپنے جذبات پر قابو پانا سیکھ چکی تھی ۔

باجی! ۔۔امی نے بھیجا ہے آپ کو ان سے ملنے لے جانے کے لیے ۔ علی نے کہا۔

ہاں ہاں بیٹا کیوں نہ بھیجیں گے ہم ۔۔تم لے جاٶ۔۔۔صدیق آتا ہےتو میں بتا دوں گی اسے ۔ مسز رشید نےکہا ۔

آنٹی !۔۔صدیق سے پتہ کر لیتی پھر جاتی ۔ ارسہ نے جھجھکتے ہوۓ کہا ۔وہ جانتی تھی کہ صدیق نے اس بات کو مسٸلہ بنا لینا تھا۔

بیٹا !۔۔۔میں بات کر لوں گی۔ مسز رشید چاہتی تھیں کہ علی جلد از جلد ارسہ کو اپنے ساتھ لے جاۓ۔ کیونکہ صدیق اگر یہاں آ جاتا تو اس کا لہجہ علی کو بڑھکا دیتا۔



آنٹی ٹھیک کہہ رہی ہیں ارسہ ۔۔ تم چلو میرے ساتھ ۔۔کل صدیق بھاٸی تمھیں لے آٸیں گے یا پھر میں چھوڑ جاٶں گا ۔ علی نے کہا ۔

ہاں بیٹا۔۔۔۔جاٶ تم ۔۔۔مسز رشید نے کہا ۔ ارسہ نے سر اثبات میں ہلایا ۔

میں کمرے سے موباٸل لے کر آتی ہوں ۔ ارسہ نے گہری سانس لیتے ہوۓ کہا۔

۔۔وہ موباٸل اور ہینڈ بیگ اٹھانے کمرے میں آٸی تو چوہدری صدیق بستر پر آنکھیں موندے لیٹا تھا۔

سنیں۔۔۔میں امی کی طرف جا رہی ہوں علی لینے آیا ہے ۔ ارسہ اس کے قریب جا کر کھڑی ہوٸی وہ چاہتی تھی کہ چوہدری صدیق کو بتا کر اجازت لے کر میکے جاۓ ۔

عورت جب ایک رشتہ میں بندھ جاتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر صورت یہ رشتہ قاٸم رہے ۔پھر چاہے اس کے لیے اسے کوٸی بھی قربانی دینی پڑے ۔

تو جاٶ مجھے نہ تمھارے جانے سے کوٸی مسٸلہ ہےاور نہ آنے کی خوشی ۔ چوہدری صدیق نے آنکھیں کھولی انتہاٸی آہستہ لیکن تلخ لہجے میں کہا۔

وہ آنٹی کہہ رہی کہ ۔۔۔ارسہ نے صفاٸی دینا چاہی۔

تمھارے ساتھ مسٸلہ کیا ہے ؟ جب میں نے کہہ دیا ہے کہ جانا چاہتی ہو تو جاٶ تو پھر ۔۔چوہدری صدیق نے چڑتے ہوۓ کہا ۔

وہ دراصل ۔۔۔ارسہ گڑبڑاٸی ۔

اب دفعہ ہو جاٶ۔ مجھے تنگ مت کرو ۔ میرا جینا حرام کر رکھا ہے تم نے۔۔چوہدری صدیق نے گالی دیتے ہوۓ کہا ۔

ارسہ خاموشی سے موباٸل اور ہینڈ بیگ اٹھانے کےلیے بڑھی۔ اس کے لیے ضبط کرنا بے حد مشکل تھا۔ موباٸل اٹھا کر وہ کمرے سے نکلی اور علی کے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھی ۔مسز رشید دروازے تک انھیں چھوڑنے آٸیں۔

گاڑی چوہدری عدیم کی حویلی کی جانب بڑھی۔

باجی ۔۔آپ کے گھر میں کیا چل رہا ہے ۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد علی نے پوچھا ۔

کچھ نہیں سب سہی ہے ۔۔ارسہ نے سب چھپانے کی کوشش کی ۔

باجی ۔۔جھوٹ نہ بولیں ۔۔میں سب سن چکا ہوں ۔ علی نے کہا تو ارسہ کا گویا ضبط ٹوٹ گیا ۔

وہ سسکنےلگی اور ساتھ ساتھ تمام حالات بتانے لگی۔

علی کو پہلے کچھ علم نہ تھا ارسہ جب بھی میکے آٸی اس نے جو بھی حالات ثمرین کو بتاۓ علی کو کسی نے کانوں کان خبر نہ ہو نے دی تھی ۔ ابوبکر ویسے ہی ملک سے باہر تھا ۔ جیسے جیسے ارسہ اپنےحالات بتا رہی تھی ویسے ویسے علی کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ جلے پیر کی بلی کی مانند کمرے میں ایک طرف سے دوسری طرف ٹہل رہا تھا۔ احمد کمرے میں آیا تو اسے پریشانی میں ٹہلتے پایا۔ اس کے اٹھتے قدم اس کی دلی حالت کے غماز تھے۔چند لمحے اس نے بغور حمزہ کو دیکھا جس کے چہرے کی رنگت تک بدل چکی تھی۔

حمزہ ۔۔۔کیا ہوا؟ کیوں اس طرح ٹہل رہے ہو ؟ احمد نے اس کا اتکاز توڑا ۔

احمد۔۔۔مجھے لگتا ہے ارسہ کے ساتھ کوٸی بڑا مسٸلہ ہوا ہے ۔ حمزہ احمد کے پاس جا کر بیٹھتے ہوۓ بولا۔

خدا کا خوف کرٶ حمزہ ۔۔تمھارا اس لڑکی سے اب رابطہ تک نہیں اورتمھیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں اس کے حالات ٹھیک نہیں۔ احمد نے اپنے سر پر تاسف سے ہاتھ رکھا ۔

میرا دل کہہ رہا ہے یار ۔۔کچھ ہے جو بہت برا ہے ۔حمزہ نے پریشانی سے کہا ۔

اور میں کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا ۔ حمزہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر جھکاتے ہوۓ کہا۔

حمزہ میرے بھاٸی میرے دوست ۔۔۔ایسا کچھ نہیں بس شاید تمھارا وہم ہے۔ احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

احمد ۔۔محبت کرنا اورمحبت کا دعوی کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ جب محبت کی جاتی ہے تو انسان کے لیے رابطہ بھی اہم نہیں رہتا۔ بنا رابطے کے انسان اپنے محبوب کے حالات جان لیا کرتا ہے۔ اور بدقسمتی سے میں نے محبت کی ہے محبت کا دعوی نہیں کیا ۔ حمزہ نے کہا ۔

حمزہ ۔۔میری سمجھ میں نہیں آتی کہ تمھیں کس طرح ان خیالات سے نکالوں ۔ رحم کرو یار ۔۔۔اپنے آپ پر رحم کرو۔۔اس طرح تو تمھارا نروس بریک ڈاٶن ہو جاۓ گا ۔ احمد نے فکر مندی سے کہا ۔

احمد تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرے دماغ کی کوٸی رگ پھٹ جاۓ گی ۔۔لیکن نہیں ۔۔۔ایسا بھی نہیں ہوگا ۔اس کی جب شادی ہوٸی اس وقت بھی مجھے کچھ نہیں ہوا۔ حمزہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔

حمزہ ۔۔۔دیکھو ۔تم مجھے بہت عزیز ہو ۔۔اپنا نہ سہی اپنے ماں باپ بہن بھاٸیوں کا خیال کرٶ۔ احمد نے اسے گلے سے لگایا ۔

میں کیا کرٶں احمد ۔میرا خود اپنی ذات پر اختیار نہیں ہے ۔میں چاہ کر بھی اسے اپنے دل سے نکال نہیں پا رہا ۔ حمزہ نے بے بسی سے کہا ۔

تم اسے اپنے دل سے اس لیے نہیں نکال پا رہے کیونکہ تم اسے اپنے دل سے نکالنا چاہتے ہی نہیں۔ احمد نے قدرے بے رحمی سے کہا ۔

ہاں ۔۔۔شاید تم ٹھیک کہتے ہو ۔ اگرمیں نے اسے بھی اپنے دل سے نکال دیا تو پیچھے بچے گا کیا ؟ حمزہ نے ایسے کہا جیسے کوٸی اس سے ایسا خزانہ پھینک دینے کا کہہ رہا ہو جو اس کے لیےبےحد قیمتی ہو۔

کبھی کبھار ہمارے لیے کسی کی یادیں بھی ایک قیمتی خزانہ کی مانند ہوا کرتی ہیں جو چاہے تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہوں ہم اپنے دل میں ہیرے جواہرات کی مانند سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ان یادوں کو دل سے نکال دینا ہمیں ناممکنات میں سے لگتا ہے ۔

حمزہ کے لیے بھی ارسہ کی یادیں ایک خزانہ ہی تھیں ۔

حمزہ ۔۔تمھارے علاوہ تمھیں ان حالات سے کوٸی نکال ہی نہیں سکتا میرے دوست ۔ ۔۔احمد نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

یار۔۔۔میں کیا کروں ۔۔میں بے بس ہوں ۔۔حمزہ نے بےبسی سے کہا ۔

حمزہ ۔۔تم ان یادوں سے چھٹکارا حاصل کرو کسی بھی طرح یار۔۔۔یہ اب تمھارے لیے وہ سانپ بن چکی ہیں جو تمھیں ڈس رہی ہیں اور ایک نہ ایک دن یہ زہر تمھاری جان لے لے گا ۔ احمد نے کہا ۔حمزہ نے نظر اٹھا کر احمد کی طرف بے بسی دیکھا اورسر جھکا لیا۔

حمزہ اور کچھ نہیں تو اپنی امی کے بارے ہی میں سوچ لو ۔ احمدنے کہا ۔

حمزہ نے اسے کوٸی جواب نہ دیا ۔ اس کے پاس کہنے کو گویا کچھ بچا ہی نہ تھا۔



چند لمحے کے لیے کمرے میں خاموشی چھا گٸی ۔ایسی خاموشی جس میں حمزہ کی آہیں احمد کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے کی حد تک بلندتھیں۔ حمزہ چل اٹھ ۔۔۔

آ باہر چلیں ۔۔تمھیں میں آٸس کریم کھلاتاہوں ۔ احمد نے اس اذیت ناک خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا۔

نہیں۔۔۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا ۔ حمزہ نے اکتاتے ہوۓ کہا ۔

تمھارے دل سے پوچھا کس نے ہے ۔۔اٹھو ۔۔چلو ۔۔احمد نے اس کی بازو دبوچتے ہوۓ کہا ۔

احمد۔۔۔حمزہ نے منت بھرے لہجے میں کچھ کہنا چاہا ۔

حمزہ ۔۔میں کچھ سننا نہیں چاہتا ۔۔اٹھو ۔۔احمد نے مان سے کہا تو حمزہ کو چار و ناچار اٹھنا پڑا۔

احمد اس دیار غیر میں وہ واحد ہستی تھی جو اگر نہ ہوتا تو حمزہ ڈپریشن کے ہاتھوں جان دے چکا ہوتا ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *