“حمزہ تم شام میں مجھے ارسہ کی طرف چھوڑ آنا ۔ مجھے اس سے کچھ نوٹس لینا ہیں “۔ عاٸشہ نے حمزہ کو مخاطب کیا ۔
“باجی!….. جانے آنے کا کرایہ لگا کرتا ہے ۔ ایویں ای کوٸی نہیں لے جاتا “۔حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
“ہاں ہاں!… ۔ کندھوں پر اٹھا کے لے کے جانا میرے بھاٸی نے مجھے”۔ عاٸشہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا ۔
“اللہ نہ کرے عاٸشہ باجی ۔ ابھی آپ جیٸیں “۔ راحیلہ نے برجستہ کہا ۔
“ہیں !۔۔۔اب اس بات میں میرے مرنے کا کیا ذکر “؟…. عاٸشہ نے حیرانی سے کہا ۔
“آپ نے خود ہی تو کہا کہ کندھوں پر اٹھا کے لے جانا ۔کندھوں پر تو جنازہ جاتا ہے” ۔راحیلہ نے معصومیت سے کہا اور عاٸشہ نے فرش پر پڑا جوتا اس کی جانب اچھال دیا ۔
“پتہ نہیں ان کا دماغ کہاں کہاں چلتا ہے۔”.. ۔شام کی چاۓ کے بعد حمزہ عاٸشہ کو لے کر ارسہ کی جانب چلا آیا ۔
ارسہ نے ہلکے زرد رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ حمزہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور ہٹا لی ۔
“خالہ!… ۔ علی کدھر ہے “….۔اس نے ثمرین کو دیکھا تو پوچھنے لگا ۔
“علی ادھر ہی تھا ۔شاید اپنے کمرے میں ہو دیکھ لوں”….۔ ثمرین نے حمزہ سے کہا ۔
“میں دیکھ لیتا ہوں خالہ “…..۔ حمزہ نے کہا اور علی کے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔
“امی!…. ۔ ہم دونوں بھی پڑھنے جاتی ہیں”…… ۔ ارسہ نے کہا اور ثمرین نے سر ہلا دیا ۔ ۔۔
علی کمرے میں اندھیرا کیے آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا تھا ۔ حمزہ نے آگے بڑھ کے کمرے کی لاٸٹ آن کر دی ۔
“علی!…. تجھے کیا ہوا ۔ ایسے کیوں پڑا ہے “۔ حمزہ اس کے ساتھ بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا ۔
“کچھ نہیں بس تھک گیا ہوں” ۔۔۔علی نے ٹالنے کے انداز میں کہا ۔
“ہاں ہاں تھک گٸے ہو ۔۔سیدھی طرح بتاٶ ہوا کیا ہے”…. ۔ حمزہ نے ایک چپت علی کے کندھےپر رسید کرتے ہوۓ کہا ۔
“یار! ۔۔تنگ نہ کر مجھے ۔ میں سخت ڈپریس ہوں” ۔ علی نے منہ بناتے ہوۓ کہا ۔
“اگر ڈپریس ہے تو سیدھی طرح بتا مجھے ۔ کہ ہوا کیا ہے”؟ …..حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ کہا ۔
“یار!…. وہ چاچا شفیع محمد کی بیٹی نے مراثیوں کے بیٹے سے چکر چلا لیا اور وہ پکڑے گٸے بڑی بے عزتی ہوٸی چاچا شفیع محمد کی “….۔ علی تفصیل بتانے لگا۔ حمزہ خاموشی سے سننے لگا ۔
“اس بےعزتی میں چاچا شفیع محمد کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے “…۔ حمزہ نے تمام تفصیل سننے کے بعد کہا ۔
“ہیں!۔۔ چاچا شفیع محمد کا ہاتھ کیسے ہے” ؟ …..علی نے حیرانی سے کہا ۔
“دیکھو یار !۔۔میں کہتا ہوں چاچا خود نکاح کرواتا ۔ کیا رکھا ہے اس ذات پات میں۔”…… حمزہ نے سمجھانے کے سے انداز میں کہا ۔
“ذات پات نہیں حمزہ !۔۔یہ عزت غیرت کا مسٸلہ ہے۔ مراثیوں کے لڑکے کو چاچا اپنی بیٹی کیسے دے دیتا ۔ یہ فیصلہ تو ابا نے کیا ہے “…۔ علی نے تنک کر کہا ۔
حمزہ نے علی کا مزاج دیکھا تو چپ ہو رہا ۔ ان دونوں دوستوں کی سوچ میں یہاں اختلاف تھا
” نہ جانے یہ ریت رواج ہمارے مذہب سے اتنا متصادم ہونے کے باوجود قاٸم و داٸم کیوں ہیں”۔۔۔۔وہ خاموشی کی چادر جو اچانک سے حمزہ اور علی کے درمیان در آٸی تھی حمزہ کے الفاظ نے اسے پھاڑ ڈالا ۔
“مذہب اور معاشرت الگ الگ ہوا کرتی ہے حمزہ ۔اور شفیع محمد چاچا والا معاملہ معاشرت کا ہے مذہب کا نہیں “…….۔علی اب اٹھ بیٹھا تھا۔ “ہاں!…. تم ٹھیک کہتے ہو دوست”…… حمزہ نے سوچتے ہوۓ کہا ۔
“کاش !……ان ریت رواج کو مذہب کے مطابق ڈھال دیا جاۓ تو اس طرح کے معاملات اٹھیں ہی نہیں “۔ حمزہ نے کچھ لمحے توقف کے بعد کہا ۔ علی کے دل کا بوجھ بھی کچھ ہلکا ہو چکا تھا ۔
“یار!…. مجھے اور کوٸی دکھ نہیں صرف شفیع چاچا” ۔۔۔علی نے اپنے دکھ کا اظہار کیا ۔
“جو ہونا تھا سو ہوا ۔ آج کل تم کالج میں بڑے سیریس رہتے ہو” ۔۔حمزہ نے پوچھا ۔ باتوں کا رخ تبدیل ہو گیا
…..
……………………………………………………………………………………
بارہ ربیع الاول ہر سال کی طرح اپنے دامن میں برکتیں سمیٹے ہوۓ آیا تھا ۔ سبھی نے حسب توفیق نذر و نیاز کا اہتمام کیا تھا ۔رابعہ اور عاٸشہ نے مل کر کھیر بناٸی تھی اور گاٶں میں بانٹنے کا کام نوفل اور حمزہ کے سپرد کیا گیا تھا۔
“شفیع محمد کے گھر کوٸی نہیں جاۓ گا۔”….۔رابعہ نے کھیر کے کٹورے بھرتے ہوۓ کہا ۔
“امی!….. یہ عید میلاد النبی کی نیاز ہے”…. ۔ عاٸشہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا ۔
“اس کی بیٹی یاد نہیں۔ سارے گاٶں والوں نے شفیع محمد کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا ہے لوگ تھوکتے ہیں اس پر “….۔ رابعہ نے چڑتے ہوۓ کہا۔
“امی!”۔۔۔۔عاٸشہ نے کچھ کہنا چاہا تو حمزہ نے گردن ہلا کر منع کر دیا ۔
عاٸشہ چپ ہو گٸی ۔
کٹوریوں میں کھیر بھر دی گٸی ۔
نوفل اور حمزہ نے ٹرے اٹھاۓ اورکھیر بانٹنے کے لیے گھر سے باہر نکل آۓ ۔
“میں سب سے پہلے چاچا شفیع محمد کے گھر نیاز دے کے آٶں گا”۔حمزہ نے سوچا ۔۔۔
“تم اس طرف تمام گھروں میں نیاز دے کے گھر جاٶ ۔ میں اس طرف جاتا ہوں”….. اس نے ہاتھ سے باٸیں جانب اشارہ کیا اورنوفل نے گردن ہلاٸی۔
دونوں بھاٸی ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر نیاز دینے لگے جب حمزہ کو یقین ہو گیا کہ وہ نوفل کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے تو اس کے قدم آپوں آپ شفیع محمد کے گھر کی جانب بڑھ گٸے ۔
“چاچا !…۔۔۔نیاز لے لو۔۔حمزہ نے کھیر سے بھری کٹوری شفیع محمد کی جانب بڑھاٸی ۔۔۔
“پتر!…… تم واحد ہو جس نے نیاز دی ہے ہمیں ۔ اللہ تمھیں اتنا عطإ کرے کہ کبھی کمی ہی نہ ہو” ۔ شفیع محمد نے بھیگی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا ۔ دعا دی اور کٹوری لے کر گھر کے اندر چلا گیا۔
جب وہ واپس آیا تو کٹوری میں میٹھے چاول بھرے تھے حمزہ نے کٹوری شفیع محمد کے ہاتھ سے لی اور چوہدریوں کی حویلی کی جانب بڑھ گیا ۔ ۔۔
“عید میلاد النبی مبارک ہو بھاٸی” ۔ابوبکر گھر کے باہر ہی کھڑا تھا ۔حمزہ نے مبارک باد دی تو ابوبکر نے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
“بھاٸی!…… یہ نیاز”….. ۔ حمزہ نے کٹوری اس کی جانب بڑھاٸی ۔
“یار! ۔۔خود ہی دے آ نا امی کو” ۔۔ابوبکر نے بےزاری سے کہا اور حمزہ تابعداری سے اندر کی جانب بڑھ گیا ۔
“یہ نیاز “۔۔ارسہ سفید لباس میں ملبوس تھی ۔
عام سے نقوش اس سفید لباس میں کسی مقدس فرشتہ سے کم نہ لگ رہی تھی ۔ حمزہ نے سرسری سا اس کی جانب دیکھا اور نگاہیں جھکا لیں۔ ارسہ نے کٹوری پکڑی اور کچن کی جانب بڑھ گٸی۔ ۔۔۔۔۔