.وہ شام جیسے سسک رہی تھی

بلک رہی تھی

ذرد پتوں کو آندھیوں نے

عجیب قصہ سنا دیا تھا ۔۔۔

جس کو سن کر ۔۔۔

تمام پتے سسک اٹھے تھے ۔۔

جانےکس سانحے کے غم میں ۔۔۔

شجر جڑوں سے اکھڑ چکے تھے۔۔۔

بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو ۔۔۔

ہر ایک پربت ۔۔۔

ہر ایک کھاٸی۔۔۔

کہیں سے تیری خبر نہ آٸی۔۔۔

تو کہہ کے دل کو ٹالا ۔۔

کہ ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے ۔۔۔

ہم ان رستوں کو ڈھونڈ لیں گے۔۔۔

مگر یہ خوش خیالی ہماری ۔۔

ہمیں ہی برباد کر گٸی تھی۔۔۔

ہوا تھمی ضرور لیکن ۔۔۔

بڑی ہی مدت گزر گٸی تھی ۔۔۔

ہمارے بالوں کے جنگلوں میں۔۔۔۔

سفید چاندی اتر چکی تھی..۔۔

وہ کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا ۔یہ سطریں لکھتے ہوۓ حمزہ کی آنکھیں نہ جانے کتنی بار چھلک گٸیں۔ اس نے بار بار ان سطور کو پڑھا اور بار بار رویا ۔۔وہ چاہ کر بھی خود کو تسلی نہیں دے پایا تھا۔بالآخر وہ تھک ہار کر غسل خانے میں نہانے چلا گیا۔

احمد کمرے میں لوٹا تو اس نے صفحات پر لکھی تحریر اور اس پر گرے آنسوٶں کے نشان دیکھے جو اب سوکھ چکے تھے۔

حمزہ نہا کر غسل خانے سے نکلا تو احمد نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔

حمزہ ۔۔یہ کیا ہے ؟۔۔۔۔ احمد نے پوچھا۔۔۔

یہ بس یونہی فراغت تھی تم بھی نہیں تھے تو سوچا کچھ لکھ لوں ۔ حمزہ نے صفاٸی دی ۔۔

حمزہ میرے دوست ۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ تم نے یہ کیوں لکھا ۔۔میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اپنے دل کے بوجھ کو اتار کیوں نہیں دے ۔۔احمد نے نرمی سے کہا ۔

یار احمد ۔۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ بوجھ میں کس طرح اتاروں ۔۔یہ بوجھ کسی پہاڑ سے زیادہ بڑا ہے ۔ حمزہ نے کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح کہا ۔

حمزہ! ۔۔۔جو آپ کا نہیں ہو سکا آپ اس کے غم میں کیوں گھل رہے ہو ؟ ۔۔۔۔ احمد نے قدرے سفارکیت سے کہا ۔

احمد ! ۔۔اس سب میں اس کا کوٸی قصور نہیں تھا یار ۔۔وہ مجھے بتایا کرتی تھی کہ میں غلط رہ پر چل نکلا ہوں ۔ میں اور وہ ایک ہو جاٸیں یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ پھر بھی مجھے ایک تسلی تھی ایک امید اور یہ امید جمع ہوتے ہوتے پہاڑ سا بن گیا ہے جس کا بوجھ بھی اٹھانا ممکن نہیں رہا۔ حمزہ نے ہارے ہوۓ لہجے میں کہا ۔

حمزہ!۔۔۔۔ تمھاری بات بالکل درست ہے لیکن تمھیں خود کو اس تمام معاملے سے نکالنا ہی ہو گا ورنہ تو تم گھل کے رہ جاٶ گے ۔۔۔۔ احمد نے فکر مندی سے کہا ۔

میرے بھاٸی!۔۔۔۔۔ میں گھل ہی تو رہا ہوں ۔ میں بہت اپ سیٹ ہوں یار۔۔حمزہ کے حلق میں آنسوٶں کا ایک گولہ سا پھنس گیا۔

حمزہ کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ احمد کے سامنے اس کے آنسو بہہ نکلیں۔ اس کی کچھ دنوں سے ایسی ہی حالت تھی ۔ اس کے لیے کوٸی عام بات کرنا تک محال ہوا تھا۔

پتہ ہے احمد ۔۔اس نے کہا تھا حمزہ تمھیں زندگی میں آگے بڑھنا ہے میں تمھیں مایوس نہیں دیکھنا چاہتی ۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ میں اگے بڑھ بھی نہیں سکتا۔ حمزہ نے بھیگے ہوۓ لہجے میں کہا ۔

حمزہ !۔۔۔دیکھو ۔۔اس کی شادی ہو گٸی ۔ جیسے تم نے اس دن بتایا تھا ۔ اب اس کے پاس سب ہے ۔۔تو تمھیں بھی اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔بس تم اندر سے خالی ہو گٸے۔۔۔۔۔ احمد نے اٹھ کر اسے کندھے سے پکڑا اوراپنے پاس بٹھاتے ہوۓ کہا ۔

تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔میں اندر سےخالی ہو گیا ہوں ۔۔میرے اندر اب آوازیں گونجتی ہیں۔ ۔۔۔حمزہ نے سر جھکا کر کہا ۔




حمزہ میرے دوست!۔۔۔ ۔میرے پیارے!۔۔۔احمد کا سر اپنے سینے سے لگاتےہوۓ کہا ۔

تم اس کے لیے دعا کرو اور خود پر رحم کرو ۔ احمد نے کہا ۔ حمزہ کےلیے اپنے آنسوٶں پرقابورکھنا مشکل تھا ۔ اس کے آنسو بہہ نکلے ۔ احمد نے اسے سینے سے لگاۓرکھا ۔۔۔حمزہ کے آنسو آہستہ آہستہ سسکیوں میں بدل گٸے ۔ احمد نے اسے رونے دیا کہ شاید اس کےدل کا یہ بوجھ کسی طرح ہلکا ہو جاۓ۔

قسط ۔۔چادر ۔۔۔۔حمزہ کی ہچکیاں کچھ تھمی تو اسے احساس ہوا کہ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ سوری یار احمد ۔۔میں خود پر قابو نہیں رکھ پایا ۔ حمزہ نے شرمندگی سے کہا ۔

حمزہ۔۔۔میرے بھاٸی ۔کوشش کر کے اسے بھول جا ۔ یوں اپنے دل و دماغ پر حاوی نہ کر اسے ۔ احمد نے کہا ۔

یار ۔۔وہ مجھے اب بھی صبح بخیر کا میسج کرتی ہے ۔ اپنا خیال رکھنے کا کہتی ہے ۔حمزہ نے کہا ۔

وہ اب کیوں تم سے بات کرتی ہے حمزہ ۔۔اب اس کا تم سے بات کرنا بنتا ہی نہیں ۔۔۔اس طرح تو وہ نہ تمھیں اپنی زندگی میں سیٹل ہونے دے گی اور نہ ہی خود ہو گی۔ احمد نے کہا اور ایک گہری سانس لی ۔

تم اس کا نمبر بلاک کر دو ۔۔قدرے توقف کے بعد وہ بولا ۔

میں اسے بلاک بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ میرے لیے ناممکن ہے ۔حمزہ نے بے بسی سے کہا ۔

حمزہ ناممکن ہے تب بھی کر ڈالو ۔۔کیونکہ یہی وہ ایک کام ہے جو تم کر سکتے ہو۔ احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ دھرا۔۔

حمزہ نے اسے شکایتی نظروں سے دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں ۔

حمزہ ۔۔۔اگر تم لوگ آپس میں بات کرتے رہو گے تو مجھے بتاٶ وہ کس طرح سے اپنے گھر میں خوش ہو پاۓ گی ۔احمد نے کہا۔

پتہ ہے احمد ۔۔وہ کہا کرتی تھی کہ میرے علاوہ اسے کوٸی خوش رکھ ہی نہیں سکتا۔ اب کیسے ہو کہ میں رابطے کا آخری ذریعہ بھی ختم کر ڈالوں ۔ حمزہ نے کہا ۔

میرے بھاٸی ۔۔کیا تم اسے خوش نہیں دیکھنا چاہتے ۔ اس کی خوشی کی خاطر یہ کرو۔ احمد نے کہا ۔ حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔

یار میں اسے سوچنا تک نہیں چاہتا لیکن سوچتا رہتا ہوں ۔ میں چاہ کر بھی اسے اپنے ذہن سے اتارنہیں پا رہا ۔ گھرسے اماں ابا باجی کی کال آۓتو انھیں سب اچھا ہے کی رپورٹ دینا پڑتی ہے۔ میں کیا کروں یار۔۔۔حمزہ نے کسی ایسے کھلاڑی کی طرح کہا جو اپنی زندگی کا سب سے اہم میچ ہار گیا ہو۔

اچھا بس کرو ۔۔۔اس طرح تم کبھی بھی سنبھل نہیں پاٶ گے۔ احمد نے کہا ۔

یار ۔۔تمھارا بہت شکریہ تم سے بات کرکے مجھے بہت حوصلہ مل گیا ہے ۔ پتہ ہے میں بہت ہنستا ہوں لیکن کہیں اندر سے آواز آتی ہے حمزہ جھوٹ موٹ کا مت ہنسو۔ حمزہ نے شرمندگی سے کہا ۔

دیکھو ۔۔تمھیں صرف یہ غم ہے کہ تم اسے پا نہیں سکے ۔۔کیا معلوم تم اسے پا کر کھو دیتے تو اس سے زیادہ تکلیف اٹھاتے۔ احمد نےکہا۔

ہاں میرے بھاٸی۔۔۔حمزہ شرمندہ ہوتے ہوۓ بولا ۔

احمد کا تجزیہ بالکل درست تھا۔۔

حمزہ میں نے اس دن دیکھا کہ تمھاری آواز آنٹی سے بات کرتے ہوۓ بھیگ رہی تھی ۔ کم از کم اس پر تو قابو پاٶ یار۔۔احمد نے سرزنش کرتے ہوۓ کہا ۔

میں امی سے بات کرتےہوۓ خود پر قابو نہیں پا سکتا ۔۔۔حمزہ نے کہا ۔

خود پر قابوپانا سیکھو حمزہ ۔۔۔اس طرح تو تم اپنے ساتھ ساتھ انھیں بھی پریشان کرو گے۔۔۔احمد نے کہا حمزہ جانتا تھا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ۔

میں پوری کوشش کروں گا کہ سب ٹھیک کر پاٶں ۔ حمزہ نے کہا ۔

احمد سے بات کرکے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔

…………………………………………….


.

گرمی کا موسم تھا ارسہ حسب معمول کھانا بنا کر اپنے کمرے میں چلی آٸی۔گرمی کی شدت کی وجہ اس دم گھٹ رہا تھا وہ پنکھے کے نیچے کھڑی تھی تاکہ ٹھنڈک کا کچھ احساس ہو۔

ارسہ بیٹے دیکھو تو کون آیا ہے ۔ مسز رشید کی آواز میں موجود کھنک نے ارسہ کو تجسس میں مبتلا کر دیا کہ ایسا کون تھا جس کے آنے پر وہ اس طرح کھکھلا اٹھی تھیں ۔۔

آٸی آنٹی ۔۔کون ہے ۔ ارسہ نے کندھوں پر جھولتا دوپٹہ سیدھا کیا اور کمرے سے نکل آٸی ۔

ارے ۔۔بلقیس خالہ ۔۔۔کیسی ہیں آپ؟ ۔۔ارسہ نے خوشی سے کہا ۔

بلقیس اس کی شادی کے بعد پہلی بار اس کے گھر آٸیں تھیں۔ وہ بے حد خوش ہوٸی ۔

بیٹے۔۔خوش ہو نا ۔۔۔کیسی ہو ؟۔ بلقیس نے ارسہ کو گلےلگاتے ہوۓ کہا ۔

جی خالہ میں خوش ہوں ۔۔ارسہ نے کمال مہارت سے جھوٹ بولا ۔

بیاہی بیٹیاں اپنے میکے والوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا سیکھ ہی جاتی ہیں۔

اللہ تمھیں خوش ہی رکھے آبادرکھے۔ بلقیس نے کہا۔

تم دونوں بیٹھو ۔۔میں کچھ کھانےپینے کا انتظام کرتی ہوں۔مسز رشید نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔

آنٹی ۔۔آپ بیٹھیں میں چاۓ بناتی ۔ ارسہ نے ایک دم سے شرمندہ ہوتےہوۓ کہا۔

نہیں بیٹا ۔پہلی بار توتمھارے میکے سے کوٸی آیاہے۔ تم بیٹھو ان کے پاس ۔ مسز رشید نےکہااوراٹھ کھڑی ہوٸیں۔

ارسہ اور بلقیس خوش گپیوں میں مصروف ہو گٸیں۔بلقیس کو چاۓ پلاٸی گٸی اورکھانے تک روک لیا گیا۔

بہن آپ صدیق کے گھرآنے تک رکیں وہ آپ کو چھوڑ آۓگا۔ مسز رشید نے کہا ۔

بہن ۔۔میرا خیال ہے کہ میں خود چلی جاٶں۔۔۔بلقیس نے کہا۔

نہیں بہن ۔۔بالکل بھی نہیں ۔ مسز رشید نے کہا ۔باتوں باتوں میں وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔چوہدری صدیق گھرآیا ۔

بلقیس سے نہایت ہی مہذب اندازمیں ملا بلقیس اسے دعاٸیں دینے لگیں ۔ کھانا کھانے سے فراغت پانے کےبعد مسز رشید نے صدیق کو کہا کہ وہ بلقیس کو اس کے گھر چھوڑ آۓ۔ اس نے چہرے پر کوٸی جذبہ نہ آنے دیا اور بلقیس کو گھر چھوڑ آیا ۔ گھر پہنچاتو ارسہ اور مسز رشید دونوں ہی باتیں کر رہی تھیں۔

ارسہ بیگم ۔۔۔میں تمھارا ڈراٸیور نہیں ہوں کہ تمھارے خاندان والوں کو پک اینڈ ڈراپ سروس دوں ۔ چوہدری صدیق نے زہر خندہ لہجے میں کہا ۔

صدیق ۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔مسز رشید دھاڑیں ۔

کیا غلط کہا میں نے امی ۔ اور آپ تو اس معاملے سے الگ رہیں۔۔۔چوہدری صدیق نے کہا ۔

صدیق ہوش میں ہو تم؟ ۔۔۔مسز رشید نے کہا ۔

امی ۔۔۔آپ رہنے دیں ۔۔اورمیں تمھیں وارن کر رہا ہوں اپنی حدود میں رہو اگرمیری بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہتی ہو تو ۔۔۔چوہدری صدیق نے کہا تو ارسہ اپنی جگہ پر سن ہو کررہ گٸی




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *