از طرف:میمونہ صدف
اواخر ۹۱۰۲ء اور اوائل ۰۲۰۲ ء میں پھوٹنے والی کرونا وباء نے چین کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چین کے بعد اٹلی اور امریکہ میں لاک ڈاؤن کیا گیا۔ پاکستان میں کرونا کا پہلا کیس فروری میں رپورٹ ہو ا۔ پھر یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے والے کرونا کیسز کی تعداد ۸۹۳۶۷ ہوگئی جن میں سے ۰۱۱۷۲ افراد صحت یاب ہوئے جبکہ ۱۲۶۱خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اس وباء کے معاملہ میں جہاں وفاقی حکومت گومگو کا شکار نظر آئی وہیں وفاق اور صوبوں کے درمیان حائل خلیج بھی واضع طور پر دکھائی دی۔لا ک ڈاؤن کا معاملہ ہویا کوئی اور فیصلہ ہو وفاق اور صوبوں کے بیانیہ میں واضع فرق دکھائی دیا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وفاق اور سندھ کے درمیان گرما گرمی کی سی کیفیت رہی۔ وباء جیسے عالمی اور قومی مسئلہ پر بھی عملی اقدامات سے زیادہ، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی گئی۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ سیاسی وابسطیگیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس قومی مسئلہ پر وفاق اور صوبوں کی ایک مشترکہ کانفرنس بلائی جاتی اورایک مشترکہ فیصلہ کیا جاتا جس پر صوبائی اور وفاقی حکومت اپنے اپنے دائرہ کار میں عمل درآمد کرواتی۔ عوام ان فیصلوں کے تضاد کی وجہ سے گومگو کی کیفیت کا شکار رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کرونا سے متعلق فیصلوں میں تضاد کی وجہ سے اس وبا ء کوعوامی سطح پر سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ دوماہ کے لاک ڈاؤن سے جہاں کاروبار زندگی پر برے اثرات مرتب ہوئے وہاں جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو عوام نے حکومتی ایس او پیز کی دھیجیاں اڑا دیں اور احتیاط کو بالائے طاق رکھ کے روزمرہ کے معاملات کا آغاز کر دیا گیا۔


بیانیہ کا یہ فرق یا تضاد صرف ایک کرونا وباء کے معاملے میں نہیں بلکہ دیگر معاملات میں بھی دیکھنے میں آیا۔ خصوصا عید کے چاند کی رویت کے وقت بیانیہ کا فرق اور حکومتی اندرونی خلفشار کھل کر عوام کے سامنے آگیا۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے دن کے وقت ہی ایک پریس کانفرنس کر کے چاند کے نظر آنے کے بارے میں پیشن گوئی کر دی۔ اس طرح عملا روئیت ہلال کمیٹی کی حیثیت کو چیلج کر دیا گیا۔ درحقیقت چاند کی روئیت ایک سائنسی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملہ ہے۔ چاند کی روئیت کا فیصلہ کرنا یا اس کے بارے میں رائے دینا وزارت مذہبی امور کے دائرہ کار میں ہے اور ہلال کمیٹی ہی اس فیصلہ کی ذمہ دارہے۔وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے کی جانب سے کی جانے والی کانفرنس پر ہر سطح پر تنقید کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں وزارتوں کے درمیان رابطہ قائم کیا جاتا۔ وزارت سائنس کا ایک معتبر ممبر بھی ہلال کمیٹی کا ممبر ہوتا اور وزارت مذہبی امور کی مدد کرتا۔ لیکن ہوا یہ کہ دو وزارتوں کے درمیان کھنچا تانی کی سی فضاء قائم ہو گئی۔ جس کی بنیادی وجہ ان دونوں وزارتوں کے درمیان مناسب رابطہ نہ ہونا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں وزاتوں کے حکامِ بالا اپنی ذاتی حیثیت کی تشہیر میں کوشاں رہے اور ایک مذہبی تہوار کو بھی دوسروں کے لیے مزاح کا ذریعہ بنا دیا۔ عالمی سطح پر بھی یہ واقعات پاکستان کی جگ ہنسائی کی وجہ بنے۔ حکومتی سطح پر اس طرح کے معاملات حکومت کی کارکردگی پر قدغن لگانے کی مزموم کوشش ہے۔ حکومتی ایوانوں کے درمیان ہونے والے اختلافات کے مظہر ہیں۔ ارضِ وطن میں کوئی بھی قومی معاملہ ہو چاہے ڈیم بنانا ہو یا کوئی اور معاملہ، بیانیہ کا اختلاف ان معاملات کو حل ہونے نہیں دیتا۔ سیاسی اور ذاتی مفادات، بحث و مباحثہ میں اصل مسئلہ کہیں دب کر رہ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ کے باوجود منگلہ اور تربیلا ڈیم کے علاوہ کوئی بڑا ڈیم نہیں بن پایا۔ اور نہ ہی دیگر مسائل حل ہو پائے۔
واضع رہے کہ یہ چند بڑے واقعات ہیں اس کے علاوہ ان گنت واقعات ایسے دیکھنے میں آئے جہاں حکومتی بیانیہ میں خود حکومتی اراکین میں اختلاف نہ صرف سامنے آیا بلکہ میڈیا کی شہہ سرخیوں کی زینت بھی بنا۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی یہ واقعات بحث و مباحثہ کی وجہ بنے رہے۔ ہمارے ملک کی ہمیشہ سے بدقسمتی یہ رہی ہے کہ کم و بیش ہر پارٹی نظریات کی بجائے شخصیت پرستی عام رہی ہے۔ سیاسی شعور کے باوجود آج بھی شخصیت پرستی آج بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ ہمارے معاشرے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان بھی اپنی ذاتی تشہیر کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں تاکہ ان کا شخصی تاثر عوام کے دلوں میں قائم رہے۔


یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ملک اس وقت نہایت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں پوری دنیا میں معاشی بدحالی کا آغاز ہوا ہے اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کا پہیہ حالیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے رکا ہے۔جس کی وجہ سے ان گنت لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ملک کو اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ ہے اتحاد و اتفاق جو کہ خود حکومتی صفوں میں بھی نظر نہیں آتا۔ اس تفریق کا سب سے بڑافائدہ ملک دشمن عناصر اٹھاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنی ذاتی تشہراور ذاتی .مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں
ماضی علمائے کرام نے ریاستی دہشت گردی کے متعلق متفقہ فتویٰ دیا جس کا نام پیغام ِ پاکستان رکھا گیا۔ اس فتویٰ پر پاکستان کے تمام مکتبہ ِ فکر کے علماء نے دستخط ثبت کیے۔پیام ِ پاکستان اتفاق اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک عمدہ مثال ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک معاملہ پر تمام مکتبہ ِ فکر متحد ہو سکتے ہیں تو دیگر معاملات پر بھی اتفاقِ رائے قائم کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اتفاق و اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ فیصلے کرتے ہوئے عوامی اور ملکی مفاد میں کام کیا جائے۔ صوبوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں میں وفاق کو شامل کریں جبکہ وفاق کو چاہیے کہ صوبوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ اتفاق و ہم آہنگی ہی وہ واحد حل ہے جو پاکستان کو ان نازک حالات نبردآزما ہونے کے لیے لازمی ہے۔
Published in Nawaiwqt 04-June-2020
https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/islamabad/2020-06-04/page-5/detail-1



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *