سر زمین فلسطین گذشتہ کئی دہائیوں سے خونریز جنگ کا شکار ہے ۔فلسطین میں اسرائیل کی مسلسل بم باری سے ان گنت بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جس میں بچے ، بوڑھے اور خواتین سب شامل ہیں۔ فلسطین کے لوگوں کے پاس اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیئے سامان حرب نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ فلسطین پر دن بد ن اسرائیلی حملوں میں تیزیآ رہی ہے جس کی وجہ سے فسلطین میں بے بہا جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے اور یہاں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد مہاجر کیمپوں کا رخ کررہی ہے ۔ یہ مہاجر کیمپ بھی اسرائیلی فضائی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔اسرائیلی فضائی حملوں کے جواب میں فلسطین کی جانب سے راکٹ حملہ کیا جاتا ہے ۔جو وقتی طور پر جارحیت کو روکتا ہے لیکن بعد ازاں اسرائیل سول آبادی کو نشانہ بناتا ہے ۔اس جنگ میں ہمیشہ سے عسکری برتری کا حامل اسرائیل عالمی سطح پر اپنی ڈپلومیسی کی وجہ سے امریکہ اور دوسرے ممالک کی اشیر باد لینے میں کامیاب رہا ہے جبکہ اسلامی ممالک کی خاموشی فلسطین کو عالمی سطح پر بھی تنہا کئے ہوئے ہے ۔
یہ پہلی بار نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ شروع ہوئی ہے ۔ بلکہ اس پہلے بھی کئی بار یہ دونوں ممالک آپس میں دست و پیکار رہ چکے ہیں ۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک میں مسقل جنگ بندی کیونکر نہیں ہو رہی ؟؟؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے آئیے تاریخ پر ایک نظر دوڑاتے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے میں ایک منصوبہ کے تحت یہودیوں کی آبادکاری کی گئی ۔ جنہوں نے آہستہ آہستہ یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کی اور فسلطین کے علاقے پر قابض ہوتے چلے گئے ۔ فلسطین اور اسرائیل کے مابین غزہ کا متنازعہ علاقہ ابھی تک ایک پٹی کی صورت میں موجود ہے ۔ اس پٹی کی ایک سرحد مصر سے ملتی ہے جبکہ دوسری سرحد بحیر ہ روم سے جا ملتی ہے ۔فلسطین کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس علاقع میں سن ۲۰۰۷ میں حماس کی حکومت رہی ہے ۔1.6 ملین لوگوں (جن میں اکژیت مسلمانوں کی ہے) پر مشتملغزہ کا علاقع دنیا کیگنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے ۔ حماس نے اسرائیل کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اس علاقے کو اسرائیل سے مکمل آزادی دلانے کے لیے برسرپیکار نظر آتی ہے ۔ اس علاقے میں کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں پر سول یا فوجی عمارات، کسی کی جان و مال اسرائیلی جارحیت سے محفوظ ہوں اس کے ساتھ ہی مصر نے اپنی سرحدوں کو مہاجرین کے لیئے بند کر رکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے زخمی ، عورتیں ، بچے ہر صورت اسی علاقے میں محصور رہنے پر مجبور ہیں ۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں زخمی ہونے والے مسلمان ہسپتال ، ڈاکڑ ، اور طبی سہولیات نہ ہونے کے باعثاپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ عالمی سلامتی کے ادارے بھی ان فلسطینی مسلمانوں کی زبوں حالی پر خاموش ہیں ۔عالمی ادارہ برائے صحت بھی ان مظلوم فلسطینیوں کو طبی سہولیات نہیں دے پایا ۔جبکہ کسی اسلامی ملک کی جانب سے فلسطین میں خاطر خواہ طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئی ۔۔


عالمی میڈیا کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ کا آغازدو برس کی جنگ بندی کے خاتمے کی صورت میں فلسطین کی جانب سے داغے گئے ایک راکٹ کے بعد ہوا جوکہ اسرائیل کی شہری آبادی پر گرا جس کی وجہ سے تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کے جواب میں اسرائیل نے فلسطین پر بلا اشتعال بم باری شروع کر دی ۔ اسرائیل کے جوابی حملوں میں فلسطینی علاقے پر گرائے جانے والے بموں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ تباہ ہونے والے گھروں ، اور جان بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک نے فلسطین کو اس جنگ کے آغاز کے لیے مورد الزام ٹہرایا ہے ۔ جبکہ ایک قرارداد کے مطابق اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے ۔کیونکہ اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقے میں سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ اگرچہ غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد اسرائیلی زمینی فوج کو اس علاقے سے نکال دیا گیا ہے تاہم ابھی تک غزہ کے علاقے میں اسرائیل اپنی فضائی برتری برقرار رکھے ہوئے ہے ۔اسرائیلی فضائیہ حالات حاضرکے تقاضوں کے مطابق جدید ساز وسامان سے لیس ہے ۔ جبکہ اسرائیل میں بسنے والے ہرشہری کوعسکری تربیت دی جاتی ہے اور تمام افراد اسرائیلی افواج کا حصہ ہیں ۔ اس کے برعکس فلسطین میں حماس کے پاس گھریلوساخت کے راکٹ ہیں جو اسرئیل کے جدید طرز کے اسلحہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ فلسطین کے پاس اگر کچھ ہے تو صرف جذبہ ۔ معاشی ذرائع نہ ہونے کے باعث فلسطین اپنی افواج کوجدید ساز و سامان سے لیس کرنے سے بھی قاصر ہے ۔
حالیہ گنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے قریبا40,000 سے زائد ٹینک اور فوجی غزہ کی سرحد کے قریب لائے گئے ہیں تاہم اسرائیل ترکی کے دباؤ کی وجہ سے زمینی کاروائی نہیں کر پایا ۔ جبکہ مصرنے دونوں ممالک کے مابین جنگ کو روکنے کے لیئے ایک یاداشت پیش کی جس میں فلسطین کی طرف سے راکٹ فائر کرنے کو روکنے کی درخواست کی گئی ہے اور اسرائیل کو بھی بم باری سے روکا گیا ہے ۔ جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جنگ کیشدت میں کمی واقع ہوئی ،اس عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کی طرف سے حماس کے اعلیٰ افسر کو فضائی حملے میں شہید کر کے سب وتاژ کر دیا گیا۔اور بم باری کا پھر سے آغاز کر دیا ۔اس کے بعد حماس نے بھی اس مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی بربریت کا منہ توڑ جواب دینے کا اعادہ کیا ہے ۔ اس جنگ میں 210 فلسطینی جبکہ اسرائیل میں صرف ایک ہلاکت ہوئی ۔
اسرائیل نے اس بربریت کا مظاہرہ پہلی بار نہیں کیا ، بلکہ اکژو بیشتر اسرائیل یہ انسانیت سوز کاروائیاں کرتا رہتا ہے جس میں ان گنت فلسطینی جان بحق ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیش بہا معاشی نقصانات بھی ہوتے ہیں ۔ اگر اسرائیل کی جانب سے کوئی کاروائی کی جائے تو اسے قابل تنفر فعل قرار دیا جاتا ہے جبکہ اگر فلسطین کی جانب سے کوئی جوابی کا روائی کی جائے تو اسے دہشت گردی اور انسانی بربریت قرار دیا جاتا ہے ۔فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اس حالت زار میں اسلامی ممالک بالکل خاموش ہیں ۔ دنیا کے 80% قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود عرب ممالک نے فلسطین کی کبھی اس طرح سے حمایت نہیں کی۔اگر یہ ممالک مغربی دنیا پر دباؤ ڈالنا چاہیں تو ان ممالک کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے ۔ اور ا س دباؤ کی بدولت فلسطیبن میں امن کا قیام بعید از قیاس نہیں ہے ۔ حالیہ جھڑپوں ہی کو لے لیجیئے سوائے ترکی اور مصرکے کسی عرب ، مسلمان ملک بشمول پاکستان فلسطین کے حق میں کوئی بیان تک نہیں دیا گیا ۔اگرچہ فلسطین میں مسلمانوں کا قبلہ اول موجود ہے اور تمام مسلمانوں کے لیئے یکساں محترم ہے اس کے باوجود تمام مسلم ممالک خاموشی کا لبادہ اوڑھے تماش بین کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے قبلہ اول کی حفاظت کے لیئے متحد ہو جائیں اور تمام اسلامی ممالک بنا کسی شرط کے فلسطین کی اعلیٰ اعلان حمایت کا اعلان کریں ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مضبوط قرار داد پیش کی جائے اور عالمی برادری پر دباؤ ڈال کر فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کی روز بروز ہونے والی بربریت سے نجات دلا کر غزہ کے علاقے کو اسرائیل کے وجود سے پاک کروایا جائے ۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *