Home / Home / قسط ٧

قسط ٧

گرمی کا موسم اپنی پوری شدت کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ حمزہ کاروبار کے سلسلےمیں پنڈی گیا ہوا تھا وہ واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ شفیع محمد کھیت کے کنارے آہستہ آہستہ پکڈنڈی پر چل رہا تھا۔ حمزہ نے گاڑی شفیع محمد کے پاس جا کے روکی ۔

چاچا ۔!۔۔حمزہ نے شیشہ نیچے کیا تو اسے  لو کی حدت کا اندازہ ہوا ۔اس نے ہانک لگاٸی ۔

جی بیٹا!” ۔۔شفیع محمد نے شفقت سے پوچھا ۔

چاچا !….آ جاٸیں ۔۔میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں “۔  حمزہ نے کہا ۔بیٹے ۔۔

گاٶں کے لوگ۔”۔۔شفیع محمد جانتا تھا کہ حمزہ کا اس پر مہربان ہو جانا گاٶں کے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گا۔

چاچا!۔۔۔گاٶں کے لوگوں کو دفعہ کریں ۔۔آپ آٸیں “۔ حمزہ نٕے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا ۔

نہیں بیٹا ۔!….بہت شکریہ آپ جاٶ۔”…. شفیع محمد نے کہا اور آہستگی سے قدم اٹھانے لگا ۔

حمزہ کا ضمیر کسی طور اس بات پر آمادہ نہ تھا کہ وہ اس طرح ایک بوڑھے شخص کو گرمی میں پیدل جانے دیے۔حمزہ نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور دوسرے لمحے اس نے گاڑی بند کی ۔ گاڑی سے اتر کر شفیع محمد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگا ۔

بیٹے !….یہ کیا ہے ؟ “……شفیع محمد اس کی اس حرکت پر حیران رہ گیا ۔

چاچا !۔۔اگر آپ میرے ساتھ نہیں جا سکتے تو میں تو آپ کے ساتھ جا سکتا ہوں نا “…..۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا شفیع محمد کو شرمندگی نے آن گھیرا ۔

بیٹے !…۔۔شفیع محمد نے کچھ کہنا چاہا ۔

چاچا !۔۔سخت گرمی ہے ۔گاڑی میں چلیں “۔…. حمزہ کی باتوں نے شفیع محمد کو کچھ کہنے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ وہ احساس شرمندگی اور احساس احسان مندی کا بیک وقت شکار ہو گیا ۔

بیٹے !۔…. اتنی ہٹ دھرمی ٹھیک نہیں ہوتی”۔….. شفیع محمد نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔

چاچا ۔!..۔بڑے ضد نہ کریں تو بچے بھی نہیں کرتے۔ “…..حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔

شفیع محمد ہنس دیا ۔

اللہ تجھے اور عطإ کرے اتنا کہ تیری زندگی میں پیسے کی کبھی کوٸی کمی نہ رہے۔”…۔شفیع محمد دعاٸیں دینے لگا ۔ حمزہ مسکرایا اور اسے گھر اتارا۔۔

بیٹے! ۔۔پانی پی کے جاٶ۔۔سادہ پانی ۔”…. شفیع محمد نے منت بھرے انداز میں کہا ۔

چاچا !….پھر کبھی سہی ۔”…حمزہ نے کہا اور گاڑی موڑنے لگا ۔

حمزہ بیٹے !…..صرف ایک منٹ ۔”….۔شفیع محمد نے کہا اور گھر سےسادے پانی کا بھرا ہوا گلاس اٹھا لایا ۔ حمزہ نے مسکرا کر گلاس اس کے ہاتھ سے لے لیا ۔

سادہ پانی خلوص سے بھرا تھا۔  حمزہ نے پانی پیا اور شکریہ ادا کر کے گاڑی موڑ لی ۔ شفیع محمد اسے جاتا دیکھ رہا تھا اور مسلسل دعاٸیں دے رہا تھا۔ وہ گھر پہنچتے ہی کھانا کھا کر سو گیا۔

………………………………………

امی !۔۔میں علی سے ملنے جا رہا ہوں۔”….. حمزہ جاگا تو شام ہو چکی تھی ۔

حمزہ !…بیٹے تم نے خود کو کتنا مصروف کر لیا ہے ۔کالج پھر کام ۔۔تھوڑا وقت گھر والوں کو بھی دیا کرو نا ۔”….. رابعہ نے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔

امی! ۔۔یہ سب ضروری ہے نا ۔ ابو اکیلے کب تک کرتے ۔”……حمزہ نے کہا ۔

بیٹے پھر بھی ۔ اپنے لیے بھی تو کچھ وقت نکالنا چاہیے نا ۔”…. رابعہ نے کہا۔

اچھا امی۔!….۔ابھی جاٶں””۔۔حمزہ نے کہا تو رابعہ ہنس دی ۔۔

ڈھیٹ “۔۔انھوں نے زیر لب کہا ۔

مجھے فخر ہے آپ کے خیالات پر” ۔ حمزہ نے ماں کو گلے لگا کر کہا اور باہر نکل گیا ۔ رابعہ کھلکھلا کر ہنس دیں

علی اور حمزہ دونوں چوپال میں بیٹھے تھے۔

یار! ۔۔۔میں کہتا ہوں گاٶں والوں کو چاچا شفیع محمد سے اب تعلق بحال کرنا چاہیے۔”….حمزہ نے علی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔

حمزہ ۔! ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ؟”…..علی نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا ۔

اگر عدیم چاچا پنچاٸیت میں لوگوں کو کہہ دیں تو ہو سکتا ہے ۔ “….حمزہ نے گہری سوچ کے بعد کہا ۔




0تمھارا مطلب ہے کہ ابو کو میں کہوں ؟”…. علی نے قدرے غصے سے کہا۔

صرف تم نہیں ۔۔۔میں بھی بات کروں گا ۔ چاچا کا ناکردہ گناہ اب معاف ہونا چاہیے ۔ “….حمزہ نے ٹھوس لہجے میں کہا ۔

مجھے سمجھ نہیں آتی تم شفیع محمد کے حق میں اتنا کیوں بول رہے ہو ۔”……علی نے پوچھا ۔

یار! ۔۔اس بچارے کی کمر جھک گٸی ہے وہ مسلمان ہوتے ہوۓ ایک اچھوت بن کر رہ گیا ہے ۔”….. حمزہ نے ترس بھرے لہجے میں کہا ۔

علی گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔

اول تو یہ کہ دل پر کسی کا اختیار نہیں ہے اگر اس کی بیٹی نے کسی سے محبت کر لی ہے چاہے مراثی ہی سہی تھا تو مسلمان ہی نا ۔۔یہ اتنا بڑا گناہ نہیں” ۔۔حمزہ نے دلیل دی ۔

علی خاموش رہا ۔چوہدری عدیم جو ادھر ہی آ رہے تھے انھوں نے حمزہ کے آخری الفاظ سنے۔

حمزہ !…..تمھاری بات صحیح ہے لیکن گاٶں کے لوگ اعتراض کریں گے۔ “….چوہدری عدیم نے کہا ۔

چاچا!۔۔۔آٸیں بیٹھیں”  ۔۔ حمزہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔

علی جو نیم لیٹا ہوا تھا وہ بھی سیدھا ہو کربیٹھ گیا ۔

ابو ۔!….۔یہ حمزہ کو پتہ نہیں کیا دورہ پڑا ہے آج “۔۔۔علی نے حمزہ کی بات کو گھمانے کی کوشش کی ۔

چاچا جی ۔۔!….میں نے آج چاچا شفیع محمد کو دیکھا ہے ان کی حالت بہت بری ہوٸی ہے ۔ “…..حمزہ نے علی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوۓ کہا ۔

بیٹا !…۔۔اصل میں برادری والے میرے پہلے فیصلے سے بھی خوش نہیں ہیں ۔اگر ہم اس طرح بات کریں گے تو گاٶں کے لوگ میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ “…..چوہدری عدیم نے کہا ۔

چاچا جی !۔۔اگر آپ اجازت دیں تو میں صدیق چاچا سے بات کر دیکھوں” ۔۔حمزہ نے پوچھا ۔

صدیق چوہدری عدیم کے بعد علاقے کا دوسرا با اثر شخص تھا ۔

تم نہیں حمزہ ۔۔۔۔شفیع محمد خود” ۔۔۔چوہدری عدیم نے کہا ۔

میں بلواتا ہوں شفیع محمد کو یہاں ۔”…..یہ کہہ کر چوہدری عدیم نے ایک نوکر کو بلایا اور شفیع محمد کو بلانے کے لیے بھیج دیا۔

شفیع محمد نے چوہدری عدیم کے بلاوے کا سنا تو بھاگا آیا ۔

شفیع محمد! ۔۔یہ بچے تمھاری سفارش کر رہے ہیں کہ گاٶں والوں کو کہا جاۓ کہ تم سے رابطہ بحال کریں ۔”….. چوہدری عدیم نے شفقت بھرے لہجے میں کہا ۔

چوہدری صاحب ۔!….۔یقین جانیے مجھ میں یہ کہنے کی ہمت نہ تھی ۔ “….شفیع محمد نے سر جھکا کر عاجزی سے کہا۔

تمھیں اللہ نے بہت اچھا وکیل حمزہ کی صورت میں دیا ہے شفیع محمد ۔ “…..چوہدری عدیم نے حمزہ کا کندھا تھتھپایا ۔ حمزہ مسکرا دیا ۔ چوہدری صاحب !…..اللہ اس بچے کو مزید ترقی اور وقار دے اس کے دل میں بہت نرمی ہے ۔ شفیع محمد کی بات نے جہاں چوہدری عدیم کو متاثر کیا وہاں حمزہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آۓ جنھیں اس نے کمال مہارت سے اپنے اندراتار لیا۔

شفیع محمد !۔۔اب تم صدیق چوہدری سے ملو اور اس سے کہو کہ پنجاٸیت میں تمھیں بلایا جاۓ اور پنچاٸیت میں تم اپنی عرض پیش کرو۔ چوہدری عدیم نے سمجھایا ۔

چوہدری صاحب!….. میں آج ہی جاتاہوں چوہدری صدیق کے ہاں ۔۔ان سے بھی بات کرتا ہوں۔ “….. شفیع محمد نے کہا اور سلام کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

حمزہ! ۔علی تم لوگ اب اس معاملہ میں مکمل خاموش رہو گے۔ “….چوہدری عدیم نے حمزہ اور علی کی طرف باری باری دیکھا اور کہا ۔ ابوجی! ۔۔میں تو پھرچپ ہوں ۔۔اس حمزہ کو سمجھاٸیں ۔یہی بہت بولتا ہے۔”….علی نے  شکایتی لہجے میں کہا ۔




حمزہ!……۔تم بھی ۔۔۔اب چپ” ۔۔۔چوہدری عدیم نے ہونٹوں پر انگلی رکھی ۔

چاچا جی ۔۔۔مجھے چپ کروانے کے لیے چاۓ کے ساتھ بسکٹ ہو جاٸیں تو کیا ہی پیاری خاموشی ہو ۔ “…..حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ ماحول جو ایک دم سے کثیف ہو گیا تھا گل و گلزار ہو گیا ۔

ندیدے۔”۔۔علی نے ہنستے ہوۓ کہا ۔

جاٶ! ۔۔ارسہ کو بولو چاۓ بنا دے” ۔۔۔چوہدری عدیم نے کہا ۔ علی منہ بناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ ۔۔۔۔۔

پنچاٸیت میں گاٶں کے سبھی بااثر افراد اکٹھے ہوۓ تھے ۔ اس کے علاوہ ہر خاص و عام چوہدری عدیم کی حویلی میں برپا پنجاٸیت میں آیا تھا ۔چوہدری جی !…..میں اس پنچاٸیت کے سامنے اپنی ایک گذارش رکھنا چاہتا ہوں ۔ “…..شفیع محمد جو گاٶں کے لوگوں سے ہٹ کر ایک طرف ہو کر بیٹھا تھا ۔ اس نے کھڑے ہو کرکہا ۔

ہاں شفیع محمد کہو۔۔۔”…..چوہدری عدیم نے کہا ۔

سرکار میں اس گاٶں میں پیدا ہوا اور اسی میں مروں گا ۔ میری گذارش ہے کہ میری بیٹی کی غلطی کی سزا اب مجھے اور نہ دی جاۓ ۔ “…..شفیع محمد نےکہا ۔

شفیع محمد کی بات کی میں تاٸید کرتا ہوں۔اب گاٶں والوں کو اس سے قطع تعلق ختم کر دینا چاہیے ۔”….. چوہدری صدیق نے کہا ۔

چوہدری صاحب!….اگر ہم نے ایساکیا تو گاٶں کے بچے بچیوں کو شٸے مل جاۓ گی کہ وہ بھی ایسی غلطیاں کریں ۔ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر کہا ۔

محمود بھاٸی!…. ایسا نہیں ہوگا ۔جس نے بگڑنا ہے سو ہے جو نہیں بگڑے گا وہ نہیں بگڑے گا ۔ہمیں شفیع محمد کو اب اس اذیت سے نکالنا ہوگا”…..  چوہدری صدیق نے کہا ۔میں چوہدری صدیق کے فیصلے کی تاٸید کرتا ہوں۔

شفیع محمد ہمارے گاٶں کا بندہ ہے جو ہواسو ہوا ۔۔اب سب کو بھول جانا چاہیے۔ “…..چوہدری عدیم نے کہا ۔

چوہدری صاحب !…..ہم قریشی برادری آپ کے ساتھ ہیں۔ قریشی برادری والوں میں سے ایک نے کہا.

ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں چوہدری جی” ۔ ۔۔کاموں میں سے بھی ایک اٹھ کھڑا ہوا۔

اس طرح تقریبا سبھی نے اس فیصلے کی حمایت کی سواۓ چندایک افراد کے ۔




About admin786

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Follow by Email
Facebook
Twitter
Pinterest
WpCoderX