Home / Home / 17 قسط

17 قسط

ارسہ دل سے چاہتی تھی کہ اس کا حسن و جمال چوہدری صدیق کے دل پراثر کرے یا کم از کم اس کا اس کمرے میں موجود ہونا یا نہ ہونا ۔کچھ تو فرق پڑے چوہدری صدیق کو ۔۔۔

لیکن جب دل میں کوٸی موجزن ہو تو دوسرے کی گنجاٸش کہاں نکلتی ہے۔

وہ جب کمرےسے نکل کر ساس کے پاس چلی آٸی۔

آنٹی ! ……میں امی کی طرف جا رہی ہوں ۔ ارسہ نے کہا۔

ہیں ۔۔۔۔۔۔بیٹا ! تم لوگ تو ہنی مون پر نہیں جا رہے تھے ؟ ساس نے پیار سے پوچھا۔

نہیں آنٹی۔۔۔میں امی کی طرف جا رہی ہوں کچھ دنوں کے لیے۔ ارسہ نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا۔

کیا ہوا ؟۔۔۔سب خیر تو ہے نا۔۔۔ساس فکر مند ہوٸی ۔ میک اپ اور کامدار جوڑے کے بنا نٸی نویلی دلہن اور ہنی مون کی بجاۓ میکے جانے کی رٹ انھیں مشکوک کر گٸی ۔

بیٹے ! ۔۔۔۔اللہ کرے سب خیر ہی ہو ۔۔تم تیار شیار ہو کر جاٶ تاکہ تمھارے والدین کو اچھا لگے۔ ساس کہنا چاہتی تھی کہ اپنے ماں باپ کو تشویش میں نہ ڈالو لیکن گھما پھرا کر بات کی ۔

آنٹی!۔۔۔۔۔ میرا دل نہیں کر رہا ۔ بس یونہی ٹھیک ہوں۔ ارسہ نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا ۔

چلو بیٹا !۔۔۔۔۔۔۔ تمھاری مرضی ہے۔ جیسا تم چاہو۔ ساس نے لہجے کو نرم ہی رکھا۔

وہ چوہدری صدیق کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھیں ۔ ان کا بیٹا ارسہ کو دل میں وہ جگہ نہیں دے پایا تھا جو اس کا حق تھا۔

آنٹی !۔۔۔۔۔ چلتی ہوں ۔ ارسہ نے کہا۔ اور سر جھکا کر ان کے کمرے سے نکل آٸی ۔

چوہدری صدیق گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ اس کے برابر بیٹھ گٸی۔

چوہدری صدیق نے گردن موڑ کر اس کی جانب ایک غصہ بھری نگاہ ڈالی اور گاڑی سٹارٹ کر دی ۔ رستہ خاموشی سے کٹا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی ماں کے گھر تھی ۔

ثمرین نے جب اپنی بیٹی کی جانب دیکھا ابھی اس کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا بنا میک اپ بنا بناٶ سنگھار۔ ماں کا دل اچھل کا حلق میں آگیا۔ ارسہ ! ۔۔۔۔۔یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ؟ کہیں سے نہیں لگ رہا کہ تم نٸی نویلی دلہن ہو۔۔۔۔ ۔ثمرین نے اسے گلے لگاتے ہوۓ کہا۔

میں دلہن ہوں ہی نہیں امی۔۔۔۔میرا تو اجڑی ابھاگن ہوں ۔۔۔ارسہ کا ضبط جواب دے گیا ۔

ارسہ خدا کے لیے ایسا نہ کہو۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔ ثمرین نے اسے گلے لگایا۔ اور اپنے ساتھ کمرے میں لے آٸیں۔

بیٹھو۔۔۔بتاٶ !میرا بچہ…ثمرین نے پچکارا۔

امی !۔۔۔ چوہدری صدیق کسی اور سے محبت کرتا ہے اس کی زندگی میں میری کوٸی گنجاٸش تھی ہی نہیں ۔مجھے بس تھوپ دیا گیا اس پر ۔۔۔۔ ارسہ نے سسکتے ہوۓ کہا ۔

کیوں بیٹا ؟۔۔ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟ ۔۔ثمرین نے پوچھا۔

ارسہ نے روتے ہوۓ پہلے دن سے لے کر اس ایک مہینے کی تمام داستان سناٸی ۔

ماں کا کلیجہ چھلنی ہوتا رہا ۔رہ رہ کر انھیں حمزہ کا خیال آتا بلاشبہ وہ ارسہ کے لیے بہترین انتخاب ہوتا ۔

شام کو چوہدری عدیم گھر آۓ تو ثمرین نے انھیں بھی ساری کہانی سناٸی۔

ثمرین! ۔۔۔۔یہ بات علی کو نہ پتہ چلے جوان خون ہے یہ نہ ہو کہ وہ چوہدری رشید سے جا الجھے ۔۔۔۔۔چوہدری عدیم نے ثمرین کو تنبہہ کی ۔ثمرین نے پریشانی سے اثبات میں سر ہلایا ۔کوٸی ماں یہ کبھی نہیں چاہتی کہ اس کی بیٹی کے ماتھے پر طلاق کا دھبہ لگ جاۓ۔

ارسہ نیند کی دوا کے زیر اثر سو رہی تھی ۔ آب پاشی کا موسم تھا علی فصل پر سپرے اور آب پاشی کے انتظامات دیکھ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ رات کافی دیر سے گھر آیا ۔ اسے ارسہ کے یہاں آنے کا علم ہی نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے اسے بتایا ۔ او۔!۔۔چوہدرانی جی آٸی ہیں ۔۔۔واہ جی واہ ۔۔کیسی ہومیڈم ؟۔۔۔صبح جب اس نے ارسہ کو ناشتے کی میز پر دیکھا تو بے اختیار خوشی اور حیرانی کے ملے جلے لہجے میں کہنے لگا۔

ٹھیک ہوں چوہدری صاحب ۔ آپ کو فرصت ملی اپنی زمینوں کے کام سے ۔ ؟ ارسہ نے اسی کے لہجے میں کہا تو چوہدری عدیم اور ثمرین دونوں نے سکھ کا سانس لیا ۔

کیا کریں بہن۔۔۔مجبوری ہے ۔ سناٶ کیسی ہو ؟ ۔۔۔علی نے کہا ۔

عثمان سب سے پہلے ناشتہ کرکے کالج جا چکا تھا۔

ہاں ۔۔سب ٹھیک ہے کچھ دن رہوں گی ۔۔۔ارسہ نے سر جھکا کر کہا۔

رہو رہو۔۔۔بس خوش رہو ۔۔علی نے کہا ۔

چاۓ پی کر اٹھ کھڑا ہو ۔

ابا ۔۔۔چلتا ہوں ۔۔آج بس سپرے کروا کر یہ کام ختم کروانا ہے ۔ علی نے چوہدری عدیم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔

بیٹھو علی۔۔! اتنی جلدی مت جاٶ ۔۔بہن کو کچھ وقت دو ۔۔ثمرین بولیں ۔

امی!…ارسہ ابھی کچھ دن ہے نا یہاں ۔۔یہ کام مکا لوں ۔ تو سر سے بوجھ اترے ۔ علی نے تھکے ہوۓ لہجے میں کہا۔

امی ۔۔علی ٹھیک کہہ رہا ہے اسے جانے دیں۔۔ارسہ نے کہا ۔۔

شکریہ بہن جی ! علی نے مسکرا کر کہا اور باہر کی جانب چل دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ارسہ کو میکے گٸے ہوۓ کچھ دن گزر چکے تھے ۔ اس کی ساس کو فکر ہو رہی تھی ۔ چوہدری صدیق معمول سے زیادہ خوش تھا ۔ چوہدری رشید کو گھر میں ہونے والے معاملات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔

اس دن چوہدری صدیق اور چوہدری رشید دونوں باپ بیٹا اکٹھے گھر داخل ہوۓ۔

بیگم صاحبہ ! چاۓ پلاٸیں۔۔۔چوہدری رشید نے کہا ۔

ہاں امی ! یہ سپرے کا کام بھی بہت صبر والا ہے ذرا سی نظریں چوکی اور کاموں نے ہاتھ کیا کہ کیا ۔ چوہدری صدیق نے تھکے ماندے لہجے میں کہا ۔

چوہدرانی نے کام والی کو آواز دی ۔

چاۓ نارمل ماحول میں پی جانے لگی ۔

چوہدری صدیق ۔ ارسہ کو لے آٶ ۔۔چوہدرانی نے کہا تو چوہدری صدیق کا حلق کڑوا ہو کر رہ گیا ۔

امی ! نہ میں نے بھیجا ہے اور نہ ہی میں لے کر آٶں گا ۔ وہ خود گٸی ہے آ جاۓ خود ۔ اس نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہا ۔

بیٹے! خاندان کی عزت کا سوال ہے ۔ کچھ خیال کرو۔ چوہدری رشید نے کہا ۔

خاندان کی عزت خاندان کی عزت ۔۔ابوجی ! اس عزت میں میری ذات تباہ ہو گٸی ہے ۔ آپ لوگوں نے ایک تو زبردستی میرے سر اس لڑکی کو تھوپ دیا اوپر سے دباٶ بھی مجھی پر ڈالتے ہیں۔ چوہدری صدیق نے کہا ۔ اس کے لہجے سے اس کے دل کے ٹوٹ جانے کا احساس اجاگر ہو رہا تھا۔

بیٹا ! کوشش کرو کہ نبھا لو ۔ یہ ضروری ہے ۔ چوہدری رشید نے اس کے کندھے پر تھپکی دی ۔

اس کے انداز سے انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔

چوہدری صاحب ! میں تو کہتی ہوں آپ دونوں باپ بیٹا جاٸیں اور لے آٸیں بہو کو ۔۔۔چوہدرانی نے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا ۔

امی ! میں نہیں جانے والا ۔ آپ اور ابو جاٸیں ۔۔۔عجیب عذاب ہے ۔ چوہدری صدیق اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔

صدیق بیٹا !۔۔۔چوہدرانی نے کہا۔

امی ! میں نے کہہ دیا ہے تو کہہ دیا ہے ۔میں نہیں جاٶں گا اسے لینے ۔۔۔چوہدری صدیق نے مضبوط لہجے میں کہا ۔

اچھا نہ جانا ۔۔۔چوہدری رشید نے کہا ۔

چوہدری صدیق نے زخمی نگاہ باپ پر ڈالی اور کمرے سے نکل گیا۔

بھلیے لوکے ! کتنی مشکل سے وہ اس شادی پر راضی ہوا تھا یاد ہے ؟۔۔۔تمہیں اس پر دباٶ نہیں ڈالنا چاہیے ۔ اس معاملے کو آہستہ آہستہ حل ہونے دو۔۔۔میں اور تم جا کر بہو کو لے آٸیں گے ۔ چوہدری رشید نے بیوی کو سمجھایا ۔

چوہدری صاحب ! ایسا کتنے عرصے تک چلے گا ۔ مجھے تو لگتا ہے یہ رشتہ جلد یا بدیر ختم ہو جاۓ گا اورساری برادری میں ہماری تھو تھو ہو جاۓ گی۔ چوہدرانی نے فکر مندی سے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا ۔

بد فعال نہ منہ سے نکالو ۔ کوشش کرتے ہیں ۔ سب ٹھیک ہو ہی جاۓ گا ۔ چوہدری رشید نے کہا ۔

تیور دیکھ رہے ہیں آپ اپنے بیٹے کے ؟ میرا تو دل دہلتا ہے ۔ چوہدرانی نے کہا ۔

دیکھ رہا ہوں پھر بھی پر امید ہوں ۔۔۔اور چاہتا ہوں کہ تم بھی پرامید ہی رہو ۔ ارسہ بہت خوبصورت ہے اور خوبصورتی مرد کے دل پر اثر ضرور کرتی ہے۔ چوہدری رشید نے کہا تو چوہدرانی نے خاموش رہنا ہی مناسب جانا۔ ۔۔۔۔۔



About admin786

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Follow by Email
Facebook
Twitter
Pinterest
WpCoderX