حمزہ !….بیٹے بہت بہت شکریہ ۔مجھ پر تمھارا یہ بہت بڑا احسان ہے ۔ “……شفیع محمد نے پنچاٸیت برخواست ہونے کے بعد احسان مندی سے کہا ۔
چاچا۔!۔۔ایسے نہ کہیں ۔”…..حمزہ نے مسکرا کر شفیع محمد کو گلے سے لگا لیا ۔
علی خاموشی سے اسے تکتا رہا ۔ شفیع محمد نے علی کو بھی گلے سے لگایا لیکن علی کوگلے لگاتے ہوۓ وہ اس طرح پرجوش نہ تھا جیسے حمزہ کوگلے لگاتے ہوۓ تھا۔
………………………………………………………
سردیوں کا آغاز ہو گیا تھافضا میں خنکی کے اضافہ نے لوگوں کوقدرے سست کر دیاتھا ۔ سواۓ کالج سکول جانے والے طالب علموں اور ان کی ماٶں کے لوگ دیر تک لحافوں میں دبکے رہتے ۔
حمزہ! ۔۔بہت اچھا لگا تم نے چاچا شفیع محمد کا اتنا ساتھ دیا ۔”….. ارسہ کا میسج دیکھ کر حمزہ مسکرایا۔
بہت بہت شکریہ! ۔کسی نہ کسی کو تو یہ کرنا ہی تھا ۔۔”…….حمزہ نے جواب دیا ۔
اور وہ کسی نہ کسی تم بن گٸے ۔”…… ارسہ نے کہا۔
جی!”۔۔حمزہ نے جواب دیا ۔
شکر ہے!…. عاٸزہ کی طرف سے اب خاموشی ہے ورنہ اس نے تمھیں بدنام کرنے میں کوٸی کسر نہ چھوڑی تھی ۔”…. ارسہ نے کہا ۔
ہاں ۔!… عجیب احمق لڑکی تھی ۔”…. حمزہ نے کہا ۔
یہ ان کی موباٸل پر بات کا آغاز تھا ۔ اس کے بعد کم و بیش روزانہ ہی صبح بخیر اور شب بخیر سے شروع ہونے والے سلسلے میں حال احوال پوچھنے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔
موسم کی تبدیلی کے ساتھ کپڑوں کے بھی نٸے پرنٹ آۓ تھے حمزہ نے سب کے لیے کپڑے خریدے توارسہ کے لیے بھی لے لیے ۔۔
امی!…. دیکھیں ۔۔یہ کپڑے میں نے سب کے لیے ہیں ۔ نٸے ڈیزاٸن آۓ تھے نا مارکیٹ میں ۔”….حمزہ نے کپڑوں سے بھرے شاپر ماں کے سامنے رکھتے ہوۓ کہا ۔
اچھا!…. دیکھاٶ تو” ۔ رابعہ کپڑے دیکھنے لگیں۔ ۔
یہ آپ کےلیے یہ عاٸشہ باجی کا یہ راحیلہ کا یہ نوفل کا یہ ابو کا یہ میرا.”……. حمزہ ایک ایک جوڑا شاپر سے نکال کر ماں کے سامنے رکھنے لگا
اور وہ جو ایک زنانہ جوڑا رہ گیا ہے وہ ؟ “…..رابعہ نے حیرانی سے پوچھا ۔
وہ امی !۔۔وہ ۔۔”…..حمزہ گڑبڑا گیا ۔
امی !…..وہ ارسہ کو دے دیں گے ۔ “…..عاٸشہ نے کمرے میں داخل ہوتے حمزی کے چہرے پر ہواٸیاں اڑتی دیکھی تو جھٹ سے کہا ۔
وہ ارسہ اور حمزہ کی آپس میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں نہ جانتی تھی ۔
ہاں! ۔۔امی جی یہ ارسہ کو دے دیں”۔۔حمزہ کی گویا جان میں جان آگٸی ۔
یہ بھی صحیح ہے ۔ تم شام عاٸشہ کولے جانا حویلی ۔ “……رابعہ نے پرسکون لہجے میں کہا ۔
جی امی !……لیکن ابھی تو کچھ کھانے کو دے دیں ۔ “…..حمزہ نے کہا تو رابعہ سر ہلا کر کچن کی جانب بڑھ گٸیں ۔
احمق !۔۔اگر لےہی آۓ تھے کپڑے تو گاڑی میں رکھ دیتے ۔”…… عاٸشہ نے ہنس کر بھاٸی کے سر پر ہلکی سی چپت لگاٸی ۔
مجھے دھیان ہی نہیں رہا باجی ۔”…. حمزہ نے مسکرا کر کہا اس کے چہرے پر ایک دم سے لالی پھیل گٸی ۔
کھانا کھا کر اس نے ارسہ کو مسیج کیا ۔
ارسہ !….میں نے اپنے گھرمیں سب کو کپڑے لے کر دٸیے ہیں تمھارے لیے بھی لیے ہیں ۔عاٸشہ باجی کے ہاتھ بجھوا دوں گا بس شرط یہ ہے کہ تم یہ کپڑے جلد از جلد سلوا کر پہن کے ہمارے گھر آٶگی ۔”….. مسکرا کر مسیج کرتےہوۓ حمزہ نے دیکھا ہی نہیں کہ نوفل اسےغور سے دیکھ رہا ہے۔
بھاٸی جی ۔!۔۔خیر ہے کسے میسج ہو رہا ہے۔ “……نوفل کھنگارا ۔
اوے تم!….. کب سے بڑوں پر نظر رکھنے لگے ہو ؟”……….حمزہ نے ہنستے ہوۓ غصہ دیکھانے کی کوشش کی ۔
جب سے بڑے میسج پر اتنے گم ہوۓ کہ انھیں دنیا کا ہوش ہی نہ رہے تب سے ۔”…. نوفل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
چل !…..بھاگ یہاں سے ۔”…… حمزہ نے کہا ۔
کچھ دے دلا کر بھگا سکتے ہو بھاٸی ورنہ یہ جاسوس جا کر ابا کو بتاۓ گا کہ بھاٸی غیر اخلاقی سر گرمیوں میں مبتلا ہو چکا ہے۔”….. نوفل نے اکڑتے ہوۓ کہا
۔او کون سی غیر اخلاقی سرگرمیاں تیری تو۔۔۔”…..حمزہ نے کہا اور اٹھ کر نوفل کی طرف بھاگا نوفل تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔
سوچ لو! ۔۔۔ابا کا کمرہ ادھر ہے “…..۔ کمرے سے باہر نکل کر نوفل نے اس کی طرف دیکھا شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی ۔
رک جا شیطان ۔۔”……حمزہ نے کہا ۔
سو روپے دو ۔۔ورنہ میں جا رہا ہوں ۔۔ادھر ۔ “…………نوفل نے ماں باپ کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ۔
سو روپے کیا کرنے ہیں تمھیں ۔۔”……حمزہ نے پوچھا۔
رشوت کا استعمال کوٸی بتا کر تھوڑا ہی کرتا ۔ دیتے ہیں پیسے یا جاٶں ۔”……… نوفل نے دھمکی دیتے ہوۓ کہا۔
یہ لے !……..اور چپ کر جا ۔”… حمزہ نے سو روپے نکال کرنوفل کی جانب بڑھاۓ نوفل نے لٹک کر پیسے دبوچے مبادا سر پر چماٹ ہی نہ پڑ جاۓ ۔
پیسے لے کر وہ چلتا بنا ۔ حمزہ کے موباٸل پر مسیج کی گھنٹی بجی ۔
اس کی کیا ضرورت تھی ۔ “……ارسہ کا میسج تھا ۔
ضرورت تھی یا نہیں۔شام کو ہم کپڑے دینے آٸیں گے ۔ “……حمزہ نے جواب دیا ۔
عجیب سا محبت بھرا رعب تھا ۔ارسہ کے دل میں خوشی بھر گٸی ۔ شام کی چاۓ پی کر عاٸشہ نے حمزہ کو چلنے کا کہا ۔
حمزہ !۔۔تم ارسہ سے دوستی کر چکے لیکن اپنے جذبات کو قابو میں رکھو ۔ وہ چوہدری برادری سے ہے اور ہم قریشی ۔”……. عاٸشہ نے چند لمحوں کی خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا ۔
باجی !…..ہیں تو سب مسلمان ہی نا ۔ “…..حمزہ نے کہا ۔
حمزہ !….۔چوہدری صاحب کبھی بھی نہیں مانیں گے خوامخواہ کا دکھ پالنے کا فاٸدہ ۔ “…..عاٸشہ نے سمجھاتے ہوۓ کہا ۔
ارے باجی !۔۔آپ نہ جانے کیا سمجھ رہی ہیں ۔ ہم بس اچھے دوست ہیں ۔”….. حمزہ نے عاٸشہ کو ٹالا ۔
دوست ہی رہو تو بہتر ہے۔ “…..عاٸشہ نے بہتر لفظ پرزور دیتے ہوۓ کہا
حمزہ بہت سے جذبات کا آغاز دوستی سے ہوا کرتا ہے ۔” عاٸشہ نے کہا ۔
حمزہ خاموش رہا ۔ اس کے دل میں ایسا کوٸی خیال تھا ہی نہیں۔ ۔۔
حویلی میں پہنچ کر حمزہ علی کی طرف چلا گیا جبکہ عاٸشہ ارسہ کی طرف۔
ارسہ یہ سوٹ دیکھو ۔کیسا ہے ؟ حمزہ لایا ہے ۔”…… عاٸشہ نے کہا ۔
ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ جس پر باریک کڑھاٸی کی گٸی تھی۔ ارسہ کو بے انتہا پسند آیا ۔۔
بہت ہی خوبصورت ہے ۔”……… ارسہ نے کہا عاٸشہ نے ارسہ کے چہرے پر کٸی رنگ بکھرتےدیکھے ۔
کیا یہ وہی معاملہ ہے جو میں سمجھ رہی ہوں ۔….. عاٸشہ نے سوچا۔
ارسہ ایک بات کہوں ۔دوستی کو دوستی ہی رکھنا یار ۔ “…..عاٸشہ نے سوچتے ہوۓ کہا ۔ ۔
عاٸشہ!…. کیا ہو گیا ہے تمھیں ۔ “…..ارسہ نے نظریں چراٸیں ۔
میں یہ سوٹ پہن کر تم سے ملنے آٶں گی۔”….. ارسہ نے بات پلٹی ۔
مجھ سے ملنے یا کسی اور کو کپڑے دیکھانے ۔”….. عاٸشہ نے شرارت سے کہا
تم سے ملنے اچھا ۔”…… ارسہ نے کہا اور ہنستے ہوۓ چاۓ بنانے کے لیے اٹھ گٸی۔
شاید محبت کا بیج ان دونوں کے دلوں میں بویا جا چکا تھا۔۔۔۔
کچھ دن کے بعد ثمرین اور ارسہ اسجد لاج آٸیں ۔ ارسہ نے وہی گلابی لباس پہن رکھا تھا جو حمزہ نے اس کے لیےخریدا تھا۔حمزہ ان کے اپنے گھر آنے سے لاعلم تھا۔
امی !…..جا رہا ہوں آج گوجرخان جانا ہے رات دیر ہو جانی ہے ۔”….. حمزہ نے باہر جاتے ہوۓ کہا ۔
حمزہ !….پہلے گھر آۓ مہمانوں سے تو مل لو ۔۔پھر چلے جانا ۔ “…..رابعہ نے کہا ۔
امی! ۔۔کون آیا ہے ۔میرا ملناضروری ہے کیا ؟ “….حمزہ نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا ۔
علی کی امی آٸی ہیں۔”….. رابعہ نے جان بوجھ کے علی کا نام لیا کیونکہ وہ حمزہ اور علی کی دوستی کو اچھی طرح جانتی تھیں۔
اوہ !۔۔پھر تو ملے بغیر نہیں جایا جا سکتا ۔”….. حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
بالکل ۔!…..رابعہ نے چاۓ کے کپ ٹرے میں رکھتےہوۓ کہا ۔
السلام علیکم خالہ جی!…. کیسی ہیں ؟ “……حمزہ نے ارسہ کو گلابی لباس میں دیکھا تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک کر رہ گیا ۔
گلابی رنگ میں اس کے چہرے کا رنگ بھی دہک اٹھا تھا۔ عاٸشہ نے حمزہ کو مبہوت کھڑے دیکھا تو ایک دم سے کھنگاری۔ حمزہ چونک گیا ارسہ اور عاٸشہ مسکرا دیں ۔ جبکہ رابعہ اور ثمرین جو باتوں میں مصروف تھیں انھوں نے پرواہ نہ کی ۔