چوہدری رشید اور مسز رشید چوہدری عدیم کے گھر آۓ تھے اسےواپس لے جانے۔ انھیں عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھک میں بٹھا دیا گیا ۔ ثمرین نے چاۓ کا اہتمام کیا ۔

بہن ۔۔آپ ارسہ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ۔ چوہدری رشید نے شرمندگی سے کہا ۔

بھاٸی ۔!۔۔آپ کی بہو ہے خوشی سے لے جاٸیے لیکن معاملات کچھ بہتر ہونے چاہیں ۔۔صدیق کو اگر کوٸی اور پسند تھی تو آپ کو اس کی بات سننا چاہیے تھی۔ ثمرین نے کہا ۔

ان کے لہجے سے دکھ ٹپک رہا تھا۔

بہن!۔۔ہمیں اندازہ ہے آپ کی تکلیف کا ۔۔ہم ہر ممکن کوشش کریں گےکہ اس بچی کو خوش رکھ سکیں۔بس آپ ارسہ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ چوہدرانی نے یقین دہانی کرواتے ہوۓ کہا۔

بہن ۔۔۔ارسہ کے ابو کو بلوایا ہے ۔ ان سے بھی بات کر کے بھیجوں گی بچی کو۔ ثمرین نے کہا ۔

………….ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ چوہدری عدیم کمرے میں داخل ہوۓ۔ چوہدری صاحب


کیسے ہیں ؟ ۔ چوہدری رشید نے پرجوش لہجے میں کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔

رشید بھاٸی ۔۔۔میں تو ٹھیک ہوں لیکن آپ نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ میری بیٹی رل گٸی ۔ چوہدری عدیم نے دکھی لہجے میں کہا ۔

بھاٸی ۔۔مجھے اندازہ ہے آپ کے دکھ کا ۔ آپ بچی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ۔ ہم سنبھالیں گے۔ چوہدری رشید نے بیٹھتے ہوۓ کہا ۔

چوہدری عدیم ان کے ساتھ ہی بیٹھ گٸے ۔

مجھے سمجھ نہیں آتی رشید بھاٸی ۔ اگر صدیق کا دل نہیں تھا تووہ اس شادی پر راضی ہی کیوں ہوا ؟۔ چوہدری عدیم نے کہا ۔

بھاٸی۔۔۔بس اللہ نے نصیب جوڑا ہوا تھا۔ مسز رشید نے سر جھکا کر کہا ۔

بہن ۔۔میری پھولوں سی بیٹی ہے کسی نے کبھی اس سے بات تک اونچی آواز میں نہیں کی ۔ اوراب وہ اتنا صبر کر گٸی ۔ایک بات ہمیں نہیں بتاٸی ۔ ثمرین نے کہا ۔

بھاٸی ۔۔ہم بڑی امید لے کر آۓ ہیں۔ بھابھی ۔ بھیج دیں اسے ہمارے ساتھ۔ چوہدری رشید نے کہا۔

بھاٸی صاحب ۔۔مجھے گارنٹی دیں کہ آپ کا بیٹا ارسہ کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا ۔چوہدری عدیم نے کہا۔

گارنٹی ہے بھاٸی ۔ دیکھیں بھاٸی ۔ بچیاں اپنے گھروں ہی میں اچھی لگتی ہیں……. مسز رشید نے کہا۔

بھابھی۔ ہم ماں باپ ہیں اور کون ماں باپ ہوں گے جو اپنی اولاد کو اجاڑنا چاہیں گے۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہماری بیٹی روتی ہی رہے ۔ چوہدری عدیم نے کہا۔

نہیں روۓ گی۔۔۔بالکل نہیں روۓ گی بہن آپ تسلی رکھیں۔ چوہدری رشید نے تسلی دی۔

ثمرین ارسہ کو بلا لاٸیں۔ چوہدری عدیم نے ثمرین سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا۔

ثمرین نے اثبات میں سر ہلایااور اٹھ کھڑی ہوٸی۔ ارسہ اپنے کمرے ہی میں تھی وہ اس کے پاس چلی آٸیں۔

ارسہ تمھارے ساس سسر آۓ ہیں بیٹا۔ تمھارے ابا بلا رہے ہیں ۔ چلو۔۔ثمرین نے اسے کہا۔

امی ۔۔۔صدیق۔۔۔ارسہ نے پوچھنا چاہا۔

بیٹے ۔۔صدیق آۓ یا نہ آۓ اس کے ماں باپ تو آۓ ہیں نا۔ ۔۔ثمرین نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے کہا۔

ارسہ کے دل کے کسی پنہاں کونے میں خواہش تھی کہ صدیق اس سےمحبت کرے نہ کرےاس کا خیال ضرور کرےگا اور اسے لینے آۓ گا۔لیکن ارسہ کا یہ ارمان بھی تاش کے پتوں کے محل کی مانند زمین بوس ہو گیا۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوٸی سر پر دوپٹہ درست کیا۔

ارسہ کمرے میں داخل ہوٸی تو چوہدری رشید اور مسز رشید نے اس کے چہرے پر طمانیت کی وجہ سے


آٸی ہوٸی رونق کو واضع طور پر محسوس کیا۔

آٶ بیٹے ۔۔۔چوہدری رشید نے کہا ۔

ارسہ نے اپنا سر چوہدری رشید کے سامنے جھکایا۔ انھوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر وہ مسز رشید کے سامنے جھکی انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے کو چوما ۔

بیٹے۔۔کیسی ہو ؟ ۔۔ہم تمھیں لینے آۓ ہیں ۔ تمھارے بغیر ہمارا گھر بہت سونا ہو گیا ہے۔ مسز رشید نے کہا ۔

ارسہ نے مسکرانے کی کوشش کی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ۔

گبھرانا نہیں بیٹا ۔ ہم ہیں نا تمھارے ساتھ۔ چوہدری رشید نے کہا ۔ گویا وہ اپنے بیٹے کے رویہ پر سخت شرمندہ تھے ۔

ارسہ بیٹے ۔۔کیا تم اپنے سسرال والوں کے ساتھ جانا چاہتی ہو ؟ ……چوہدری عدیم نے اس سے پوچھا۔

جانا کیوں نہیں چاہتی چوہدری صاحب ۔ ……..ثمرین اک دم سے بولیں۔

ہاں بھاٸی صاحب ۔۔۔بچی ہے کچھ وقت لگے گا پھر سب سیٹ ہو جانا ۔ مسز رشید نے کہا ۔

بیٹی!….. تیار ہو جاٶ اور چلو ہمارے ساتھ ۔ چوہدری رشید نے کہا ۔ جی انکل ۔

ارسہ مرے مرے قدموں سے کمرے سے نکل آٸی ۔

اس کے دل میں خدشات ابھر رہے تھے ۔ چوہدری صدیق کا نہ آنا ۔ اس کے لیے نہ صرف تکلیف کا باعث تھا بلکہ وہ اس کے متوقع رویے کو بھی سوچ کر پریشان ہو گٸی تھی۔ وہ تیار ہو کر اپنے سسرال آ گٸی تھی ۔

بیٹے ۔۔عورت صبر و تحمل سے مرد کے دل میں مقام بنا سکتی ہے۔تم تو ماشإ اللہ خوبصورت بھی ہو ۔ بس اس کو اپنی طرف ماٸل کرنے کی کوشش کرو۔ مسز رشید اسے سمجھانے لگی ۔

چوہدری صدیق جو کہیں باہر گیا ہوا تھا ۔گھر لوٹا تو ارسہ کو اپنی ماں کے ساتھ بیٹھا پایا۔

لے آٸیں پھر آپ اپنی بہو کو واپس ۔ ………چوہدری صدیق نے طنزاً کہا ۔

لانا ہی تھا اور یہ بہو نہیں ۔۔میری بیٹی اور تمھاری بیوی ہے ۔……….. مسز رشید کو اس کی بات زہر کی مانند کڑوی لگی۔

ہاں ہاں یاد ہے مجھے کہ یہ میری بیوی ہے ………..چوہدری صدیق نے کہا ۔

ارسہ کو ہتک کا احساس ہوا لیکن وہ کچھ بولی نہیں ۔ صرف یاد ہونا کافی نہیں ۔ تمھیں اس کا خیال رکھنا چاہیے اور اس سے محبت کرنا چاہیے ۔ مسز رشید نے گویا ارسہ کی سوچ کو بیان کیا ۔

جی امی ۔۔۔میں نے کب انکار کیا ۔ چوہدری صدیق نے کہا تو ارسہ کے چہرے پر ایک دم سے شفق کا رنگ لہرا گیا۔اس کے دل میں امید کی رمق جاگی۔

اچھی بات ہے ۔ ارسہ بیٹے چاۓ تو پلاٶ۔۔۔ مسز رشید نے ارسہ سے کہا ۔

جی آنٹی ۔۔ ارسہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوٸی ۔

دیکھو چوہدری صدیق ۔۔میرے بچے۔ اس رشتے سے تمھارے ابا کی حیثیت مضبوط ہوٸی ہے سیاسی بھی اور معاشرتی بھی ۔ تم اس رشتے کو قاٸم رکھنے کے لیے اس کے ساتھ بہتر برتاٶ کرو۔ چاہے اپنی محبوبہ کے ساتھ خفیہ نکاح کر لو…. جب مسز رشید کو یقین ہو گیا کہ وہ اب ان کی بات نہیں سن پاۓ گی تو وہ گویا ہوٸیں۔

امی ۔۔۔یہ تو منافقت ہوٸی دھوکہ ہوا ۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔ منافقت اوردھوکے سے اگر اپنا مفاد حاصل ہو سکے تواس میں کوٸی براٸی نہیں….. مسز رشید نے دھیمے لہجے میں کہا ۔

امی۔۔۔میں یہ منافقت نہیں کر سکتا…….. چوہدری صدیق نے اٹل لہجے میں کہا۔

اچھا۔۔۔منافقت نہ کرو لیکن اس کے ساتھ برا سلوک بھی نہ کرو۔۔۔مسز رشید نے پنترا بدلا ۔

امی۔۔۔آپ مجھے انسان کیوں نہیں سمجھتی ۔ میں ربوٹ نہیں بن سکتا ۔ کہ آپ جو کہیں میں من و عن اس پر عمل کروں ….چوہدری صدیق نے کہا ۔

بیٹے۔۔۔۔کچھ بھی کرو یہ رشتہ بس قاٸم رہے۔ مسزرشید نے کہا ۔

ہاں ۔۔۔رشتہ قاٸم رہے چاہے ہم دونوں روتے رہیں ۔۔۔ارسہ بھی اور میں بھی ۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔

بیٹے ۔۔میری بات سمجھو ۔ ارسہ معصوم سی لڑکی ہے تھوڑے پر بھی راضی ہو جانی ۔ مسز رشید نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ ۔۔

ہاں ۔۔۔مصیبت اب آ گٸی ہے نا ۔ اب پھر سے مجھے روز یہی لیکچرملا کریں گے۔ چوہدری صدیق نے قدرے اونچے لہجے میں کہا ۔

چاۓ کے پیالوں سے بھری ٹرے اٹھاۓ آتی ارسہ کے پاٶں وہیں زمین میں گڑھ گٸے ۔ چوہدری صدیق کے الفاظ نے اس کے دل کو زخمی کر دیا تھا ۔۔۔۔

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔ ۔۔۔کاش چوہدری صدیق تم شادی سے پہلے یہ احتجاج کرتے یا ماں باپ کو بتاتے ۔کم از کم میری زندگی تو تباہ نہ ہوتی۔ ارسہ نے سوچا۔

اس کےکمرے میں داخل ہوتے ہی خاموشی چھا گٸی ۔ چوہدری صدیق نے ایک شکایتی نگاہ اس ہر ڈالی اور سر جھکا لیا۔

چاۓ خاموشی سے پی گٸی۔




ارسہ ماشإ اللہ گلابی رنگ تم پر کتنا سجتا ہے نا ۔ مسز رشید نے کہا۔

اسے ایک دم سے حمزہ کے الفاظ یاد آ گٸے ۔ اس نے بھی تو پہلا جوڑا گلابی ہی خرید کر دیا تھا۔ اگر کوٸی سراہنے والا ہوتا یا اس کا شوہر کم از کم اسے کم ماٸیگی کا ہر لمحہ احساس نہ دلاتا تو شاید اسے حمزہ کی یاد اس شدت سے نہ آتی ۔

ہاں۔۔۔اچھا لگ رہا ہے ۔ چوہدری صدیق نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ۔

ارسہ مسکراکر رہ گٸی ۔

تعریف بھی ایسی تھی جیسے کسی نے زبردستی کی ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ارسہ کی سالگرہ تھی ۔ اس کو مبارک باد دینےوالوں میں ہمیشہ کی طرح حمزہ سب سے پہلا شخص تھا ۔ ارسہ کواس برس خود بھی یاد نہ تھا ۔ چوہدری صدیق سے تو گلہ کرنا عبث تھا ۔ وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن تھا ۔ اسے ارسہ کے وجود کےہونے یا نہ ہونے سے بھی کوٸی فرق نہ پڑتا تھا۔ حمزہ آج رات اکیلا بیٹھا تھا اس کے سامنے ارسہ کی پسند کا چاکلیٹ کیک رکھا تھا۔ کیک پر موم بتیاں لگاٸی گٸی تھیں۔

یار !۔۔یہ کس کی سالگرہ کا کیک ہے ۔ احمد پاکستانی تھا اور اس کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں رہتا تھا۔اس کے علاوہ وہ ایک ہی دفتر میں کام بھی کرتے تھے۔

ایک دوست ہے پاکستان میں اس کی آج سالگرہ ہے ۔ آٶ ۔۔کیک کاٹیں ۔۔۔حمزہ نے اسے دعوت دی ۔

کیک ۔۔۔تو ضرور کاٹیں گے لیکن یہ دوست کی سالگرہ ہے یا تیری منگیتر کی ۔ ایسی حرکتیں تو منگیتر کی سالگرہ پر کوٸی نہیں کرتا۔ احمد نے لتاڑا ۔

او یار! ۔۔دوست ہے ۔ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ حمزہ نے جز بز ہوتے ہوۓ کہا ۔

جب اس کی شادی ہو گٸی تو تم کیک کیوں کاٹ رہے ہو ؟۔۔۔۔۔ احمد نے حیرانی سے پوچھا ۔

میں کیک اس لیے کاٹ رہا ہوں کہ آج اس کی سالگرہ ہے ۔۔۔۔۔ حمزہ نے کہا ۔احمد لاجواب ہو گیا ۔

کیک کاٹا گیا اس کی کیک کی تصاویر فیس بک پت لگا دی گٸیں ۔ حمزہ نے یہ تصویریں ارسہ کو بھی بھیجیں ۔

حمزہ ۔۔۔ارسہ نے چوہدری صدیق کے گھر سے باہر جانے کے بعد تصاویر دیکھیں تو اس کو ایک دھچکا لگا۔

پچھتواۓ اور احساس گناہ نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

حمزہ میں نے تم جیسے محبت کرنے والے انسان کو چھوڑا دیکھو مجھے کیسی اذیت ملی ۔ ارسہ اسے بتانا چاہتی تھی لیکن نہ بتا پاٸی۔

بس شکریہ ادا کیا اور فون ایک طرف رکھ دیا ۔ آنسو اس کی آنکھوں سے از خود بہنے لگے ۔

حمزہ بھی کیک کاٹ کر غسل خانے کی طرف بڑھ گیا ۔

اس کی سسکیاں غسل خانے می دب کر رہ گٸیں ۔

مرد کے لیے کسی کے سامنے آنکھوں کا بھیگ جانا بھی قابل قبول نہیں ہوتا ۔

حمزہ ۔۔۔تم ٹھیک تو ہو نا ۔ احمد نے غسل خانے کا دروازہ بجایا ۔

ہاں ۔۔آ رہا ہوں ۔۔۔حمزہ کو اپنے آپ پر قابو پانے میں چند سکینڈ ہی لگے تھے۔ وہ غسل خانے سے نکلا تو اس کی آنکھوں کی سرخی تمام راز اگل رہی تھی ۔

احمد اس کے بنا کچھ کہے ہی سمجھ چکا تھا ۔

آٶ یار ۔۔۔کیک کھاٸیں ۔۔ حمزہ نے خوش ہونے کی اداکاری کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔

آں۔۔ہاں ۔۔۔احمد گڑبڑا گیا ۔ حمزہ کیک کاٹ کر پیلٹ میں نکالنے لگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن حمزہ دفتر میں معمول کے کام سر انجام دے رہا تھا کہ اس کے سر میں شدید درد کی ایک لہر اٹھی ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھاما۔

یا اللہ۔۔۔۔۔تکلیف سے اس نے اپنی آنکھیں میچ لیں ۔

حمزہ ۔۔کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے نا ۔ احمد اس کا کمرے اور دفتر کا ساتھی تھا ۔

کچھ نہیں یار ۔۔۔سر درد ہو رہا ہے۔۔حمزہ نے کہا ۔

چلو میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں ۔۔۔احمد نے کہا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریبی اور مددگار بن چکے تھے ۔

نہیں ۔۔میرا خیال ہے میں ٹھیک ہو جاٶں گا ۔ حمزہ نے کہا ۔ ۔۔

یوں آۓ روز سر درد ہونا مناسب نہیں ہے حمزہ ۔۔۔چلو ۔۔۔احمد نے کہا ۔

کیا ہوا۔۔۔اتنی دیر میں منیجر ان کے ڈسک کے پاس پہنچا اور انگریزی میں پوچھا ۔

سر ۔۔اس کو کافی دنوں سے سر درد کی شکایت ہے اب میں اسے کہہ رہا ہوں کہ ہسپتال چلے ۔ احمد نے خود کے حمزہ کے ڈسک پر ہونے کی صفاٸی دی۔

سر درد آپ کے کام کرنے صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ احمد تم اسے لے جاٶ۔ منیجر نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔

چل اٹھ اب ۔۔۔منیجر کہہ کر گیا ہے۔ اب نہ گٸے تو یہ چیخے گا ۔ احمد نے حمزہ کو بازو سے پکڑا اور کھنچا۔ حمزہ نے کوٸی مزاحمت نہ کی اور خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔

دوبٸی میں صحت کی سہولتیں عام انسان کی پہنچ میں ہیں۔ وہ دونوں ہسپتال پہنچے ۔

احمد اسے ڈاکٹر کے پاس لے آیا ۔

ان کو کوٸی ڈپریشن ہے ۔ میں نے سکون آور دوا دی ہے ۔ یہ دو گھنٹے بعد جاگیں گے ۔ آپ انھیں کسی ساٸیکاٹرسٹ کو دکھاٸیں ۔ ڈاکٹر نے کہا ۔

کسی کو روگ لگ جاۓ تو دواٸیں کوٸی اثر نہیں کیا کرتیں ۔ احمد نے دل ہی دل میں سوچا ۔

ڈاکٹر اپنی بات کہہ کر جا چکا تھا ۔

حمزہ کو دو گھنٹے بعد جب ہوش آیا تو وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ کہاں ہے ؟

حمزہ ۔۔میرے دوست۔۔۔تمھیں کیا ڈپریشن ہے ؟ احمدنے پریشانی سے پوچھا۔ حمزہ نے کسی مجرم کی طرح نگاہیں نیچی کر لیں۔

اب کسی ساٸیکاٹرسٹ کے پاس جاٶ۔۔۔۔ڈاکٹر یہی کہہ کر گیا ہے ۔ احمد غصے سے پولا ۔ اس غصے میں اس کا حمزہ کے لیے پیار جھلک رہا تھا ۔

ابھی تو گھر جاتے ہیں نا ۔ بعد میں سوچیں گے۔ اٹھو۔ حمزہ نے ایک جھٹکے سے بستر سے اٹھتے ہوۓ کہا ۔

راستے میں آٸس کریم بھی کھاٸیں گے۔ حمزہ خود کو پرسکون ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولا ۔ احمد نے نروٹھے پن سے اس کی طرف دیکھا




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *