ازطرف: میمونہ صدف
مقبوضہ جموں و کشمیر میں تین ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو نافذ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ۹ لاکھ سے زائد بھارتی افواج کی جانب سے کیئے جانے والے ظلم و ستم کی شدت اور نوعیت سے تمام عالم واقف ہے ۔لیکن کرفیو اور مکمل لاک ڈاؤن کے دوران بھارتی افواج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کس حد کو چھو رہے ہیں یہ دنیا کی نظر سے اوجھل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی اداروں کو وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی یہاں تک کہ مقامی صحافیوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کو منقطؑع کر کے مقبوضہ کشمیر کو دیگر دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔
موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادی کو برف کی دبیز چادر نے ڈھانپ لیا ہے۔ یہاں پر بسنے والوں کی زندگی مزید مشکلات سے گھر گئی ہے۔ وادی میں جاری کرفیو نے اس موسم سرما کو کشمیری عوام کے لیے ایک موت کا شکنجہ ثابت کیا ہے۔اگرچہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن ہے تاہم کچھ ذرائع سے حاصل ہونے والی رپورٹس کسی کا بھی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں لیکن زمینی حقائق ان اکا دکا رپورٹس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔حالیہ کرفیو کے دوران کم و بیش ۰۰۰۳ ہزار نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔ اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔بھوک اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے جابحق ہونے والوں کی تعداد سے کوئی واقف نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی راہنماؤں کو نظر بند کر کے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کرفیو کے دوران تین سو سے زائد خواتین کو اغوا ء کرکے بھارتی فوجی کیمپوں میں بھیجا گیا ہے۔ ان خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ یہ خواتین کس حال میں ہیں زندہ ہیں یا نہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان خواتین کو بھارت منتقل کر دیا جاتا ہے۔ بھارتی افواج کی سوچ کا اندازہ بھارت کے سابق افسپاء کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیر میں جاری ان جرائم میں ملوث بھارتی فوجیوں کو بھارت کی کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی۔نہ ہی کسی عدالت میں ان فوجیوں کے خلاف کوئی مقدم درج ہو سکتا ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو حریت پسندوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت کے ایک سابق میجر جنرل ایس پی سینا نے اپنے ایک بیان میں کشمیری خواتین کی عصمت دری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے بھارتی افواج کے اس اقدام کو جائز قرار دیا۔
دوسری جانب وادی میں علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے اشیائے خردونوش اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے وفات پاجانے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ کرفیومیں ۱۶۱۵ افراد گرفتار کیے گئے جن میں ۹۰۶ کو نظر بند کیا گیا ہے جبکہ ۱۸۲ افراد کو پتھراؤ میں ملوث قرار دے کر ان کے خلاف مقدمے بنائے گئے۔ساؤتھ ایشین وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ نہ ہونے کے باعث ۸ ہزار طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا احتمال ہے۔جبکہ حریت سیاسی راہنماؤں کی نظربندی کے دوران کشمیر میں ہونے والے نام نہاد الیکشن کو بھی بے بنیاد قراد دیا۔
بھارتی حکومتی اداروں اور افراد کی سوچ کا اندازہ ہندو انتہا پسند راہنما مادھورام کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ دو سے تین لاکھ ہندوؤں کو وادی میں لا کر بسایا جائے گا۔ان گنت ایسی کہانیاں ہیں جن کے دکھ درد ان کے ساتھ ہی دفن ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر وہ واحد علاقہ ہے جہاں ایک جنازہ زمین میں اتارنے کے لیے کئی جنازے اٹھائے جاتے ہیں۔اگرچہ وادی میں کرفیو نافذ ہے پھر بھی شہدا کے جنازوں میں لوگوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ اور دفعہ ۰۷۳ کا خاتمہ کشمیر کی تعمیر و ترقی کی غرض سے کیا گیا ہے۔ دنیا میں اس قسم کی تعمیر و ترقی کی نہ تو کوئی مثال ہے اور نہ ہی ایک علاقہ کے مکینوں کو ظلم و ستم کی چکی میں پیس کر اس علاقہ میں تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ ہاں یہ بیان دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اگرچہ مسئلہ کشمیر عرصہ بہتر سال سے اقوام متحدہ کے ایوانوں میں گونج رہا ہے لیکن یہ گونج محض ایک بازگزشت سے زیادہ اثر پزید نہ ہو سکی۔ آج سے بہتر برس پہلے خود بھارت نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا اور پہلی بار مقبوضہ کشمیر کے بارے میں قرار داد پیش ہوئی۔اس تمام عرصہ میں پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود، بھارت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اقوامِِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے کو اجاگر کیا اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کی جانب دنیا کی توجہ مبزول کروائی۔ جبکہ اس مسئلہ کو اقوام ِ متحدہ میں لے جانے والے بھارت نے اس مسئلہ کو اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے پاکستان پر کڑی تنقید کی
واضع رہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کیچیٹر ۷ کے مطابق کوئی بھی ملک اگر کسی علاقے میں مظالم کی انتہا کردے تو تمام ممالک اسکے ساتھ معاشرتی طور پر قطع تعلق کر سکتے ہیں اور انتہائی صورتوں میں اقوام ِ متحدہ متاثرہ علاقہ میں اپنی فوجیں بھیج کر کاروائی کر سکتی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں عرصہ ۲۷ سال سے بھارت کے ظلم و ستم جاری ہیں۔ حالیہ کرفیو ۳ ماہ سے تجاوز کر چکا ہے تاہم وہ کوئی بھی ملک ہو چاہے اسلامی ملک ہو کسی نے بھارت کے ساتھ معاشرتی مقاطع نہیں کیا۔نہ ہی اقوام ِ متحدہ کی جانب سے سوائے قراردادیں پاس کرنے کی کسی قسم کی کاروائی کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے۔اگرچہ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کی گئی سفارتی کوششوں کی وجہ سے مغربی ممالک کی جانب سے بھی کشمیر کے حق میں آوازیں بلند ہونے کا آغاز ہوا ہے تاہم ابھی تک کرفیو میں نہ تو نرمی کی گئی ہے اور نہ ہی اسے ہٹانے کی کوئی تاریخ دی گئی ہے۔