حمزہ بے دلی سے اٹھا اور اس کے ساتھ چل دیا۔۔کمرے سے باہر آ کر اس کا دل بہل ضرور گیا لیکن اس کے دل کی بے چینی نہیں گٸی ۔ وہ احمد کو اس بے چینی کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا۔ احمد کو بتاتا تو اس نےسیدھا کسی دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھااور یہ وہ نہیں چاہتا تھا
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسہ اتنا کچھ ہو گیا تمھارے ساتھ اور تم نے مجھے بتانا تک پسند نہیں کیا ۔۔۔علی نے گاڑی کو بریک لگاتے ہوۓ پوچھا۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رک گٸی ۔
علی مجھے امی نے منع کیا تھا ۔ ابو کو سب پتہ ہے ۔ ارسہ نے کسی مجرم کی طرح سر جھکاتے ہوۓ کہا.
ارسہ خدا کے لیے…ہم ہمیشہ دوستوں کی طرح رہے ہیں اور تم ایسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سچ چھپا کیسے سکتی ہو مجھ سے ۔ علی بے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔
علی میں کیا کرتی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔امی نے کہا کہ میں نہ بتاٶں کسی کو بھی ۔ آج بھی پتہ نہیں کیسے میں ضبط نہیں کر پاٸی ۔ ارسہ نے شرمندگی سے کہا ۔
چلو میں بات کرتا ہوں آج امی سے بھی ۔ یار ۔۔میں ساری دنیا کے مسٸلے حل کرواتا ہوں اورمیری بہن اتنی تکلیف میں ہو اورمیں اس کو نہ بچاسکوں ۔۔تف ہے مجھ پر ۔۔۔۔علی نے غصے سے کہااور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
علی ایسا نہ کہو۔۔غصہ نہ کرو۔۔۔ارسہ نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ کیا غصہ نہ کروں۔یہ آپ کی زندگی ہے باجی کوٸی تین گھنٹے کی فلم نہیں جو ایک دم سے ختم ہو جاۓ گی۔اور خدا کے لیے خود پر تھوڑا رحم کریں ۔ علی نے کہا ۔
علی میں کسی بھی طرح اس رشتے کو چلانا چاہتی ہوں ۔میں نہیں چاہتی کہ یہ رشتہ ختم ہو کر رہ جاۓ۔ ارسہ نے کہا ۔
باجی آپ کو لگتا ہے کہ یک طرفہ رشتہ قاٸم رہ سکتا ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔آپ کوشش کریں لیکن کوشش بھی ددست سمت میں کریں ۔ طریقے سے چلاٸیں معاملات کو۔ علی نےکہا ۔
ارسہ خاموش رہی کیونکہ اسے خودعلم نہ تھا کہ وہ کرے تو کرے کیا۔ انہی باتوں میں مصروف وہ گھر پہنچ گٸے۔
آرام کرنے کے بعد شام کو وہ اکٹھےچاۓ کی میز پر بیٹھے تھےعثمان حسب معمول اکیڈمی جا چکا تھا۔ امی۔۔
آپ کو علم ہے کہ صدیق نے ارسہ کو کیسے رکھا ہوا ہے۔ چاۓ پیتے ہوۓعلی نے پوچھا۔