کسی بھی مملکت میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں موجود تمام سیاسی اور پارلیمانی اکائیوں کو مجتمع کر کے نظام ِ مملکت چلایا جائے ۔ حتیٰ الامکان کوشش کی جائے کہ اداروں اور ملک میں بسنے والے مختلف مذاہب یا فقہ کے مابین ہم آہنگی قائم رہے اور کسی قسم کا تصادم نہ ہو۔اگرچہ ملک میں امن قائم کرنے کے لیے یہ پالیسی احسن ہے لیکن یہ پالیسی تب تک کام آیا کرتی ہے جب تک کہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات خالصتا ان کے اپنے ہوں۔ اگر کوئی ملک دشمن عناصر یا پھر کسی دشمن ملک کی ایماء پر کوئی تنظیم بنا کر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما کر اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال پر اکسائے، ارض ِ وطن اپنے ہی لوگوں کے خون سے رنگی جا رہی ہو تو انصاف اور مجرم کو قرار واقعی ہی سزا دینا ازحد ضروری ہو جایا کرتا ہے۔
بلوچستان اور خیبر بختونخواہ عرصہ دراز سے دشمن کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے خانہ جنگی کی سی حالت میں ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ان علاقوں میں موجود بنیادی انسانی سہولیات کی کمی، ترقیاتی منصوبہ جات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں بلوچستان اور خبیرپختونخواہ کے لوگ دیگر علاقہ کے لوگوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوئے۔ اس علاقہ میں منتخب شدہ راہنماؤں نے بھی کوئی خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں کیا۔جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غم و غصے کا ملک دشمن عناصر استعمال کرتے ہوئے ان نوجوانوں کو عسکری تنظیموں کے مضموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس خانہ جنگی کی دوسری بڑی وجہ بھارت اور دیگر قوتوں کا پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے اور پاکستان کو اندرونی طور پر اس حد تک کمزور کر دینے کا خواب کہ پاکستان عملی طور پر بھارت کا دستِ نگر ہو جائے بھی شامل ہے۔بھارت اس خواب کو پورا کرنے کے لیے بے دریغ پیسہ، وسائل اور اپنے خفیہ ادارواں کی مدد سے بلوچ نوجوانوں کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا ثبوت، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا بیان ہے جس میں اس نے تسلیم کیا کہ اسے پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے لیے خصوصا بھیجا گیا۔ خود بھارتی وزراء افواج کے سربراہان اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، جدید ترین جنگی ہتھیاروں اور ایٹم بم کی صلاحیت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ بھارت باقاعدہ جنگ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے بھارت کو یہ جنگ پاکستان کے اندر ہی لڑنا ہو گی۔ اس جنگ کے لیے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی زمین کو چنا گیا۔ بھارتی وزرا ء اور دیگر افراد کے یہ بیایات ان ریکارڈ محفوظ ہیں۔
بھارت پاکستان بھر میں عمومی اور سرحدی صوبہ میں خصوصا وزیر ستان میں دہشت گردی کے عزائم رکھتا ہے اور ان مضموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے پی ٹی ایم پشتون تحفظ مومنت، بے ایل اے بلوچستان لبرل آرمی وغیرہ جیسی تنظیموں کو سرمایہ، وسائل، اسلحہ کی فراہمی میں پیش پیش ہے۔ پشتون تحفظ مومنٹ جو بظاہر پشتون علاقوں جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی دیکھائی دیتی ہے ۔لیکن درپردہ اس تنظیم کو بھارت کی آشیر باد حاصل ہے۔پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہان، اکثر و بیشتر ببانگ ِ دہل بھارت سے عسکری مدد مانگتے ہیں۔ یہ وڈیوز آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ عسکری تنظیمیں پاکستان میں انارکی پھیلانے اور نوجوانوں کو اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی پر اکسانے کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔
ماضی قریب 26 مئی 2019 ء میں خڑ کمر کے مقام پر پشتون تحفظ مومنٹ اور افواج پاکستان کے مابین تصادم کا ایک واقعہ پیش آتا تھا۔شرپسندوں نے خڑ کمر چیک پوسٹ پر حملہ کر دیاجس کے نتیجے میں تیرہ افراد جان بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوئے۔ پارلیمنٹیرین محسن داوڑ اور علی وزیر نے افواج پاکستان کے خلاف بیان دیا کہ یہ واقع ایک پر امن جلسہ پر فائرنگ کی وجہ سے پیش آیا۔ درحقیقت یہ شرپسند عناصر کی جانب سے چیک پوسٹ پر حملہ اور افواج ِ پاکستان کی جانب سے جوابی کاروائی ان اموات کی وجہ بنی ۔کاونٹر ٹرارزم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کی جانب سے پشتون تحفظ مومنٹ کے راہنماؤں پران تیرہ افراد کے قتل کا کیس دائر کیا گیاتھا۔ جوکہ بنوں کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔حال ہی میں حکومت ِ خیبر بختونخواہ نے پشتون تحفظ مومنٹ کے راہنماؤں کے خلا ف دائر کیس کو واپس لینے کے لیے عدالت میں رجوع کیا ہے۔اس کیس کی حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ صورت حال میں اعتماد سازی کی بحالی اور مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ مقدمہ واپس لیا جاتا ہے تو اس کا ایک تاثر یہ ہونا ہے کہ حکومت ان ملک دشمن عناصر کے سامنے کمزور پڑ رہی ہے اور جب جو چاہے وہ حکومت کو گھنٹوں پر لا سکتا ہے۔دوسرا بڑا تاثر یہ جائے گا کہ بھارت اپنے مضموم ارادوں میں کامیابی کی جانب گامزن ہے۔
یہاں یہ بات قابل ِ ٖغورہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مفاہمت کی مسلسل کوششیں جاری ہیں لیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ پہلے پشتون تحفظ مومنٹ کے جلسوں کو ہونے سے نہیں روکا گیا۔پاکستان کی پارلیمنٹ تک ان کو رسائی دی گئی تاکہ ان کے جائز مطالبات پارلیمنٹ میں پیش کیے جا سکیں اور ان کا حل تلاشا جا سکے لیکن پی ٹی ایم کے سربراہان اپنے عوام کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ لوگ پاکستانی افواج اور مملکت ِ پاکستان کے خلاف بیانات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔گویا وہ پلیٹ فارم جس کو بلوچ عوام کی بہتری کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا ان لوگوں کی بدنیتی کی وجہ سے پاکستان دشمنی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
آج کے اس پر آشوب دور میں جب ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے حکومت کو چاہیے کہ ایک ٹھوس پالیسی بنائے۔ جس میں مجرم کے بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ ہو۔کیونکہ انصاف کی فراہمی اور مجرم کو سزا ہی پاکستان میں دیر پا امن کی ضمانت ہے۔ اگر حکومت، عدالت اور ادارے اسی طرح مجرموں کو ڈھیل دیتی رہی تو بلوچستا ن اور خیبر بختونخوان کی زمین ہمارے اپنے ہی خون سے رنگی جاتی رہے گی۔