ہر روزاس ملک کے ہر شہر اور ہر چوک میں فٹ پاتھ پر بیٹھے انسانوں اور ان کے ہنر کی منڈیاں لگتی ہیں ، آئیے۔۔۔ اپنی مرضی کی جنس اپنی مرضی کے دام چکا کر لے جائیے ۔ یہاں کوئی گاہک کے انتظار میں رنگوں کیخالی ڈبوں پر برش سجائے بیٹھا ہے تو کوئی کدال ہاتھ میں پکڑے کسی ان دیکھے خریدار کا انتظار کر رہا ہے ۔ حالت سب کی ایک جیسی ہے، بجھتے چراغ آنکھوں میں لیے ، ایک کچا گھر ، ایک بڑا خاندان اور وہ واحد کفیل ۔ یہاں پر بیٹھا ہوا ہر زی روح ہر روز ایک نئے جذبے ، نئی امیدکے ساتھ یہاں آ بیٹھتاہے اس کے ہنر کو خریداجائے گا ۔کوئی گاہک آئے گا اور اسے ایک دن کے لئے اپنے ساتھ مزدوری کے لیے لے جائے گا ۔اگر کام ملے گا تو گھر میں کھانا پکے گا اوراس کے بچے سکون سے سو سکیں گے ۔ صدیوں سے یہ منڈیاں اسی طرح سے سجتی آئی ہیں ۔ قرون اولیٰ میں یہ منڈیاں غلاموں کی خرید وفروخت کے لیے سجتی تھی اور آج یہ انسان کے ہنر کی خرید و فروخت کے لیے سجتی ہیں ۔منڈیاں بل چکی ہیں ، خریدار نئے ہیں ، بکنے والوں کے انداز نئے ہیں لیکن نہ توخریدار وں کا رویہ بدلا ہے اور نہ ہی بکنے والوں کا۔ خریدار دام ارزاں لگانا چاہتا ہے 

اور بکنے والا اس ارزانی میں بکے جانے پر مجبور۔

ان سڑکوں اور چوراہوں میں بیٹھے لوگوں میں سے کئی مزدور اپنی عمر کی آدھی ریگزاری گنوا چکے ہیں ۔ انھی مزدوروں کی قطار میں ایک ساٹھ سال کا بوڑھا شخص بھی بیٹھا ہے ۔پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، ویران آنکھیں لیے بیٹھا یہ بوڑھا جس کے ہاتھوں کی سختی ، چہرے پر پڑی جھریاں اس بات کی غماز ہیں کہجوانی میں اس کا ہنر بہت بار بکا اورہر بار اس کی چوکھی قیمت لگی ۔اس منڈی میں پنتالیس برس سے اس کا ہنر بکتا چلا آیا تھا ۔وہ پندرہ برس کی عمر میں پہلی بار جب اس منڈی میں آیا تھا توکڑیل جوان تھا ۔ اس وقت اس کے ہنر کے خریدار بھی بہت تھے لیکن ا ب وہ اور اس کا ہنراس بازار میں بے مول ہو گیا تھا۔کیونکہ اب وہ جوان لوگوں کی طرح کام نہیں کر سکتا۔اس کے ہنر کو وقت کا زنگ لگ چکا تھا ۔اپنی ہمت کی آخری حد تک اس نے محنت مزدوری کی تھی ۔ لیکن اب اس میں کام کرنے کی وہ صلاحیت نہیں رہی تھی ۔ا ب اس کے اعضاء کمزور اور جسم نحیف ہو چکا تھا ۔زیادہ محنت طلب کام کرنے سے اس کا سانس پھولنے لگتا تھا ۔ وہ پورا دن کام کی امید لیئے سر جھکائے اس فٹ پاتھ پر بیٹھا رہتا ہے، کہ کب کوئی رحم دل شخص اسے کام دے تو روٹی کا انتظام ہو جائے اور اگر کام نہ ملے تو فاقہ ۔لیکن اس منڈی میں گاہک کوان نوجوان ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بروقت کام مکمل کر سکیں۔اس منڈی میں ایسے شخص کے لیے جو کہ بہت زیادہ محنت نہ کر سکے کوئی خریدار ں نہیں 

وہ روزانہ دیکھتا ہے کہ اس منڈی میں گاہک آتے ہیں ، ہنر کی بولی لگتی ہے ۔نوجوان ہاتھوں کو چنا جاتا ہے ۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ ان بوڑھی آنکھوں میں ٹوٹتے خوابوں کی کرچیاں دیکھ سکیں اواس کی کم مائیگی کو جانچ سکے ۔ اس نے ساری زندگی محنت مزدوری کی تھی ۔مشکل سے مشکل وقت میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا ۔لیکن اب نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ بھیک مانگنا اس کی مجبوری بنتی جا رہی تھی لیکناس کی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ بھیک مانگ کر اپنے خاندان کا پیٹ بھرے ۔ عجیب کمپسری کی حالت تھی ۔۔۔ وہ کرے تو کرے کیا۔۔۔؟

اپنی آنکھوں میں امیدوں کے بھجتے چراغ لیے وہ آج بھی مغرب کے بعد اپنے گھر کی طرف شکست خوردہ قدموں کے ساتھ سر جھکائے رواں دواں تھا ،اور اس سوچ میں غلطاں تھاکہ ابھی چند ہی دن گزرے ہوں گے اسی منڈی میں فٹ پاتھ پر اس کا بیٹا ہاتھ میں کدال لیے بیٹھا کسی خود کش دھماکے میں چیتھڑے ہو چکا تھا۔ اس کے بیٹے کو نہ تو کسی سے کوئی دشمنی تھی نہ ہی دوستی ۔وہ تو بس محنت مزدوری کی تلاش میں کچھ عرصہ پہلے اس قطار کا حصہ تھا جب کئی نامعلوم حملہ آور نے چوک سمیت پوری قطار ہی کو دھماکے سے اڑا دیا تھا لوگ کہتے تھے کہ اس کے بیٹے کو مرے ہوئے ڈیڑھ برس گزر چکا ہے لیکن اسے تویہ کل کی بات لگتی ہے جب اس کے ننھے منھے پوتے پوتیاں اس سے پوچھ رہے تھے ۔

“دادا ابو ۔۔یہ ابا! سفید کپڑے پہن کر اﷲمیاں کے پاس سے روٹی لینے جا رہا ہے تو واپس کب آئے گا ۔۔۔” اور وہ انھیں اپنے ساتھ لپٹائے کنگ زبان جیسے پتھر کاہو چکا تھا ۔

وہ انھیں کیسے بتاتا کہ ان کا ابا اب کبھی واپس نہیں آئے گا ۔ روٹی تو دور کی بات وہ اپنے باپ کی آواز کبھی نہیں سن پائیں گے ا ور اس کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے ۔ اس کی جواں سال بہو اس کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی تھی کبھی ٹکڑوں میں بٹے اپنے شوہر کو۔ جس نے اسے کبھی بہت کچھ تو نہیں دیا تھا لیکن وہ اس کے سر کا سائیں تھا ۔ اب اسے لگ رہا تھا کہ اس کے سر کی چھت غائب ہو گئی ہے ۔اس بوڑھے کی نظروں کے سامنے یہ سارا منظر نہ جانے دن میں کتنی بار گھومتا تھا ۔ یہ کل ہی کی تو بات تھی ۔کیسا دل خراش دن تھا اور کتنی جلدی گزر گیا تھا ۔ و ہ اپنے ہاتھوں سے اپنے ٹکڑے ٹکڑے بیٹے کو منوں مٹی تلے چھوڑ آیا تھا ۔وہ کس کس کو تسلی دیتا ، اپنے ننھے پوتوں ، پوتیوں کو ، اپنی جواں سال بہو کو یا خود کو۔اس بڑھاپے میں اپنے بیٹے کی ایسی موت نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔ لیکن ابھی بہت سے امتحان باقی تھے اسے اپنے خاندان کا سہارا بننا تھا ۔ پھر سے ا ن کی روزی روٹی کی ذمہ داری اٹھانا تھی ۔جب اس نے پھر سے رنگوں کے ڈبوں اور برش کو اٹھایا اور پھر سے اس منڈی کا رخ کیا تو اس کے قدم تک اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔لیکن اسے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کی خاطر محنت تو کرنا تھی ۔طویل عرصے کے بعدجب وہ اس منڈی میں آیا تو ایک امید کے ساتھ کہ پرانے گاہگ اس کے ہنر کو خریدیں گے اس کے ہنر کے مداح تو ایک زمانے تک بہت رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا پرانے مداح اس سے سلام دعا تو کرتے لیکن جب وہ کام دینے کے بارے میں بات کرتا تو بہت میٹھے لہجے میں معذرت کر لی جاتی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھوہ اس سلوک کا عادی ہوتا جا رہا تھا ۔لیکن اس کے باوجود ہر صبح وہ اس امید پر یہاں آن بیٹھتا تھا کہ آج روٹی کا انتظام ہو جائے گا۔ 

وہ یہی سب سوچتے ہوئے سڑک کے قریبادرمیان چل رہا تھا کہ کالے رنگ کی ایک لمبی گاڑی کا چنگھاڑتاہو ا ہارن اسے حال کی دنیا میں واپس لے آیا اوراب اسے گھر کارستہ جلد طے کرنا تھا۔ وہ شرمندہ شرمندہ سا تیز قدموں سے گھر کا راستہ پاٹنے کی کوشش کرنے لگا ۔ 

سڑک کے اس پار ایک کچی بستی کی تنگ و تاریک گلی میں واقع اپنے گھر کا پردا سرکا کر سر جھکائے کندھے لٹکائے جو اندر داخل ہوا تو لپک جھپک اس کی بہو نے ہنڈیا میں پانی ڈال کر چولھے پر رکھ دیا ۔وہ بھی ان حالت کی عادی تھی لیکن بچوں کو بہلا کر سلانا بھی لازم تھا ۔

آج پھرپانی دیر تک پکے گا اتنی دیر تک کہ بچے کھانا پکنے کے انتظار میں سو جائیں 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *