بس میں آپ سے بس یہی توقع رکھتا ہوں ۔کم از کم اب ہماری عزت سے مزید نہ کھیلیں آپ ۔۔ چوہدری عدیم نے کہا اور فون بند کر دیا ۔ چوہدری رشید پر گویا گھڑوں پانی پڑ گیا ۔ چوہدری عدیم ان کا عزیز ترین دوست تھا ۔ وہ دوستی نہ نبھا پاۓ ۔ چوہدری صدیق ۔۔۔۔فون بند کرتے ہی وہ گرجے ۔ جی ابو۔۔۔ابھی اسٹامپ پیپر لاٶ اور ارسہ کو تیسری طلاق دو ۔یونین کونسل میں کوٸی نہیں جاۓ گا ۔ چوہدری رشید چلاۓ ۔ چوہدری صاحب ۔۔۔مسز رشید نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا ۔ آپ کو پتہ ہے اس لڑکے کی وجہ سے میری ساری زندگی کی محنت راٸیگاں گٸی ۔ میری عزت کو اس نے برباد کر دیا اور میری دوستی ۔۔وہ بھی گٸی ۔ چوہدری رشید نے کہہ کر اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ چوہدری صدیق نے کچھ کہنا چاہالیکن کہا نہیں ۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ ارسہ کو اپنی زندگی میں جگہ نہیں دے پایا تھا اور یہ بھی حقیقت تھی کہ اس کی وجہ سے اس کے ماں باپ کی عزت داٶ پر لگ گٸی تھی ۔ چوہدری صاحب جوہونا تھا سو ہوا ۔ اب معاملات کو کسی اچھے طریقے سےنبٹانا چاہیے ۔ مسز رشید نے آہستگی سے کہا ہاں ۔۔یہ بات آپ اپنے بیٹے کوسمجھاٸیں جس کی محبت کے بھوت نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔ چوہدری رشید کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو جان سے ہی مار دیں ۔ جس نے ان کی عزت کاجنازہ نکال دیا تھا ۔ صدیق بیٹے۔۔تم جاٶ ۔۔۔آخری کاغذ تیار کرواٶ اور بس کرو یہ معاملہ ۔ آپ کل چوہدری عدیم کو کال کریں کہ وہ آ کر بچی کا سامان لے جاٸیں ۔ مسز رشید نے پہلے بیٹے کی جانب دیکھا پھر شوہر کی جانب دیکھا۔ چوہدری صدیق نے گردن ہلاٸی جبکہ چوہدری رشید نےسر جھکالیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھار ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔بعض حادثات ہو گزرتے ہیں کیونکہ ان حادثات کا ہوگزرنا ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ یہی ارسہ کے ساتھ بھی ہوا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی شادی چوہدری صدیق سے ہو لیکن ہو گٸی ۔ پھر اس نے حتی الامکان کوشش کی کہ کسی طرح یہ رشتہ نبھایا جاۓ لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو ۔ پھر اس نے خواہش کی کہ چوہدری صدیق کا نام کم از کم اس کے نام سے جڑا رہے لیکن وہ بھی نہ ہوا ۔ آج اسے طلاق کے حتمی کاغذات موصول ہو چکے تھے۔ چوہدری عدیم نے علی سے کہا کہ وہ ارسہ کا سامان اس کے سسرال سے اٹھوا لے ۔ ارسہ کے سسرال میں کسی کو کیا اعتراض ہونا تھا ۔ وہ رشتہ جو بہت شان و شوکت سے طے ہوا تھا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ ارسہ کو ایک کے بعد ایک دھچکہ لگا۔ اس کا جی چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ۔ اس کے باپ کا سر اس کی وجہ سے جھکا تھا۔ حویلی میں موجود شخص خود کو مضبوط ظاہر کر رہا تھا لیکن درحقیقت ہر شخص پریشان تھا خصوصاثمرین اور ارسہ ۔ ماں باپ کے سامنے تو ارسہ نے کسی نہ کسی طرح اس نے خود پر قابو رکھا ۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے اپنے فون سے حمزہ کا نمبر ملایا۔ حمزہ ۔۔۔۔مجھے میری بے وفاٸی کی سزا مل گٸی ۔ تمھاری آہ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ ارسہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔ حمزہ کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔ ارسہ ۔۔۔خدا کے لیے ایسا نہ کہو ۔ میں نے تو تمھارے لیے دعا کی تھی ۔ حمزہ نے چند لمحے کے توقف کے بعد ہمت کو مجمتع کرتے ہوۓ کہا ۔ حمزہ ۔۔اس شخص نے مجھے اپنے نام سے بھی محروم کر دیا ۔ ایک نام ہی تو تھا اس کا میرے پاس ۔ ارسہ نے روتے بلکتے لہجے میں کہا ۔ ارسہ ۔۔۔وہ شخص تمھارے قابل تھا ہی نہیں ۔ اسے نعمت ملی اور اس نے اس نعمت کو ٹھکرا دیا۔ حمزہ نے تسلی دینے کی کوشش کی۔ حمزہ میں کتنی بدقسمت ہوں نا ۔ اپنی محبت بھی نہ پا سکی اور گھر بھی نہ بسا سکی ۔ مجھ جیسی بدنصیب لڑکی کو تو مر جانا چاہیے ۔ ارسہ نے کہا اور پھر سے سسکنے لگی۔ نہیں ارسہ تم بدنصیب نہیں ہو ۔ تم ۔۔یہ سب تمھاری آزماٸش تھی ۔ اور تمھیں اس آزماٸش پر پورا اترنا ہے ۔ میں ہر حال میں تمھارے ساتھ ہوں۔ حمزہ کا لہجہ اس کے جذبات کا غماز تھا ۔ حمزہ ۔ کیا تم مجھ سے کہیں مل سکتے ہو کل ؟ ارسہ نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا ہاں ۔۔میں تم سے ملوں گا ۔ حمزہ نے کہا ۔ وہ رات حمزہ اور ارسہ کے علاوہ چوہدری حویلی کے تمام افراد کی جاگتے گزری ۔ حمزہ تمام رات سوچتا رہا کہ وہ ارسہ کو کیسے تسلی دے گا۔ ارسہ سوچتی رہی کہ وہ حمزہ سے معافی کیسے مانگے گی۔ خدا خدا کر کے وہ رات تمام ہوٸی ۔ طے شدہ وقت پر ارسہ حمزہ کے سامنے موجود تھی ۔ ایک نسبتا خاموش کونہ چن لیا گیا تھا ۔ بیرے کو آٸیس کریم کا آرڈر دے دیا گیا ۔ ارسہ تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے ؟ حمزہ نے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا جس پر اب زردی کھنڈی تھی ۔ حمزہ میں نے تم سے معافی مانگنے کے لیے تمھیں یہاں بلایا ہے۔ ارسہ نے سر جھکا کر کہا ایسا نہ کہو ارسہ ۔ جو کچھ بھی کچھ ہوا ۔ اس سب میں تمھارا کیا قصور تھا ؟ حمزہ نے کہا ۔ اس کا دل ارسہ کی حالت کو دیکھ کر بیٹھ رہا تھا۔ حمزہ ۔۔۔۔مجھے معاف کردو ۔مجھے دل سے معاف کر دو۔ ارسہ ایک سرایت سے اٹھی اور حمزہ کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پاٶں پکڑ لیے۔ ارسہ ۔۔۔خدا کے ایسا نہ کرٶ۔ حمزہ نے تڑپ کر اس کے ہاتھوں کو تھاما ۔ حمزہ ۔۔۔میرے منہ پر اپنے ہاتھ سے ایک چانٹا مارو۔ارسہ بدستور حمزہ کے قدموں میں بیٹھی رہی پھر نہ جانے کیا سوچ کر حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر مارتے ہوۓ کہا۔ ارسہ ۔۔ہوش کرٶ ۔ اٹھو ۔ دیکھو لوگ کیا کہیں گے۔ حمزہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ کہا ۔ حمزہ ۔ تم جب تک میرے چہرے پر چانٹا نہ دے مارو گے میں یہاں سے نہیں اٹھوں گی ۔ ارسہ نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا۔ ارسہ ۔۔ایسا نہیں کرو ۔۔۔پلیز ۔۔تم میری کل بھی محبت تھی آج بھی محٕت ہو ۔ حمزہ نے کہا حمزہ کیا تم میری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتے ؟ کیا اتنا بھی حق نہیں میرا کہ میری محبت کی لاج رکھی جاۓ ۔ ارسہ نے کہا ارسہ ۔امتحان مت لو میرا ۔ پلیز اٹھو ۔ حمزہ نےاسے کندھوں سے تھامتے ہوۓ کہا ۔ حمزہ ۔۔۔تم جب تک مجھے چانٹا نہیں مارو گے میں یہاں سےنہیں اٹھوں گی۔ ارسہ نے کہا۔ اتنی دیر میں بیرہ آٸس کریم لے کر آ گیا ۔ بیرے نے خاموشی سے آٸس کریم میز پر رکھی ۔ ارسہ کو حمزہ کے قدموں میں بیٹھے دیکھا اور خاموشی سے مڑ گیا ۔ اس کی تنقیدی نظروں نے حمزہ کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا ۔ ارسہ تو نہ جانے آج کیا سوچے بیٹھی تھی ۔ ارسہ ۔ اٹھ جاٶ ۔۔اب بہت ہوگٸی ۔ حمزہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا ۔ میں نے کہانا ۔۔۔جب تک تم مجھے تھپڑ نہیں مارو گے میں نہیں اٹھوں گی ۔ ارسہ نے ڈھٹاٸی سے کہا ۔ حمزہ کے پاس اور کوٸی چارہ نہ تھا۔ کیفے میں بیٹھے دیگر لوگ ان کی جانب مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے ۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور قدرے آہستگی سے ارسہ کے چہرے پر تھپڑ مارا ۔ حمزہ۔۔ایسے نہیں ۔۔۔۔۔زور سے مارو ۔۔۔ارسہ نے ہذیانی انداز میں کہا ۔ ارسہ ۔۔۔یہ سب کیا ہے۔ تماشہ نہ بناٶ ۔ اٹھو ۔حمزہ نے منت کی تم تھپڑ صحیح سے مار دو پھر میں اٹھ جاٶں گی ۔ ارسہ نے اپنی بات پر اڑتے ہوۓکہا ۔ ارسہ ۔۔پلیز ۔۔۔حمزہ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے ۔ حمزہ ۔۔۔مان لو نا ۔۔کچھ تو بےوفاٸی کی سزا دے دو مجھے ۔کچھ تو میں اس اذیت سے باہر نکلوں ۔ ارسہ نے منت بھرے لہجے میں کہا ۔ ارسہ ۔۔۔۔۔حمزہ نے کہا ۔ ارسہ ہٹ دھرمی سے اپنی بات پر اڑی ہوٸی تھی ۔ کیفے میں موجود کم و بیش ہر شخص ان کی جانب متوجہ ہو چکا تھا ۔مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ۔۔۔حمزہ کا ہاتھ اٹھااور چٹاخ کی آواز کے ساتھ ارسہ کے چہرے کو لال کرگیا ۔ ارسہ اٹھی حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا ۔ شکریہ حمزہ ۔۔۔۔۔ارسہ اب اس کے پاٶں سے اٹھ چکی تھی۔