انگوری روڈ کا سفر کرتے ہوئے ہمیشہ میری توجہ ایک گورنمنٹ سکو ل اور اس کے طالب علم اپنی جانب مزکور کرتے ہیں۔یہ گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کھریڑی ہے جوانگوری روڈ، ضلع مری ،تحصیل راولپنڈی ،صوبہ پنجا ب کی حدود میں واقع ہے۔ جس کی عمارت، دو کمروں اور بیری کے بوڑھے درخت پر محیط ہے۔بنا کسی چاردیواری اورکھیل کے میدان یہ عمارت صرف برائے نام ہی سکول کہلائی جا سکتی ہے ۔۔سڑک کی نسبت قدرے گہرائی میں بنی یہ عمارت بچوں کو موسموں کی شدت سے محفوظ رکھنا تو درکنار ،بارش کے پانی کو بھی روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ہوا ء اور روشنی کے لیے بنائے گئے روشن دان، مون سون یا بارش ہونے کی صورت میں پانی کے بہاؤ کو سڑک کی بجائے سکول کی عمارت کے جانب موڑ دیتے ہیں اور یہ عمارت کسی جوہڑ کا منظر پیش کرتی ہے ۔اور اس موسم میں یہ طلبہ بنا کچھ پڑھے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔یہ سکول ،دو اساتذہ اورآنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے ، بستوں کے ساتھ پیڑیاں اٹھائے ، چند بچوں پر مشتمل ہے ۔ان بچوں کے پاس ذہانت ، محنت، آگے بڑنے کی لگن سبھی کچھ ہے لیکن ان کے مالی حالات انھیں کسی بہترین اور جدید سہولیات سے آراستہ سکول میں داخلہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ۔ان بچوں کاقصورصرف غربت اورتنگدستی ہے ۔جوان کے بلواسطہ اور ملک کے بلاواسطہ تابناک مستقبل کی راہ میں حائل ہے اور انھیں اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کا شہری بننے پر مجبور کیئے ہوئے ہے ۔انھی کی عمر کیچندفی صدبچے جن کے والدین امیر ہیں ، جدید سہولیات سے مزین سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔جو مختلف شعبوں میں نام پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔۔جبکہ گورنمنٹ سکو لمیں پڑھنے والے بچے قابلیت ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں پچھے رہ جاتے ہیں،ان کے ننھے ذہنوں میں جنم لینے والا احساس محرومی بعد انھیں معاشرے کے خلاف بغاوت پر اکساتا ہے ۔اور یہی بچے بعد میں شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں یا اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے دریار غیر کا رخ کرتے ہیں۔
اسی سکول سے چندفرلانگکے فاصلے پر ایک عالی شان مسجد بھی موجود ہے ۔جس کی تعمیر میں بے بہا پیسہ لگا یا گیاہے ۔یہمسجد بہترین کاشی کاری کا ایک عالی نمونہ ہے۔ مسجد کا داخلی دوازہ لکڑی پر مینہ کاری سے آراستہ ہے جس کی لاگت کم و بیش پچاس ہزار تک ہے ۔داخلی دروازے پر ہمہ وقت ایک موٹا سا تالا لگا رہتاہے جس کو مؤذن صرف اوقاتنماز میں ہی کھولتا ہے اور نماز ختم ہوتے ہی مسجد کو پھر سے مقفل کر دیا جاتا ہے ۔سکول کے بچے مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک حسرت بھری نگاہ اس پر شکوہ عمارت پر ڈالتے ہیں اور آگے چل دیتے ہیں ۔
اگر اس مسجد کو ان بچوں کے لیے سکول کے اوقات میں کھول دیا جائے تو مسجد کو سکول کے طور پر بھی استعمال کیا جائے ۔وقت نماز یہ بچے بھی نماز ادا کریں ۔اس طرح ان بچوں کو ایک ایسی عمارت بھی میسرآسکے گی جو انھیں موسموں کی شدت سے بھی محفوظ رکھ سکے گی اور مسجد کے نمازیوں میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو گا ۔ساتھ ہی ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں مذہب کا تصور بہتر ہو سکے گا۔
ظہور اسلا م کے اولین دنوں میں بھی مساجد ہی کو درس گاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا ۔جہاں دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم بھی حاصل کیا جا تا تھا ۔مسجد قباء مسلمانوں کی پہلی درس گاہ تھی ۔اور جب تک دین اور دنیا کے علم کو یکجاء رکھا گیا مسلمان علمی دنیا پرچھائے رہے اور جب دنیاؤی اور دین کی تعلیم کو الگ کیا گیا ،تب مسلم دنیا نے زوال کی رہ لی۔اس طرح آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ذہین میں اسلام کی عظمت اور علم کی قدرواہمیت کم ہوتی چلی گئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین کے علم کو ایک مخصوص طبقے تک محدود کر دیا گیاجبکہ دنیاؤی علوم میں اسلامیات کا مختصر مضمون نصاب میں شامل کیا گیا ۔جس میں صرف چند عقائد اور واقعات کا احاطہ کیا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو وہ بچے ہیں جو دنیاوی علوم میں توماہر ہیں لیکن دینوی علوم سے بے بہرہ ہیں اور دوسری جانب وہ بچے ہیں جو روایتی مذہبی علوم تو جانتے ہیں لیکن دنیاوی علم حاصل نہیں کر پاتے ۔ ان کی اسناد بھی عالمی سطح پر قابل قبول نہیں ہوتی نہ ہی انھیں مناسب ملازمتیں ملتی ہیں ۔اس طرح ہمارا معاشرہ واضع طور پرمختلف افکار رکھنے والے دو گروہوں میں بٹ گیا ہے۔اور روز بروز ان گروہوں کے در میان خلیج بڑھتی جا رہی ہے ۔جو بلآخر تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔
مسجدوں کو سرکاری سکول کے طور پر استعمال کی صورت میں سردست نہ کسی قسم کے سرمائے کی ضرورت ہے اور نہ ہی نصاب میں ردوبدل کی ۔وہی تختہ سیاہ جوٹوٹی پھوٹی عمارت میں رکھا گیا ہے اسے ہی استعمال میں لانا چاہیے ۔دور افتادہ ، وہ علاقے جہاں سکول تو موجود ہیں لیکن ان سکولوں کی عمارتیں خستہ حال یا بنیادی سہولیات مثلاپنکھا ، یا ہیٹروغیرہ سے عاری ہیں وہاں مساجد کی عمارات کا سکو ل کے طور پر استعمال سرکاری اور نجی شراکت داری کا عالی نمونہ بن سکتا ہے ۔حکومت وقت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کر ہر ایک سکول کی حالت زار سنوار سکے ۔یہ پورے معاشرے کی بلعموم اور مخیرحضرات کی بلخصو ص ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی نظام میں اپنا حصہ ڈالیں اور حکومت کا ساتھ دیں ۔ہر ایسی قفلزدہ مسجد کو سکول کی عمارت کے استعمال کی صورت میں معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے جن کا جرم صرف اور صرف ان کیغربت ہے، بھی ایک محفوظ عمارت میں تعلیم حاصل کر سکیں گے ۔اور اس احساس محرومی کا بھی ازالہ ہو سکے گا جو ان معصوم ذہنوں کو اپنے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے ۔ واضع رہے کہ یہ مساجد دینی مدارس نہیں بلکہ یہ ان روایتی مدارس سے الگ وہ عارضی سکول ہیں جنہیں بوسیدہ حال عمارت اور ناکافی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کی بنا پر گورنمنٹ سکول کے طور پر استعمال کیا جائے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]