از طرف:میمونہ صدف
بھارت کے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور بھارتی افواج کی جانب سے ہونے والے ظلم و ستم سے کون واقف نہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ضمن میں کئی رپورٹس بنائی اور عالمی سطح پر شائع بھی کروائی گئیں۔ ملکی اور عالمی سطح پر احتجاج ہونے کے باوجود بھارت سرکار کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کشمیر اور بھارت کے دیگر صوبوں میں مسلمانوں کی حالت زار اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے مسند حکمرانی سنبھالی۔ پچھلے سال نریندر مودی حکومت کی جانب سے دو مسلمان مخالف قوانین پاس کیے گئے۔ ایک جانب کشمیر میں آرٹیکل ۷۰۳ کو ختم کرکے وادی میں ہر طرح کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ یہاں تک کہ مریضوں کو دواؤں تک کی فراہمی اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر جموں و کشمیر میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گذشتہ برس اگست سے آج تک کشمیری ایک قیدی کی سی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے دوسری جانب ترمیمی شہریت بل کی منظوری دی جس کے مطابق بھارت میں عرصہ دراز سے مقیم مسلمانوں سے بھارتی شہریت چھین کا عندیہ دیا گیا اور مسلمانوں کے لیے جائیداد کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔اس بل کی منظوری سے بھارتی مسلمانوں کو قرار واقعہ نقصان ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بھارتی مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے اس بل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا آغاز ہو گیا۔ مسلمانوں نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنیکے لیے پر امن مظاہروں کا آغاز ہوا جس کے جواب میں بھارتی پولیس کی جانب سے ان پر فائزنگ کی گئی۔ مشتعل ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کا قتل، ان کی املاک کو نقصان پہنچانا، مساجد کو جلانا معمول بن چکا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دہلی میں تشدد کے واقعات کی ایک نئی مثال قائم کر دی گئی۔ حال ہی میں ہتھوڑوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس انتہا پسندہنددوں کی ایک جماعت دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو کا نعرہ لگاتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخل ہوگئی۔اس حملہ میں کل ۶۲ طلباء اور اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ طلباء امن مارچ کا حصہ تھے۔ دہلی فسادات میں مساجد پر بھگوا دہشت گردوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملہ کیا جس میں مساجد کی دیواروں اور چھتوں کو منہدم، قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتب کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ مساجد کے گرد و نواح میں موجود مکانات ا ور دوکانوں کو بھی جلا کر راکھ کر دیا گیا۔فروری کی آخروی تاریخوں میں مشرقی دہلی میں بھڑک اٹھنے والے فسادات میں کل ۰۵ اموات ہوئیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ۰۰۴ سے زیادہ ہو گئی۔
ساوتھ ایشن وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں ۶۳۴ مقدمات درج کیے گئے ۷۲۴۱ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں استدعا ء کی گئی ہے کہ دہلی میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے پس ِ منظر میں ملوث بی جے پی کے راہنماؤں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاق ایف آئی ار درج کروانے کا حکم دے اور سابق ججوں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ان فسادات کے ذمہ داران کو سزا دی جا سکے۔
دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات نے ہر حساس دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی سطح پر اب ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں کی مذمت کی جانے لگی ہے۔ دہلی میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے خلاف امریکہ کی ۱۲ یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے ہولی کے تہوار پر کالا لباس زیب تن کرکے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ طلباء نے کہا ہے کہ ہولی کے تہوار میں سیاہ اور سفید رنگ سے ہولی کھیلی جائے گی جو کہ ایک علامتی احتجاج ہے۔
ماضی میں نریندر مودی ماضی میں گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اس سے پہلے بھی مسلم کش فسادات کا حصہ رہے۔گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے نریندر مودی کو گجرات کا قصائی ہونے کا خطاب دیا گیا۔مختلف ادوار میں بھارتی مسلمان انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمان بعموم جبکہ دیگر اقلیتیں بشمول بھارتی اکثریت، ہندوؤں کی بربریت کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں بھارتی ہندوؤں نے اقلیتوں کو پھر سے ہندو مذہب اختیار کرنے کے لیے مجبور کرنے کی تحریکیں اٹھتی رہیں جیسے گھر واپسی تحریک جس میں مسلمانوں کو یا تو پاکستان چلے جانے کا کہا گیا یا پھر ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
واضع رہے! بھارت پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرتا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا اور بھارتی پارلیمانی لیڈر اپنے ملک میں ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دراندازی، دہشت گردی کی پشت پناہی اور پاکستان دشمن عناصر کو مالی اور اخلاقی امداد دیتا رہا ہے۔ جبکہ خود بھارت کے اندر موجود اقلیتوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ مسلمان چاہے جموں و کشمیر کا ہو یا پھر دہلی یا یو پی کا بھارت میں اس کی نہ تو جان اور نہ ہی املاک محفوظ ہیں۔ وہ دہشت گردی جو بھارت، پاکستان میں پھیلانے کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے آج خود اسی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنی معیشت کو داؤ پر لگا چکا ہے۔ اگر اس انتہا پسندی پر قابو نہ پایا گیا تو بھارت کو ایک اکائی کی حیثیت سے قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ عالمی اداروں کو چاہیے کہ بھارت میں پسنے والے مسلمانوں کی خبر گیری کرتے ہوئے بھارت پراقتصادی اور معاشرتی دباؤ ڈالا جائے