کون ہوں میں
کوئی مجھ کو بتلاۓ ،کون ہوں میں
ماں باپ کی آنکھ کا تارا
ان کے خوابوں کا محور
میں عالم بننا چاہتا تھا
دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا
قرآن کا حافظ بننا چاہتا تھا
پہناۓ ہار مجھے جس نے
میں نہیں جانتا ،کون ہے وہ
جس نے برساۓبم
ان کے مقاصد سے بھی لاعلم
یہ بھی جانتا نہیں ،کون ہوں میں
یہ سرزمیں بھیگ رہی ہے میرے لہو سے
یہ درودیوار میرا جسم لیے مٹی ہوۓ
میری ماں کو بتاٶ
اس کا لال اب نہیں لوٹنے والا
گل پاشی اب کرو لحد پر بابا
لحد بھی اک سانجھی بنا ڈالو
دوست اک ساتھ سوتے ہیں
مگر یہ بتا دو اے دنیا والو
کس جرم کی سزا میں نے پاٸی
جگھڑا تک نہ کیا میں نے
اب میں سوتا ہوں
اب کوٸی ضد نہ کروں گا
کچھ نہ پوچھوں گا
یہ سفید عمامہ ماں کو لوٹا دو
یہ قرآن میرے ساتھ ہی دبا دو
جو قاتل ہیں مجرم وہ نہیں میرے
مجرم تو تم ہو
جو بنےخاموش تماشاٸی
بس قلمی باتیں کرتے ہو
آپس میں ہی لڑتے ہو
آنکھیں موندے
فرقوں میں بٹے
دولت کی ہوس میں اندھے
اقتدار کی دوڑ میں پاگل
جو پیسے کو خدا بنا بیٹھے ہیں
مجھے بتلاٶ
کیا تمھارے بچے بھی یوں
جان ہارا کرتے ہیں ؟
کیا تمھاری ماں بھی نوحہ کرتی ہے
تم سرحدوں میں ہو مقید
نہ جانےکب تک رہو گے خاموش
کیوں لب سل گٸے تمھارے
قلم بھی تھم گٸے
جانتے ہو کیوں
کہ میں اور تم اک سے ہیں
نہ میں جانوں اور نہ ہی تم
یہ جانتے ہو کون ہوں میں
میمونہ صدف ہاشمی




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *