سنو لوگو !
میں بھی بچہ ہوں
بھوک سے بےکل’ پیاس سے بلکتا
کھو گئی ہے ماں میری
باپ جنگ کے ملبے میں دفن
پتھروں کا ملا اسے کفن
میں ہھنوز زندہ ـ ـ ـ ـ
درد دیتا ہے میرے جینے کی گواہی
جب زخم سے خون رستاہے
اندھیرا مجھے گِھستا ہے
سنو لوگو !
میں بھی بچہ ہوں
مقدس وطن شام کا باسی
بنگلہ دیش کی سر حدوں پر کھڑا ہوں
کشمیر میں بہن کا جنازہ پڑھ رہا ہوں
قصور سے میں بھی کھو گیا تھا
سنو لوگو !
میں بھی بچہ ہوں
میں بھی تتلی سنگ اڑنا چاہتا ہوں
مجھے بھی کنچے کھیلنا اچھا لگتا ہے
یہ بیٹ, یہ بال ,میرے ہاتھ میں تھما دو
نہیں ,مجھے کہیں سے روٹی لا دو
نہیں ,میری ماں کوڈھونڈ کے لا دو
کوئی پانی کا اک گھونٹ ہی پلا دو
نہیں مجھے میری بہن سے ملوا دو
کوئی ,کمبل , کوئی بستر کوئی تکیہ لا دو
بھائی بھی نہ جانے کہاں کھو گیا مجھ سے
تم تو عالم ہو ,اسے ہی ڈھونڈ نکالو نا
دیکھو ! یہ زمیں سرخ ہوگئی ہے
میرے وجود کا رنگ کا پھیکا پڑ گیا
مجھے بچانے کوئی ابھی تک کیوں نہیں آیا؟
مجھ سے جدا ہے کیوں میرا ہی سایہ
امن کے نعرے بلند کرنے والو ـــــ
اب کیوں چپ بیٹھے ہو ؟
قلم اٹھاؤ
کوئی افسانہ تراشو
کوئی نظم کہو
عالمو ! کوئی فتوی لگاؤ
موم بتی ہی جلاؤ
آؤ بچاؤ
سنو لوگو !
میں بھی بچہ ہوں
میمونہ صدف ہاشمی
find more for children on
www.savetheangelsandfairies.com
wah!
woh bacpan ki yadain hi rah gai ab to