حمزہ ملک سے باہر جانے کے لیے تیار تھا ۔ جہاں گھر کے سبھی لوگ اداس تھے۔ وہاں چوہدریوں کی حویلی میں بھی ایک بے نام سی اداسی چھاٸی تھی ۔ علی کو ابوبکر کے جانے کا اتنا افسوس نہیں تھا لیکن حمزہ اس کا رازدار اور ہر معاملے میں بہترین راۓ دینے والا دوست تھا۔ وہ حمزہ کو چھوڑنے اٸیر پورٹ آیا تھا ۔

”حمزہ! ۔۔۔مجھ سے رابطے میں رہنا۔۔۔ “علی نے حمزہ کو گلے لگاتے ہوۓ کہا۔

“کیوں نہیں !۔۔۔بھلا یہ بھی کوٸی کہنے والی بات ہے “…حمزہ مسکرایا ۔

اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی قید سے رہاٸی پا رہا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یادیں تو ہر جگہ انسان کا پیچھا کرتی ہیں چاہے وہ کوٸی بھی جگہ ہو۔

وہ پاکستان کو چھوڑ کر دوبٸی آ گیا۔ یہاں اسے نہ تو نوکری ملنے میں کوٸی مسٸلہ ہوا نہ ہی کوٸی اور ۔۔کیونکہ پاکستان میں رہتے ہوۓ اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا رکھے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہدری صدیق کا رویہ نہ بدلا تھا نہ بدلنے کی کوٸی صورت نظر آتی تھی ۔

صدیق بیٹا !…تمھاری شادی کو اتنے دن ہو گٸے ہیں ۔ تم لوگ کہیں گھومنے پھرنے نہیں گٸے “۔۔۔۔۔۔ چوہدری رشید اپنے بیٹے کے بارے میں سب جانتے تھے وہ چاہتے تھے کہ جو رشتہ انھوں نے گاٶں میں اپنی حیثیت مضبوط بنانے کے لیے کیا ہے وہ کسی بھی طرح قاٸم رہے۔

ابا جی !۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے مجھے گھومنا پھرنا پسند نہیں اور آپ کی بہو بھی گھر گھرستی میں خود کو لگانا چاہتی ہے “ ۔ ۔۔۔۔۔۔چوہدری صدیق نے بات بناٸی ۔

درحقیقت وہ ارسہ کے ساتھ کہیں جانا ہی نہ چاہتا تھا ۔

”چوہدری صدیق! یہ ٹکٹ ہیں ناران کاغان کے ۔۔جاٶ کل تم لوگ ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔چوہدری رشید نے حکم دینے کے سے انداز میں کہا ۔

اباجی ! ۔۔۔۔آپ کا ایک حکم مان لیا ہے نا ۔۔کافی نہیں “۔۔۔۔۔۔ چوہدری صدیق کو اپنے ہاتھ میں ٹکٹ گویا دہکتے انگاروں کی مانند محسوس ہوۓ ۔

”پتر! ۔۔۔۔۔جو حکم مانا ہے نا اسے نبھا بھی تو سہی “ ۔۔۔۔۔چوہدری رشید نے پچکارا ۔

 اباجی ! مجھ سے یہ تعلق نہیں نبھایا جانا ۔ یہ بہت مشکل ہے “۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری صدق نے بے بسی سے کہا اور یہ حقیقت بھی تھی اس نے کبھی اس تعلق کو دل سے تو کیا دماغ سے بھی تسلیم نہ کیا تھا ۔

رات گٸے تک وہ دوستوں کے ساتھ رہتا۔ جب کمرے میں آتا تو موباٸل پر اپنی محبوبہ کے ساتھ بات کرنے لگتا ۔ ارسہ کو واضع طور پر محسوس ہو رہا تھا جیسے چوہدری صدیق کے نزدیک وہ ایک بے جان شے ہو جسے استعمال کیا جاسکتا ہو لیکن اس کے کوٸی احساسات یا جذبات نہ ہوں۔




 جا لے جا ! وہٹی کو ۔۔بے چاری کے ارمان ہوں گے ۔ لڑکیوں کے بڑے ارمان ہوتے ہیں بیٹا ۔“۔۔۔۔۔ چوہدری رشید نے ایسے بات کی جیسے صدیق کوٸی ننھا بچہ ہو۔

ابا!۔۔۔۔۔۔۔میرے بھی ارمان تھے ۔ بہت ارمان تھے کیا ہوا ؟ سب ختم ہو گیا نا ۔ “۔۔۔۔۔۔۔چوہدری صدیق دکھ سے بولا۔

بیٹے! ۔۔۔۔۔ظرف کا مظاہرہ کرو ۔ جس دکھ سے تم گزرے ہو وہ ارسہ کو نہ دو۔“۔۔۔۔ چوہدری رشید نے کہا۔

ابا! ۔۔۔مجھے مشکل میں نہ ڈالیں ۔۔۔خدا کے لیے اورنہیں ۔ “ ۔۔۔چوہدری صدیق نے بے بسی سے کہا۔ ”اچھا !۔۔۔۔۔۔ آخری بار کہہ رہا ہوں ۔ ابھی لے جا اسے گھمانے۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں سیٹ ہو جاٶ گے ۔“ ۔۔۔چوہدری رشید نے کہا ۔

چوہدری صدیق چپ رہا ۔

تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں چلا آیا۔

کمرے میں اس نے دیکھا کہ کوٸی نہیں ۔ وہ اس بات سے لاعلم تھا کہ ارسہ باتھ روم میں کپڑے تبدیل کر رہی ہے ۔ چوہدری صدیق نے کمرے کے دروازے کی کنڈی چڑھاٸی اور فون ملایا ۔

”میری جان! ۔۔۔۔میں دو چار دن کے لیے شہر سے باہر جا رہا ہوں اگر سگنل نہ ہوۓ تو تم پریشان نہ ہونا“ ۔۔۔۔۔ سلام دعا کے بعد وہ بولا۔

ہاں یار!۔۔۔۔۔ بیوی کے ساتھ ہی جا رہا ہوں ۔۔۔عجیب مصیبت گلے پڑی ہے میرے۔ یہ وہ ہڈی ہے جو نہ حلق سے نیچے اترتی اور نہ تھوک پا رہا ہوں ۔ “۔۔۔۔۔ اس نے بیزاری سے کہا۔

تم دو چار ماہ انتظار کرو ۔۔ میں بزنس تھوڑا شہر میں منتقل بھی کر لوں گا تو وہاں تمھارے ساتھ رہوں گا ۔ یہ پڑی رہے یہاں گاٶں میں۔ چوہدرانی صاحبہ “۔۔۔۔۔ چوہدری صدیق نے ہنس کر ارسہ کا مذاق اڑایا۔

اتنی دیر میں ارسہ غسل خانے سے باہر نکل آٸی۔ اس نے چوہدری صدیق کی تمام باتیں سن لی تھیں۔ ”چوہدری صدیق صاحب !۔۔۔۔۔۔ آپ اس ہڈی کو تھوک کیوں نہیں دیتے ۔ اس لیے کہ آپ کے ابا کی راجدھانی میں فرق نہ آۓ ؟ اگر آپ واقعی ہی چوہدری ہیں نا تو پھر یہ جرات کر ڈالیے “۔۔۔۔۔ارسہ نے غصے میں کہا ۔

یہ ان کی پہلی باقاعدہ لڑاٸی تھی جو شادی کے چند دنوں بعد ہوٸی تھی۔

 میرے اندر اتنی جرات ہے نا ارسہ بی بی کہ میں تمھیں زمین میں گاڑ دوں لیکن مجھے میرے ابا کا خیال ہے “۔۔۔۔۔ چوہدری صدیق دھاڑا ۔

ابا کا یا ان کی راجدھانی کا ۔۔جس کی خاطر آپ نے میری زندگی برباد کی ؟“ ۔۔۔۔۔ارسہ نے کہا ۔

 تم جو بھی سمجھو مجھے اس سے کوٸی غرض نہیں ہے۔ ابا نے ٹکٹ لا کر دیے تھے کہ تمھیں گھمانے لے جاٶں میں “ ۔۔۔۔چوہدری صدیق نے قدرے ٹھنڈے لہجے میں کہا ۔

مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا ۔ مجھے آپ میرے ابو کے گھر چھوڑ آٸیں ۔ “۔۔۔۔۔ارسہ نے کہا اس کے لہجے میں غصہ اور دکھ گھلا ہوا تھا ۔

ٹھیک ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔چوہدری صدیق نے اتنے سکون سے کہاجیسے اسے اس کے جانے پر کوٸی تشویش نہ ہو ۔ اور یہ حقیقت بھی تھی۔

مجھے ابھی جانا ہے “۔۔۔۔۔ارسہ نے کہا اسے توقع تھی کہ چوہدری صدیق کے اطمینان میں یقینا فرق آۓ گا ۔ لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔

ٹھیک ہے !۔۔۔۔۔۔چلو ۔ “ ۔۔۔۔۔چوہدری صدیق نے بیڈ کی ساٸیڈ کی گاڑی سے چابی اٹھاتے ہوۓ کہا ۔ ارسہ کے دل کی گہراٸی میں کچھ ٹوٹ گیا ۔ اتنی تذلیل ۔ وہ چپ رہی ۔

تم آٶ ۔ میں جا رہا ہوں ۔ “ ۔۔۔۔۔۔چوہدری صدیق ایک جھٹکے سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *