نظم

میری نظم ابھی ادھوری ہے
کسی کاغذ پر بکھری سسکیا ں بھرتی ہوئی
یہ اس لمحے کا انتظار کرتی ہوئی نظم
کہ کب اس ہاتھ کی پوریں اسے مکمل کر یں گی
نجانے کب سے ادھوری ہے
مگر تنہائی ہی اس
تو ساتھی ہے
سو یہ اب تک ادھوری اور نا مکمل ہے
لفظوں کے گورکھ دھندے میں
زہر خندہ تیروں کو سہتی ہے
میری نظم ابھی ادھوری ہے

میمونہ صدف



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *