۔ارسہ کے لیے محبت کو قربان کرنا آسان نہ تھا لیکن ایک طرف اس کے باپ کی عزت تھی اور عزت کی لاج ہمیشہ محبت سے زیادہ ہوا کر ہے۔ حمزہ بھی باغیرت تھا اس نے ارسہ کو باپ سے بغاوت یا زبردستی تک کا نہ کہا ۔ بس دم سادھ لیا ۔
بلقیس کو بھی حمزہ سے ہمدردی تھی ۔
عاٸشہ اور رابعہ کو پہلے حمزہ پر شدید غصہ تھا بعدمیں انھیں اس پر ترس آنے لگا۔
ارسہ کی آج مہندی کا دن تھا چوہدری عدیم کی حویلی میں رونق تھی ہر ایک خوشی کے گیت گا رہا تھا۔رابعہ اور عاٸشہ دونوں ارسہ کی مہندی میں شامل ہونے گٸیں تھیں ۔
حمزہ گھر میں بستر پر پڑا تھا اس نے بیمار ہونے کا بہانہ بنا لیا تھا ۔ رابعہ نے بھی زیادہ زور نہیں دیا تھا وہ چاہتی تھیں کہ اب حمزہ سنبھل جاۓ۔ لیکن یہ اتنا آسان ہرگز نہ تھا ۔
ارسہ کو مہندی لگاٸی جا رہی تھی ۔اس نے مہندی لگانے والی لڑکی کو کہا کہ مہندی سے اس کے ہاتھوں میں کہیں ایچ لکھ دے اور اس کے ہاتھوں کی تصویر لے لے ۔ اس نے لکھ دیا اورتصویر بھی لے لی ۔
حمزہ !…….میرا جسم تو کسی اور کا ہو گیا ہے لیکن میری روح اب بھی تمھاری ہی ہے۔دیکھو میں نے مہندی سے تمھارا ہی نام لکھا ہے ……..۔ جب مہندی سوکھنے لگی تو ارسہ نے حمزہ کو میسج کیا۔
وٹس ایپ پر ارسہ کے مہندی لگے ہاتھوں کی تصویر اس کے الفاظ کا ثبوت تھا۔ حمزہ نے ایک نظر اس تصویر پر ڈالی ۔ اس کے دل پر گویا ایک بوجھ آن پڑا ۔
ارسہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کو اپنے دل سے میری محبت نکالنا چاہیے تھی دوسری طرف اس کے دل میں ایک خوشی بھی تھی کہ باہرحال وہ محبت پر قاٸم رہی تھی۔
ارسہ۔۔۔اللہ تمھیں تمھارے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش رکھے ۔ “……….حمزہ نے میسج کیا اس کا دل گویا کسی نے مٹھی میں لے رکھا تھا۔
حمزہ !۔۔۔ارسہ نے میسج کیا لیکن حمزہ نے اس کا کوٸی جواب نہ دیا۔ بس آنکھیں موندےلیٹا رہا ۔
رات گٸے رابعہ اورعاٸشہ کو علی گھر چھوڑ گیا تھا ۔ وہ آتے ہی سو گٸیں ۔
اگلے دن سہ پہر ارسہ کی بارات تھی ۔ عاٸشہ نے اس کے لیے خاص تحاٸف کا انتظام کیا تھا۔ حمزہ نے وہ ساری رات انگاروں پر لوٹتے گزاری۔ ارسہ کی بارات آٸی اور وہ اپنے گھر کی ہو گٸی۔ شام کو عاٸشہ حمزہ کے پاس آ بیٹھی ۔ اس کی عادت تھی کہ حمزہ کے بستر کے قریب موڑھا رکھ کر بیٹھا کرتی۔ اس نے حمزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔حمزہ کا جسم تیز بخار میں تپ رہا تھا۔
حمزہ !۔۔۔میرے بھاٸی ۔۔عاٸشہ نے دکھ سے اسے پکارا ۔
باجی !……..آپ کا بھاٸی بہت ڈھیٹ ہے مرا نہیں ۔اپنی محبت دوسرے کے حوالے کر کے بھی اسے کچھ ہوانہیں ۔ …..حمزہ نے کہا اس کے لہجے سے دکھ ٹپک رہا تھا۔
حمزہ !……ایسے نہ کہو ۔۔۔خدا کے لیے ایسا نہ کہو۔ ………عاٸشہ نے اسے پچکارتے ہوۓ کہا۔
باجی !۔۔۔میں اتنا ڈھیٹ کیوں ہوں ؟ میرا دل کیوں نہیں پھٹا مجھے کچھ ہوا کیوں نہیں ؟……… حمزہ کسی ننھے بچے کی مانند سسک اٹھا۔
حمزہ !…..میرے پیارے بھاٸی ۔۔اللہ نہ کرے تمھیں کچھ ہو ۔۔دیکھو وہ تمھارے نصیب کی تھی ہی نہیں۔ “……عاٸشہ نے تسلی دینے کی کوشش کی ۔
نصیب !۔۔۔۔بھاڑ میں جاۓ ایسا نصیب۔ شاید مجھے اس سے سچی محبت تھی ہی نہیں۔ “…….حمزہ نے آنکھیں بند کرتے ہوۓ کہا۔
ایک آنسو اس کی پلکوں کے بند کو توڑ کر بہہ نکلا ۔ عاٸشہ نے بنا کچھ کہے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے پونچھا۔
باجی۔!۔۔جھوٹی محبت تھی نا میری ۔محبوب کو کتنی آسانی سے کسی غیر کے حوالے کر دیا میں نے…. ۔حمزہ نے رندھے ہوۓ لہجے میں کہا۔ آسانی سے نہیں!………….۔بہت صبر سے محبوب کی عزت بچاٸی تم نے حمزہ ……..تم نے محبت کا حق ادا کیا ارسہ کو بدنام نہیں ہونے دیا ۔ عاٸشہ کے الفاظ گویا ٹھنڈی پھوار بن کر حمزہ پر برسنے لگے۔
حمزہ کو شاید اس لمحے انھی الفاظ کی ضرورت تھی ۔
باجی !۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر عاٸشہ کی طرف دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں پھیلی سرخی شدت ضبط کا عندیہ دے رہی تھی۔
ہاں حمزہ ۔!۔میں ٹھیک کہہ رہی ہوں اگر تم کوٸی بھی ایسا ویسا قدم اٹھاتے تو ارسہ بدنام ہو جاتی ۔اس کی عزت پر آنچ آ جاتی۔ عاٸشہ نے کہا حمزہ نے سر ہلایا ۔
عاٸشہ کچھ سوچ کر وہاں سے اٹھی ماں کی نیند کی گولی لی دودھ گرم کیا ۔ گرم دودھ سے بھرا گلاس اور گولی لے کر حمزہ کے پاس چلی آٸی لو حمزہ !………یہ گولی کھاٶ ……..حمزہ نے کسی معصوم بچے کی طرح تابعداری سے گولی حلق سے اتاری۔۔
اب تم لیٹ جاٶ ۔۔کوشش کرو کہ سو جاٶ میں پردے برابر کر رہی ہوں اور لاٸٹ بھی آف کر رہی ۔ عاٸشہ نے کہا ۔
باجی! ۔۔۔آپ بھی مجھے اکیلا چھوڑ دیں گی ؟ ……حمزہ نے سوال کیا۔
نہیں حمزہ !۔۔۔میں چاہتی تھی کہ تم آرام کر لو ۔۔لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں یہیں بیٹھتی ہوں…………عاٸشہ نے کہا۔
حمزہ تھوڑی دیر میں سکون آور دوا کے زیر اثر گہری نیندمیں جا سویا۔ عاٸشہ ہولے سے اٹھی اور کمرے سے نکل گٸی۔
عاٸشہ کو حمزہ کی حالت اور ارسہ کے ہاتھوں پر مہندی کا انتہاٸی مدہم رنگ دیکھ کر دکھ نے آن گھیرا تھا ۔
کیا تھا جو یہ دونوں مجھے مطلع کر دیتے ۔ یا کم ازکم حمزہ ہی بتا دیتا۔میں خود چاچا سے بات کرتی۔ کچھ بھی کرتی ۔ عاٸشہ نے سوچا ۔
وہ پوری رات جاگتی رہی ۔ وہ دونوں ہی اسے عزیز تھے ۔ حمزہ تو گھر کی جان تھا ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا اور آج اس کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ ۔۔۔۔
ارسہ دلہن بنی چوہدری صدیق کا انتظار کر رہی تھی ۔ رات کا ایک بجنے کو تھا چوہدری صدیق کا کوٸی اتہ پتہ نہ تھا ۔ وہ انتظارکرتے کرتے نہ جانے کب سو گٸی ۔ چوہدری صدیق شراب کے نشے میں دھت کمرے میں آیا تو بھاری بھرکم لہنگے میں ارسہ کو سوتے پایا ۔ کچھ لمحے تو اسے لگے ہواس میں آتے ہوۓ۔
اے لڑکی! ۔۔اس نے آواز دی۔
ارسہ گڑبڑا کر جاگی ۔ بھاری کامدار دوپٹے کے نگ اس کے گالوں پر اپنا نشان ثبت کر چکے تھے ۔ کم از کم لباس تو بدل لیتی سونے سے پہلے ۔ چوہدری صدیق کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ اپنے کسی کامے سے بات کر رہا ہو ۔ ارسہ جسے اپنے حسن پر ناز تھا اور جس کے حسن کو ہمیشہ سراہا گیا تھا نے حیرانی سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا۔
دیکھو ارسہ! ۔ میں کسی اور سے محبت کرتا تھا اور کرتا ہوں ۔ جلد یا بدیر میں اس سے شادی کر لوں گا ۔ تمھیں میرے ساتھ میرے مطابق رہنا پڑے گا ۔ مجھ سے زیادہ امیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں ۔”…….چوہدری صدیق کے الفاظ گویا پگلے ہوۓ سیسہ کا کام کر رہے تھے ۔
اگر ایسا تھا تو آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی ؟۔ ارسہ نے دکھ سے پوچھا ۔
ایک لمحے کے لیے وہ بھول ہی گٸی کہ وہ پہلی رات کی دلہن ہے ۔
اپنے ابا کا حکم ماننے کے لیے۔ “……….چوہدری صدیق نےکہا ۔
تم جاٶ !…..کپڑے بدلو اور ہاں بیڈ کے اوپر والے دراز میں تمھاری منہ دکھاٸی کی انگوٹھی رکھی ہے وہ پہن لینا ۔ صبح لوگوں کو دکھانے کے لیے………. چوہدری صدیق نے حکم دیا ۔
ارسہ نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔
اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جاٶ ۔۔۔چوہدری صدیق نے غصے سے کہا ۔
ارسہ مرے ہوۓ قدموں بھاری جسم اور روح کے ساتھ اٹھی اور کامدار لہنگا اٹھا کر شیشے کے سامنے آن کھڑی ہوٸی۔ زیورات اتارتے ہوۓ اس کے کانوں میں دوستوں کے جملے گونجنے لگے ۔ جو اس کے حسن کو انگارہ اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
حمزہ!…. میں نے تمھارا دل دکھایا ہے مجھے اسی کی سزا ملی ہے ۔ مجھے تمھاری بددعا لگی ۔ لیکن کیا تم نے مجھے بددعا دی ہو گی ؟ ارسہ نے سوچا۔
جب وہ کپڑے بدل کر آٸی تو چوہدری صدیق سو چکا تھا ۔ اس نے ایک نظر اس شخص پر ڈالی اور اپنے نصیب پر نوحہ کناں بیڈ کے دوسرے کنارے پر لیٹ گٸی ۔ نہ جانے نیند کی دیوی اس پر کب مہربان ہوٸی اور اس کی آنکھ لگ گٸی ۔ صبح وہ اٹھی تو چوہدری صدیق نہ جانے کب کا کمرے سے جا چکا تھا ۔
بھابھی!…. آپ جاگ گٸیں ۔ جلدی کریں ۔۔یہ جوڑا پہن لیں آپ کے گھروالے ناشتہ لاتے ہی ہوں گے ۔ “…ارسہ کی نند ایک خوبصورت کامدار جوڑا لیے کھڑی تھی ۔ پنجاب کی روایت ہے کہ دلہن کا پہلے دن کا سسرال میں ناشتہ اس کے میکے سے آیا کرتا ہے ۔
ارسہ نے کامدار جوڑا پہنا اور ہلکا سا میک اپ کر لیا۔ وہ آج بھی بے تحاشا خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ اس کے گھر سے بھاٸی اماں اور خالہ آٸیں تھیں ناشتہ لے کر ۔ وہ سب سے باری باری ملی۔ اس کی آنکھوں میں گزری رات کا دکھ تھا لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
وہ ارسہ جس نے کبھی صبر نہ کیا تھا اب صبر کی چٹان بنی تھیارسہ کی شادی کا ہنگامہ ختم ہوا .حمزہ کا دوبٸی کے لیے ویزہ بھی لگ گیا۔ علی اس سے ملاقات کے لیے اس کے دفتر چلا آیا۔
حمزہ کیسے ہو ؟ ……….علی دروازے سے داخل ہوا تو حمزہ اٹھ کھڑا ہوا ۔
دونوں نے ایک دوسرے کو گلے سے لگایا۔
میں ٹھیک ہو ۔۔تم سناٶ۔”………… حمزہ نے خوش دلی سے پوچھا ۔
اس کو علی سے کوٸی گلہ تھا ہی نہیں ۔ دوسرا وہ اتنا اعلی ظرف تھا کہ اپنی محبت کے کھو جانے کا الزام کسی کے سر نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ یار!۔۔۔اتنے دن ہو گٸے تم ڈیرے پر نہیں آۓ ۔ ابا بھی تمھیں یاد کر رہے تھے ۔ “……علی نے محبت بھرا گلہ کیا ۔
اس کے دل میں ایک احساس جرم تھاجیسے اس نے کمال مہارت سے چھپا لیا تھا۔
بس یار!۔۔کام کی مصروفیت ہی ایسی ہے کہ آنا ہوا نہیں اور اب تو دوبٸی کا ویزہ لگ گیا ۔ یہاں سب کام سیدھے کرکے ابا اور نوفل کے حوالے کرنا ہیں۔ حمزہ نے کہا۔
بیٹھو !۔۔بات کرتے کرتے اسے احساس ہوا کہ اس نے علی کو بیٹھنے کو کہا ہی نہیں ۔
حمزہ یار!۔۔تمھارا یہاں اچھا خاصا سیٹ اپ ہے تمھیں دوبٸی جانے کا خیال کیوں آیا ۔ علی نے سوال کیا ۔
ایک منٹ ۔میں چاۓ منگواتا ہوں تمھارے لیے۔ حمزہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور بیٹھنے کا کہا۔ خود انٹرکام کا بٹن دبایا۔ اور آفس بواۓ کو ایک کپ چاۓ اور ایک کپ کافی لانے کو کہا ۔
یار!۔ بس اس گاٶں سے میرا دل اٹھ گیا ہے ۔ کچھ عرصہ ملک سے باہر رہنا چاہتا ہوں۔ “….حمزہ نے نظریں چراتے ہوۓ کہا ۔
تمھارا فیصلہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگا ۔ ابا بھی کہہ رہے تھے کہ تمھارا ملک سے چلا جانا چاچا کے اوپر پھر سے بوجھ ڈال دے گا ۔علی نے منہ بنا کر کہا ۔
نہیں یار!۔۔۔نوفل اب کافی بڑا ہو گیا ہے وہ ابا کے ساتھ ہو گا ۔ حمزہ نے تھکے ماندے لہجے میں کہا ۔
پھر بھی یار ۔۔۔علی نے کہا ۔
چل!…. ابھی میرے ساتھ ڈیرے پے ۔ علی نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا ۔
نہیں یار! ۔۔ابھی نہیں تو چاۓ پی ۔ میں دوبٸی جانےسے پہلے آٶں گا ملنے چاچا سے ۔ حمزہ نے کہا ۔
میں تجھے بہت مس کروں گا ۔یار……….علی نےچاۓ کا کپ اٹھاتے ہوۓ کہا ۔
میں بھی ……….۔۔حمزہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔