حمزہ سلام کر کے باہر نکل گیا ۔
“ارسہ ۔۔یہ سوٹ تم پر لگ اچھا رہا ۔”….. عاٸشہ نے تعریف کرتے ہوۓ کہا۔
“بہت شکریہ ۔۔اصل میں یہ سوٹ تھا ہی خوبصورت ۔”…..ارسہ نے کہا ۔
“لیں ثمرین بہن !…..چاۓ لیں ۔ “…….رابعہ نے چاۓ کا کپ آگے بڑھاتے ہوۓ کہا ۔
“بہت شکریہ رابعہ بہن !۔”۔ ثمرین نے شکریہ ادا کرتے ہوۓ کہا۔
“یہ حمزہ چاۓ پٸے بغیر ہی چلا گیا ہے ۔ اس لڑکے کو ہر وقت کوٸی نہ کوٸی کام ہی ہوتا ۔”….. رابعہ نے کہا ۔
“بہن !…..بہت اچھی بات ہے اس نے ذمہ داری سنبھال لی ہے ورنہ آجکل کے لڑکے کو کھیل کود میں عمریں لگا دیتے ہیں ۔”….. ثمرین نے تعریف کی ۔
“ہاں بہن!….. ۔پڑھاٸی کے ساتھ ساتھ حمزہ نے کام کی ذمہ داری بھی خوب اٹھاٸی ہے ۔ “….رابعہ نے فخر سے کہا ۔
“اللہ کامیاب کرے سب بچوں کو ۔”….. ثمرین نے کہا۔



………………………………………………………………………….

بی اے کے سالانہ امتحان کا آغاز ہو چکا تھا اس سال امتحانی سینٹر دوسرے گاٶں میں بنا تھا ۔ سالانہ امتحانات میں کسی لڑکی کو چادر کمرہ امتحان میں لے جانے کی اجازت نہ تھی ۔ ارسہ اورعاٸشہ کا کمرہ امتحان اور پرچوں کی تاریخ الگ الگ تھی کیونکہ ان کے کچھ مضامین ایک سے تھے اور کچھ الگ ۔
آج ارسہ کا پرچہ تھا جبکہ عاٸشہ چھٹی پر تھی ۔
اس گاٶں میں ہر عزت دار گھرانے کی لڑکی چادر لیتی تھی۔ سب کی چادریں اتروا کر کمرہ امتحان سے باہر  رکھوا دی گٸیں۔ لڑکیاں پرچہ دینے کمرہ امتحان میں چلی گٸیں ۔ پرچہ حل کرنےکے بعد جب ارسہ موباٸل مہتمم سے لے کر  باہر نکلی تو اس کی چادر نہ جانے کہاں گم ہو چکی تھی۔
“یااللہ میری چادر کدھر گٸی” ۔ ارسہ نےپریشانی سے کمرہ امتحان کے باہر رکھی گٸی چیزوں کو ادھر ادھر کر کے دیکھا۔ اس نے علی کو کال ملاٸی ۔ علی کا فون بندملا ۔
یااللہ اب کیا کروں۔۔۔کس کو کہوں۔ ایسے بنا چادر میں گھر کسے جاٶں گی ۔ اس نے پریشانی سے سوچا۔
حمزہ !۔۔۔اچانک اس کے ذہن میں خیال کوندا ۔ حمزہ کو فون کرتے ہوۓ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
“حمزہ ۔!…..میری چادر گم ہو گٸی یا کوٸی لے گیا ہے ۔ اب میں گھر کیسے جاٶں. “…..حمزہ نے فون اٹھایا تو وہ ایک دم سےروہانسی آواز میں بولی.
“اچھا!…. پریشان نہ ہو رونا بالکل بھی نہیں ۔ میں چادر لے کر آتا ہوں ۔”….. حمزہ نے تسلی دینے کے انداز میں کہا ۔
“حمزہ !۔۔۔بہت شکریہ ۔”……ارسہ نے شکرگزاری سے کہا ۔
“شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ابھی فون بند کرو ۔میں آتا ہوں۔”……حمزہ نے کہا ۔ حمزہ نےفون بند کیا دفتر سے اٹھا۔
سیدھا بازار جاکر وہاں سے ایک سفید رنگ کی چادر خریدی جس کے کناروں پر سرخ رنگ کی نفیس کڑھاٸی کی گٸی تھی۔ اس کے بعدوہ ارسہ کے ایگزام سینٹر پہنچا ۔
“ارسہ !….یہ لو چادر” ۔۔۔اس نے ارسہ کو چادر تھماتے ہوۓ کہا ۔
“بہت شکریہ حمزہ تم نے ایک بہت بڑا مسٸلہ حل کر دیا ۔”…… ارسہ نے شکرگزاری سے کہا
“ارسہ !….شکریہ ادا کرکے مجھے شرمندہ نہ کرو “۔۔۔حمزہ نے کہا ۔
“میں تمھیں گھر چھوڑ دوں “۔۔۔حمزہ نے ایک لمحے کے توقف کے بعد پوچھا ۔
“نہیں! ۔میں چلی جاٶں گی ۔خود ۔”……. ارسہ نے کہا ۔
“ٹھیک ہے میں جاتا ہوں ۔”….. حمزہ نے مسکرا کر کہا اور مڑ گیا ۔
ارسہ نے چادر پھیلا کر اپنے شانوں پر اوڑھ لی ۔
“حمزہ !…تم کیا جانو ۔ چادر عزت کی علامت ہوا کرتی ہے ۔ “…..ارسہ نے سوچا۔
اسے اس چادر سے حمزہ کی خوشبو آنے لگی تھی



ارسہ چادر اوڑھ کر اپنے گرد ایک مضبوط حصار محسوس کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔
“اے ارسہ !۔۔کیا کرنا ہے گھر جاٶ گی ؟”…… ایک کلاس فیلو جو ہاسٹل میں رہتی تھی اس کے پاس آکر بولی ۔
“ارادہ تو ہے کہ گھرجاٶں” ۔۔ارسہ نے جواب دیا۔
“یار!… کل پیپر ہے گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو جاۓگی تمھیں پیپر کی تیاری کیسے کرو گی ۔ “….کلاس فیلو نے کہا ۔
“کیا کیا جا سکتا ہے ؟ “…..ارسہ نے اداسی سے پوچھا ۔
“ہاسٹل رک جاٶ! میرے ساتھ ۔مل کر پیپر کی تیاری کریں گے۔”….. کلاس فیلو نے کہا ۔
“اچھا!…. میں امی سے پوچھتی ہوں تم رک جاٶ تھوڑی دیر ادھر ہی ۔”….. ارسہ نے کہا ۔ اور اپنی ماں کا نمبر ڈاٸل کرنے لگی ۔
“امی! ۔یہ فرحین کہہ رہی ہے کہ ہاسٹل رک جاٶ کل پیپر دے کے چلی جانا ۔رک جاٶں ۔”…….ارسہ نےماں سے پوچھا ۔
گاٶں میں رہنے والوں کی یہ خوبی ہوا کرتی ہے کہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں کہ کون کس کی اولاد ہے۔
“وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ تم رک جاٶ۔ کل شام آ جانا ۔ بلکہ کل میں علی کو بھیج دوں گی ۔ “….ثمرین نے کہا ۔
“جی !……….ٹھیک ہےامی ۔ “………..ارسہ نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
“ہاں !….جی کیا کہا خالہ نے ۔”….. کلاس فیلو نے پوچھا ۔
“انھوں نے ہاسٹل رکنے کی اجازت دے دی ہے۔ “…..ارسہ نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
“چلو پھر “۔ کلاس فیلو اسے بازو سے پکڑ کر خوشی خوشی اپنے کمرے میں لے آٸی ۔ ابھی وہ چادر اتار کر بیٹھی ہی تھی کہ اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی ۔ حمزہ کا فون تھا ارسہ نے اٹھایا ۔
“آپ گھر پہنچ گٸیں ہیں؟ “…….  سلام دعا کے بعد حمزہ نے پوچھا۔
“نہیں ۔”……ارسہ نے کہا ۔
“اب تک تو پہنچ جانا چاہیے تھا ۔”…..حمزہ نے فکر مندی سے کہا ۔
“میں گھر گٸی ہی نہیں ہاسٹل میں رکی ہوں”…..۔ارسہ نے بتایا ۔
“گھر بتا دیا ؟ .”….حمزہ نے پوچھا ۔
“جی بتا دیا ہے گھر۔”…… ارسہ نے کہا ۔
“مجھے پتہ ہوتا تو میں وہاں رکتا ۔ابھی میں فیصل آباد پہنچ گیا ہوں ایک بزنس ڈیل کے سلسلے میں ۔ مجھے یہ بتاٸیں رات کے کھانے کا انتظام ہے اور صبح کا ناشتہ ۔ “……حمزہ نے تفصیل بتاتے ہوۓ کہا ۔
“رات کا کھانا تو ہم لے آۓ ہیں ہاسٹل آتے ہوۓ اور صبح کے ناشتے کا صبح دیکھا جاۓ گا ۔”….. ارسہ نےکہا۔
“ارسہ!… آپ لوگوں نے صبح کا ناشتہ لینے ہاسٹل سے کہیں نہیں جانا بس آرام سے پیپر دینے جانا ۔ “…..حمزہ نے رعب دار آواز میں کہا ۔




“تو کیا ناشتہ کے بغیر جاٸیں پیپر دینے ۔ “….ارسہ نے کہا ۔
“نہیں ۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ ناشتہ کے بغیر جاٶ۔ یہ کہا ہے کہ ناشتہ تمھیں ہاسٹل میں مل جاۓ گا ۔ سو ناشتہ لینے نہیں جانا ۔ “…..حمزہ نے حکم دینے کے انداز میں کہا ۔
“جو حکم عالی جاہ ۔!”……. ارسہ نے مسکرا کہا اور ان کے درمیان چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گٸی ۔
“اب اگر اجازت ہو تو میں کچھ پڑھ لوں ؟ “……ارسہ نے خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا .
“اوکے ۔ اللہ حافظ ۔”….. حمزہ نے کہا اورفون کٹ گیا ۔
ارسہ فون کو ایک جانب رکھ کر پڑھنےلگی۔ حمزہ خود تو فیصل آبادتھا ۔ اس نے اپنے ایک دوست جو اسی شہر کا رہنے والا تھا کو فون کیا کہ گرلز ہاسٹل میں صبح کا ناشتہ پہنچا دے۔
صبح کے ابھی سات ہی بچے تھے کہ ہاسٹل میں کام کرنے والی ماسی نے ان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔
“جی اماں جی ۔!”……. ارسہ نے بستر میں لیٹے لیٹے ہی آواز لگاٸی ۔
“بیٹا ۔!……. آپ کے گھر سے ناشتہ آیا ہے اٹھو لے لو ۔”……ماسی نے کہا ۔
“ارسہ۔!……….اپنی اورحمزہ کے درمیان ہونے والی بات بھول چکی تھی۔ میرے گھر سے۔ اتنی دور سے ناشتہ ۔ “……ارسہ نے سوچا اور اٹھ کر دروازہ کھولا ۔
جہاں کام والی ماسی کم و بیش تین درجن پوریاں حلوہ اور چنوں کا بھرا شاپر اٹھاۓ کھڑی تھیں ۔
“یہ لو بچے!”… ۔ ماسی نے شاپر آگے بڑھاۓ۔
“اماں !…..آپ اپنے لیے ناشتہ نکال لیں نا ۔ برتن لے آٸیں ۔”…..ارسہ نے کہا ۔
ماسی سر ہلا کر مڑ گٸی ۔
“آہا !۔۔۔حلوہ پوری ۔ ۔۔اور وہ بھی اتنی ساری ۔”…… فرحین جو غسل خانے میں تھی باہر نکلی تو چہکتے ہوۓ بولی۔
“میرے گھر سے آیا ہے ناشتہ ۔ “…..ارسہ نے کہا ۔
“دوسروں کو بھی بلا لیتے ہیں یہ کافی زیادہ ہے ۔  “……فرحین نے کہا ۔
“ہاں !….ضرور ۔ تم سب کو ناشتہ سرو کرو میں تب تک منہ ہاتھ دھو لوں ۔”…..ارسہ نے کہا۔
کام والی ماسی بھی برتن لے آٸی تھی سب سے پہلے اسے ناشتہ نکال کر دیا گیا پھر ہاسٹل کی اس منزل پر مقیم تمام  لڑکیوں نے فرحین کے کمرے ہی میں ناشتہ کیا ۔
حمزہ اپنی بات کا کتنا پکا ہے نا ۔میں تو پھول بھی گٸی تھی ۔ارسہ نے سوچا۔
چادر شانوں پر لی اور پیپر دینے کے لیے ہاسٹل سے فرحین کے ساتھ نکل آٸی۔ پیپر کے دوران بھی وہ حمزہ کے بارے میں سوچتی رہی ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے دل میں حمزہ کی قدر میں اضافہ ہو رہا تھا ۔
دوستی  کا بیج پھوٹ کر اب محبت کے   پود ے سے درخت بنتا جا رہا تھا۔




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *