ہم نے اس وطن عزیز کو بے انتہا قربانیاں دے کر ، لہو سے سینچ کر حاصل کیا ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعدکے فورا بعد سے ہی اس مملکت خدا داد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان میں سے کچھ مشکلات عارضی تھی جبکہ کچھ کی نویت طویل مدت تھی۔اس وقت کی نسل کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا رہا اور نسل در نسل ان میں اضافہ ہوتا رہا تعلیم کے حصول کے بعد غریبوں کو نوکریاں حا صل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا کیونکہ امیر لوگ اپنے عزیزوں کو نوازتے رہے ۔دہی علاقوں میں زمین داروں ، وڈیروں نے لوگوں کو تعلیم سے محروم رکھا اور انھوں نے آج بھی اپنے مزارعوں کو آگے بڑھنے کے راستے مسدود کر رکھے ہیں
اس وطن کی بنیاد ہمارے قائد نے اتحاد ، تنظیم ، یقین محکم پر رکھی ۔ہماری نسل نے یہ خواب دیکھا کہ اتنے برس بعد ہم یہاں ہوں گے لیکن اس کی خواب کی تعبیر کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔مارشل لاء دور کے بعد کسی بھی جمہوری حکومت نے اس ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ایوب خان کے دور کے بعد کوئی بھی لیڈرایک بھی بڑا ڈیم تک بنانے کا فیصلہ نہیں کر پایا ۔ منصوبہ بندی تو ہر دور میں بہت کی گئی اور اس پر عوام سے وصول کئے گئے ٹیکس کی ایک خطیر رقم بھی لگائی گئی ۔ لیکن یہ تمام کی تمام منصوبہ بندی فائلوں کی نظر ہوتی رہی اور کوئی بھی منصویہ سیاسی دکانداری اور تنقید برائے تنقید کی وجوہات کی بنا پر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ۔ڈیم، قحط سالی ، سیلاب ، دھماکوں اور میتوں تک کے معاملے میں سیاسی دکانداری چمکائی جاتی رہی ۔ملکی مفاد کا نعرہ تو ہر دم لگایا گیا لیکن یہ نعرۂ صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود رہا۔
ہماری حکومت تو حکومت عوام تک اپنی مستیوں میں مگن ہے ۔بے حسی کی انتہا کا ایک عجیب منظر چشم فلک نے یوں بھی دیکھا کہ سندھ فسٹیول منانے والوں کے بے حد قریب تھر کے علاقے میں بھوک و افلاس کے سائے چھائے ہوئے ہیں ۔ اسی سندھ فسٹیول کے سائے میں ننھے بچوں کے سروں پر موت گدھوں کی طرح منڈلا رہی ہے ۔روزانہ کتنے ہی لوگ اور مویشی اس بھوک کا شکار ہو جاتے ہیں اورحکومت سندھا ان قحط زدہ لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی بجائے اپنی غیرت کا طرا بلند کیے وفاق اور پنجاب سے امداد لینے کو تیار نہیں ۔ یعنی ان کی مصنوعی شان سلامت رہے ۔غریب اپنی جان سے جائیں سو کیا ؟؟؟۔۔۔۔۔
عجیب المیہ ہے کہ اس ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ بھوک و افلاس ، پینے کے پانی کی قلت جیسے مسائل کا شکار ہیں اور حکمران طبقے کو فسٹیول اور تقریبات سے ہی فرصت نہیں۔تھر ، وزیرستان میں بلخصوص اور پورے ملک میں بالعموم حشر کی مانند ہر سو پریشانیاں برپا ہیں اور ہم عمل سے بے بہرہ ، نوا گری اور اسلاف کے کاررنامے بیان کرنے اور ان کارناموں پر فخرکرنے میں مصروف۔جبکہ ہم نے ان سے کچھ سیکھا نہیں اور نہ ہی ان کے نقش قدم پر چلنے کو تیارہیں ۔ ۔معصوم چہرے دھماکوں ،قحط ، چور بازاری سے کملا چکے ہیں اور ہم ابھی تک یہ فصیلہ نہیں کر پائے کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے ؟؟؟
ٹاک شوز میں گھنٹوں کی بے معنی بحث کرنے والیگفتار کے غازی ، کردار سے عاری یہ سیا سی کارکن ، ایم این اے ، ایم پی اے ، تھر کے قحط زدہ علاقے میں تین دن کے بعد پہنچے اور وہ بھی غیر سرکاری تنظیموں اور فوج کے کام شروع کرنے کے بعد۔ فوج کوسرحدوں تک محدود رہنے کا مشورہ دینے والے جہاں عملی اقدام کی ضرورت ہو اسی فوج کی جانب دیکھتے ہیں ۔حکومتی اداروں اور سیاست دانوں کی نااہلی کا تو یہ عالم ہے کہ ایسی ہر مصیبت کے وقت کوئی ایم این اے ، کوئی لیڈر منظر عام پر نظر نہیں آتا ۔ حکومتی ادارے صرف رپورٹیں ہی بنانے پر اکتفا ء کرتے ہیں ۔ اس بار بھی یہی ہوا ،میڈیا میں قحط کی خبروں کے آنے کے بعدوزیر اعظم کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ۔ اس میں انسانوں سے زیادہ اہمیت بھیڑ ، بکریوں کو دی گئی گویا انسانی جان کی اہمیت ایک بھیڑ بکری کے برابر ہے ۔۔ مذمت کے چند نپیے تلے الفاظ پیش کیے جاتے ہیں، چند تقاریر کی جاتی ہیں اورپھر اس بات پربے تکان بحث کی جاتی ہے کہ اموات قحط سے نہیں بلکہ کسی وبائی مرض سے ہوئی ۔ان اموات کی چاہے غذائی کمی ہو، کوئی وبا ہو، وجہ جو بھی ہو ۔ سبب کچھ بھی ہو۔مرض کوئی بھی ہو دوانہیں کی گئی ۔ اس کے سد باب کے لیے عملی اقدامات کیا ہوئے ۔؟؟؟؟
جب تاریخ اقوام عالم لکھی جائے گی تو ہمیں ایک بے حساور ظالم قوم کے طور پر یاد رکھا جائے گاْ ۔جن کے جوان بیٹے اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں شہیدہوتے رہے ، بچے وباؤں ، مائیں ، بہنیں قحط کا شکا ر اپنی جانوں کی بازیا ں ہارتی رہیں اور وہ ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہے۔اپنی ثقافت کی احیا ء کا جشن مناتے رہے ۔ دنیا کو دکھاتے رہے کہ ہم کس قدر بے حس ہیں ، کہ حالات کیسے بھی ہوں ، ہمارے بیٹے ، ماۂیں ، بچے ، مررہے ہوں ہم ناچ سکتے ہیں۔ اس فسٹیول ،ہم ضائع ہونے جانے والی رقوم میں سے کچھ فی صد حصہ ہی ان قحط زدہ علاقوں پر خرچ کر دیا جاتا تو شاید جان سے جانے والوں کی تعداد کچھ کم ہوتی ۔ لیکن یہاں ایسا کوئی حساس دل موجود نہیں جو ان لوگوں کی بے بسی کو محسوس کرے ، سسکتے بلکتے بچوں کی لاشوں پر بین کرتی ماؤں کے غم کو محسوس کر سکے ۔
مصنوعی عالمی ریکارڈبنانے اور گنز بک آف والڈ ریکاڑ میں نام لکھوانے کی دھن میں بے بہا پیسہ لگانے والے اپنے ہی شہید ہوتے بھائیوں، زندگی کی تلخی سے نڈھال ماؤں اوربھوک سے بلبلاتے اور جان سے جاتے بچوں کو بھولے رہے۔ اپنے آپ کو قومی ورثہ کے پاسبان اور نگہبان کہنے والے اسی قومی ورثہ کے کھنڈرات پر ناچ گانا منعقد کروانے والے ان عمارتوں کیخستہ حالی سے بے خبران کو محفوظ کرنے کو تیار نہیں۔ ۔ جو اپنے ہی لوگوں کے جان کے دشمنوں سے مذاکرات کی دھن میں وہ اپنے قومی وقار تک کی دھچیاں اڑھتے دیکھتے رہے ۔اورکسی ان دیکھے مسیحا کے انتظار میں رہے ۔
امن اور مذاکرات کا کا نعرہ بلند کرنے والے ان خنجروں سے واقف بھی ہیں جو ان کی شہ رگ کو کاٹنا چاہتے ہیں ، اور ان قوتوں سے بھی جنھیں اس ملک کی سلامتی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور وہ اس کو توڑ دینے کے در پے ہیں لیکن ذاتی مفاد ، قومی وقار اور قومی مفاد سے کہیں بلند رکھا گیا ۔سب جانتے ہیں کہ ملکی مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کس طرح سے ممکن ہے لیکن کوئی ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کو تیا ر نہیں ۔ہم آنے والوں کو سنہری خواب تو دے رہے ہیں لیکن تعبیر کی روشنی کے بغیر۔ہم نے نہ ہی محنت کا بیج بویا اور نہ ہی بونے دیا ۔گویا وہ مالی ہیں جو پل تو کھانا چاہتا ہے لیکن پودا لگانے کی محنت نہیں کرنا چاہتا ۔اور اگر مالی محنت سے عاری ہو ، بنا بیج بوئے فصل حاصل کرنے کا تمنائی ہو تو باغ کی زمین چاہے کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو ۔ وہ مطلوبہ فصل حاصل نہیں کر سکتا ۔
بھیڑ چال چلتی یہ نسل کوئی واضع نشان منزل طے نہیں کر پائی ۔ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ،مسیحا آئے ، کوئی صور پھونکا جائے ، کوئی جادو کی چھڑی گھمائی جائے اور حالات بدل جائیں ۔لیکن ایسا ممکن نہیں ۔ملک کی اجتماعی صورت حال کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں موجود سقم کو دور کرے ۔فرائض میں ہونے والی کوتاہیوں کو ختم کر کے محنت اور امانت داری کو اپنا شعار بنائیں ۔اگر ہر شخص اپنا فرض تندہی سے ادا کرے تو معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا ۔
ZABARDAST buhat acha likha aap nay
Well done very true