Home / Home / اردو مضامین / پاک امریکہ تعلقات: تاریخ کے اگلے موڑ پر

پاک امریکہ تعلقات: تاریخ کے اگلے موڑ پر

از طرف: میمونہ صدف
امریکی سفیر برائے جنوب ایشاء، سری لنکا اور بھارت کے سرکاری دورہ کے بعد پاکستان کے چار روزہ دورہ پر ۲۲ جنوری سے پاکستان کے دورہ پر ہیں۔ بلاشبہ یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔ یہ ان سفارتی کوششوں میں بھی کامیابی کا پیش خیمہ ہے جو پاکستان کی جانب سے کی جاری رہی ہیں۔ یہ دورہ اس بات کا غماز ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات پر پڑی سر د مہری کی برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات مختلف اوقات میں سردی اور گرم جوشی کا شکار رہے۔ ان تعلقات کی نوعیت کچھ لین دین اور دوہر ی رہی۔ ماضی قریب کے دس سالوں میں امریکی صدر ٹرمپ اپنے ٹیوٹر پیغامات کے ذریعے پاکستان کے بارے میں بات کرتے رہے جس کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں خلیج حائل ہوتی چلی گئی۔ اگرچہ ماضی میں پاکستان نے امریکہ کے اتحادی کے طور پر دہشت گردی کی جنگ میں کافی سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ پاکستان کے ۰۰۰۰۷ افراد جن میں عام شہری بھی شامل تھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ طالبان جو پاکستان کو اپنا حواری سمجھتے تھے پاکستان کے خالف صف آرا ہو گئے۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تحریکیں پنپنے لگیں۔ الغرض امریکہ کی امداد سے کہیں زیادہ پاکستان نے امریکہ کے حواری کی حیثیت سے نقصان اٹھایا۔ لیکن پاکستان کی جانب سے کبھی اپنے موقف کی مناسب وضاحت نہیں کی گئی۔پاکستان، خطے میں امریکی مفادات کے سلسلے میں ایک اہم حواری رہا ہے لیکن ماضی قریب میں امریکہ کا واضع جھکاؤ بھارت کی جانب ہو گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے دیگر ممالک سے بھی تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لینا پڑا۔
وزیرِاعظم عمران خان نے جب وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو انھیں جہاں دیگر چیلنجز کا سامنا تھا وہاں سفارتی سطح پر پاکستان کے تنہا ہو جانے کا خدشہ بھی درپیش تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزارت داخلہ کا قلمدان شاہ محمود قریشی کے حوالے کیا جنھوں نے پاکستان کا موقف پوری دنیا کے سامنے بہترین انداز میں پیش کرنے کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ سا ل کی محنت کے بعد پاکستان سفارتی سطح پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوا۔ماضی قریب میں پاکستانی وزیر اعظم کا امریکی صدر سے ملاقات کے بعد امریکی رویے میں واضع تبدیلی دیکھنے میں آئی۔اس دورہ میں پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر ِ اعظم عمران خان کی سفارتی کوششو ں کے نتیجے میں امریکہ نے ۵۲۱ ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا جن میں ایف ۶۱ طیاروں کی حوالگی کے معاملہ پر بھی دو طرفہ مذاکرات ہوئے۔ وزیر ِداخلہ شاہ محمود قریشی نے بھی امریکہ کا تین روزہ دورہ کیا۔جس میں انھوں نے کئی اہم ارکان ِ پارلیمنٹ اور وزراء سے ملاقاتیں کی۔ یاد رہے! شاہ محمود قریشی کی یہ ملاقات مشرق ِ وسطی ٰ میں امن کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔وزیر ِ خارجہ نے اس سے پہلے تہران اور ریاض کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں خصوصی کردار اد ا کیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس تمام واقع میں چین کی پاکستانی موقف کی حمایت نے امریکہ کواپنی پالیسی پر از سرِ نو جائزہ لینے پر مجبور کیا
وزیر اعظم کی ۶۲ ستمبر ۹۱۰۲ ء میں عالمی فورم پر کشمیر کے بارے میں بات کرنے کے بعد عالمیسطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہوا اور اس مسئلے کے بارے میں بات کا آغاز ہو ا۔ صرف یہی نہیں حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کی عالمی اقتصادی فورم پر تقریر نے دنیا کو پاکستان کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔۔ وزیر ِ اعظم عمران خان نے عالمی اقتصادی فورم میں بھی امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تجارت اور برابری کی سطح پر دو طرفہ معاملات پر بات کی گئی۔
پاکستانی کی مسلسل سفارتی کوششوں کی کامیابی ہے کہ امریکی صدر نے ایک بار پھر سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی کی دعوت دی ہے۔ پاکستان کی جانب سے خطے کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء میں پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کی گذارش کی گئی۔ماضی قریب میں بھی پاکستان نے اپنی کوششوں سے امریکہ اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی خطے اور مشرق ِ وسطیٰ میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔پاکستان کے واضع موقف نے امریکی موقف کو بھی تبدیل کرکے مثبت رخ عطاء کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بھی نکالنے کے فیصلے نے بھی ملک کا عالمی سطح پر مثبت عکس ظاہر ہو ا۔

About admin786

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Follow by Email
Facebook
Twitter
Pinterest
WpCoderX