میں پوچھتی ہوں آج اس سے “…..عاٸشہ نے غصے سے کہا ۔ ۔
اس دن حمزہ کچھ لیٹ کالج پہنچا وجہ یہ تھی کہ نوفل بیمار تھا اور راحیلہ اپنے کالج ٹرپ کے ساتھ گٸی تھی ۔ عاٸشہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور ارسہ پیچھے ۔ دونوں ہی چپ تھیں ۔
حمزہ کی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہی تھی ۔
حمزہ! ۔۔تم نے عاٸزہ کو کیا تحفہ دیا اور کیوں” ؟…… عاٸشہ تھوڑی دیر بعد گویا پھٹ پڑی ۔
میں نے ۔میں نے کیوں تحفہ دینا تھا اور وہ بھی عاٸزہ کو”… ۔حمزہ کو گویا کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو۔اس نے ایک دم بریک لگاٸی گاڑی کے ٹاٸر چرچراۓ ۔
دیکھو حمزہ !…..اگر تمھیں اس سے کوٸی دلچسپی ہے تو بتاٶ۔ میں خود خالہ سے بات کرتی ہوں لیکن یوں اپنے بارے میں کہانیاں پورے گاٶں میں نہ بنواٶ”۔ ارسہ نے بھی قدرے غصے سے کہا ۔
مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کو ہوا کیا ہے”… عاٸشہ باجی ۔۔۔میں نے عاٸزہ کو کوٸی تحفہ نہیں دیا اور میرا دماغ خراب نہیں کہ اس لڑکی کے بارے میں سیریس ہو جاٶں” ۔ حمزہ نے عاٸشہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔
حمزہ!…. یہ مذاق نہیں ہے” ۔ عاٸشہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ ۔
باجی مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ مذاق نہیں ہے” ۔ حمزہ نے پریشانی سے کہا ۔
حمزہ آج اس عاٸزہ نے سارے کالج میں پھیلایا کہ تم نے اسے تحفے میں پن دیا ہے” ۔ ارسہ نے کہا ۔
اور اک لڑکی نے مجھے کہا کہ اپنے بھاٸی سے بولو مجھے بھی ایسا پن لا دے ۔ عاٸشہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔
باجی! ۔۔۔میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں “……. حمزہ نے حیرانی سے کہا ۔
حمزہ !۔۔پلیز اس سے بچو ۔ وہ تماشا بنا رہی ہے” ۔ ارسہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا ۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیسے بچوں جب میں اس سے بات تک نہیں کرتا “۔ حمزہ نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا ۔
دونوں لڑکیاں اس کی بات پر خاموش ہو رہیں حمزہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔گاڑی میں مکمل خاموشی چھا گٸی تھی ہر ایک اپنے اپنے خیال میں گم تھا
………………………………………………
ابوجی ۔ مجھے جانے دیں ۔اب ویزہ لگ گیا ہے” ۔ابوبکر نے باپ کی اجازت مانگی۔
وہ سب مردان خانے میں بیٹھے تھے ۔ ابو بکر چوہدری عدیم کا بڑا بیٹا تھا اس نے حال ہی میں گریجوایشن کیا تھا اور ملک سے باہر جانے پر بضد تھا ۔
اچھا خاصا تو گزارا ہو رہا ہے” ۔ چوہدری عدیم چاہتے تھے کہ وہ ان کی جگہ سنبھالے ۔
ابو جی!۔۔۔جانے دیں اسے “……… علی نے بڑا نہ ہونے کے باوجود ایک بڑے بھاٸی کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔
علی بیٹا !۔۔۔ابوبکر بڑا ہے ۔ اسے معاملات دیکھنا چاہیں زمینوں کے “……….چوہدری عدیم نے کہا ۔
ابوجی!…..یہ میرے بس کی بات ہی نہیں”….. ابوبکر نے بےبسی سے کہا۔
ابو جی !….ویسے بھی علی بھاٸی اگلے چوہدری ہیں گاٶں کے “…… عثمان جو ابھی باہر سے آیا تھا آتےہی باتوں میں شامل ہو گیا ۔
عثمان !…..تم ان معاملات سے واقف نہیں ہو۔”۔۔چوہدری عدیم نے عثمان کو پچکارا ۔
ابوجی!۔۔۔ابوبکر بھاٸی آج تک کسی جرگے میں نہیں بیٹھے ۔ان کو بھی معاملات کا نہیں پتہ ۔ آپ کےاصل جان نشین علی بھاٸی ہی ہیں “….. عثمان نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
باقی سب بھی جانتے تھے کہ عثمان سچ کہہ رہا ہے ۔
ابو! ۔۔عثمان صحیح کہہ رہاہے ۔مجھے آپ جانے دیں “…… ابو بکر نے دباٶ دیتے ہوۓ کہا ۔
ابو! ۔۔میری بھی یہی راۓ ہے ۔
علی نے بھی اپنی راۓ دی ۔ “……چوہدری عدیم سوچ میں ڈوب گٸے
علی کی راۓ باقیوں کی راۓ سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی سو اس کی راۓ نے ابوبکر کے لیے مہر کا کام کیا.
تم لوگوں نے اسے جانے کی اجازت کیوں دی۔ ہم اس کے بغیر کیسے رہیں گے “……۔ثمرین کو جب ابوبکر کے پاکستان سے جانے کا علم ہوا تو انھوں نے واویلا مچا دیا ۔
امی !……امی میں کوٸی ہمیشہ کے لیے تھوڑا ہی جا رہا ہوں ۔ آتا جاتا رہوں گا “…..۔ابوبکر نے ماں کو منانے کے لیے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
ابوبکر! ۔۔یہاں پاکستان میں تمھیں کوٸی بھی جاب مل جاۓ گی۔ تم نہ جاٶ”….. ثمرین نے کہا ۔
امی !….مسلہ جاب کا نہیں سعودی عرب میں جاب مل چکی ہے مجھے. ایک دفعہ مجھے جانے دیں میں یہ موقع ہاتھ سے گنوانے نہیں دینا چاہتا”……۔ابوبکر نے قاٸل کرنے کی کوشش کہا۔
ثمرین!۔۔۔کرماں والیے۔ جانے کی اجازت دے دو۔ اور اسے دعا دو”……چوہدری عدیم نے سفارش کرتے ہوۓ کہا۔
چوہدری صاحب !..۔۔آپ بھی یہی کہہ رہےہیں” ۔ ثمرین نےحیرانی سے چوہدری عدیم کی طرف دیکھا ۔
ہاں!….. بھلیے لوکے ۔ جوان اولاد کو منہ زور نہیں کرتے۔ اجازت دو بچے کو ۔ “……چوہدری عدیم نے سمجھایا ۔ ثمرین کچھ نہ بولیں ۔ کمرے میں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھاگٸی ۔
امی!… میں وہاں جا کر فون کرتا رہوں گا” ۔ ابوبکر نے کہا اور ثمرین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ۔
امی !۔۔۔آپ ایسے کریں گی تو میں کیسے جا پاٶں گا ۔ “…..ابوبکر نے اداسی سے کہا ۔
ابوبکر! ۔۔تم سمجھ نہیں سکتے میرے لیے تمھیں خود سے جدا کرنا کتنا مشکل ہے یہ تم کیا جانو”…۔۔ثمرین نے کہا ۔
امی آسان میرے لیے بھی نہیں لیکن میں یہ موقع گنوانا بھی نہیں چاہتا”۔……. ابوبکر نے دکھی لہجے میں کہا ۔
ثمرین نے اسے گلے سے لگا لیا ۔
اللہ تجھے کامیاب کرے ۔ ہر ہر لمحے میں تیرا نگہبان ہو” ۔ ثمرین اسے گلے سے لگاۓ مسلسل دعاٸیں دینے لگیں ۔ ۔۔
ابو بکر کو کمپنی کی طرف سے جاب ملی تھی اس کےکاغذات تیار ہو چکے تھے ۔اس کا ویزہ آ گیا تھا تمام تیاری ہو چکی تھی ۔ اسے شام کی چاۓ کے فورا بعد گھر سے نکلنا تھا ۔
بھاٸی!… ہم سب آپ کو چھوڑنے اٸیر پورٹ جاٸیں گے ۔”….. ارسہ چاۓ کے کپوں سے بھری ٹرے اٹھا کے اندر آٸی اور آتے ہی بولی ۔
ہاں !…۔یہ ٹھیک ہے” ۔ عثمان نے بھی خوشی سے کہا ۔
امی !…آپ کیا کہتی ہیں “۔۔۔علی نے ثمرین سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا ۔
جیسے تم لوگوں کی مرضی بیٹے “….۔ ثمرین کے چہرے اور لہجے سے اداسی جھلک رہی تھی ۔
امی اداس نہ ہوں میں وہاں پہنچتے ہی آپ کو کال کروں گا ۔”….. ابوبکر نے تسلی دینےکے انداز میں کہا ۔ ثمرین نے سر ہلا دیا ۔
امی !….میں جاتا ہوں حمزہ سے گاڑی لے آتا ہوں ۔ سب چلتے ہیں ۔”….. علی نے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا ۔ اس کے لہجے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کے جذبات کیا ہیں ۔ گاڑی چلانا اسے حمزہ سیکھا چکا تھا ۔
جاتا ہوں میں۔ “…..یہ کہہ کر علی کمرے سے اٹھ کر باہر نکل گیا ۔جب کاروبار بڑھا توحمزہ نے اپنے لیے ایک الگ آفس بنا لیا۔
اب اس کی دوکان میں کل ٣٠ افراد ملازم ہو چکے تھے۔ علی باٸیک پر حمزہ کے آفس پہنچا ۔
حمزہ مجھے تیری گاڑی چاہیے ابوبکر جا رہا ہے آج سعودیہ ۔۔اسے اٸیرپورٹ ڈراپ کرنا ہے ۔”…. علی نے دفتر میں حمزہ کے سامنے بیٹھتے ہوٸے کہا ۔
لٕے جا ۔ مجھے گھر سے نکلتے ہوۓ کال کر دینا میں سیدھا اٸیرپورٹ پہنچ جاٶں گا۔ “….حمزہ نے گاڑی کی چابی علی کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا۔
ٹھیک ہے جلدی میں ہوں ابھی “۔ ……علی نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
حمزہ نے اثبات میں گردن ہلاٸی اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا جیسے علی نے تھام لیا ۔ علی گاڑی لے کے گھر پہنچا تو سبھی انتظار میں تھے ۔
سب گاڑی میں سوار ہو کر اٸیر پورٹ پہنچے تو حمزہ بھی اٸیر پورٹ پر موجود تھا ۔
مبارک ہو بھاٸی! ۔ آپ کو موقع ملا ہے مقدس مقامات دیکھنے کا ۔”…. حمزہ نے ابوبکر کو گلے لگاتے ہوۓ کہا ۔
بہت شکریہ حمزہ! ۔۔ابوبکر نے خوش دلی سے کہا ۔
ہمارے لیے بھی وہاں جا کر دعا کرنا نہ بھولیے گا ۔”…. حمزہ نے کہا ۔
بھلا تم جیسے بندے کو کوٸی بھول سکتا ہے ۔۔ظالم میری ہڈیاں توڑ دیں۔ ابوبکر نے ہنستے ہوۓ کہا ۔ حمزہ بھی ہنستے ہوۓ اس سے جدا ہوا