قلم پر ہے لپٹی تعصب کی ناگن

سو حرفوں سے وہ زہر چھلکا رہا ہے

یہ لرزہ براندام سے بام و در ہیں

کہ امت بھی ٹکڑوں میں بٹنے لگی ہے

خزاں زاد خود ہیں مگر

دیکھیے توگلوں کی تمنا میں ہلکان سے ہیں

زمیں میں ہیں نفرت کا یہ بیج بوتے

گلستاں سے برگ و ثمر کے ہیں طالب

خدا و رسول_خدا ایک ان کا

تو پھر کس لیے ہے یہ دوئی دلوں میں

مقید ہیں سب اپنی اپنی حدوں میں

صدف چھا گئے ہیں یاں بادل فنا کے

کہ مرتے لگے نام لیوا خدا کے

🤔 میمونہ صدف ہاشمی 🤔اسلام آباد




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *