مجھے تمھاری عزت عزیز ہے ارسہ ہے اپنی محبت سے زیادہ عزیز” ۔ حمزہ نے چشم زدن میں ارسہ کو مخاطب کر کے کہا
اگرچہ اس کے لیے یہ سب سہنا بے حد مشکل تھا کیونکہ اس نے جو بھی چاہا ۔جس چٕیز کے لیے جستجو کی وہ اسے حاصل ہوٸی ۔
ارسہ حسب معمول اسے صبح بخیر اور شب بخیر کے میسج کرتی ۔
وہ اسے جواب بھی دیتا ۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ نہ رابطہ توڑ سکتا تھا اورنہ رابطہ بحال رکھنا چاہتا تھا ۔
حمزہ ۔!………..بیٹے خیر تو ہے نا ؟ تم کب سے یونہی لیٹے ہوۓ ہو ۔ “……رابعہ نے اس کے پاس بیٹھتےہوۓ کہا۔
امی !۔ تھک گیا ہوں ۔ بہت تھک گیا ہوں ۔”………….. حمزہ کی آنکھوں میں لال ڈورے شدت ضبط کے غماز تھے۔
حمزہ کوٸی کام کی پریشانی ہے ؟ “……….رابعہ نے کہا ۔کام کی پریشانی کیا ہونی ہے
امی!…… ۔ بس تھکن ہے تھوڑا سو لوں گا تو ٹھیک ہوجاٶں گا ۔”…… حمزہ کے چہرے پر تکلیف کے آثارتھے۔
میرا بچہ! ۔۔نظرلگ گٸی ہے تمھیں۔ ٹھہرو میں مرچیں لے کے آتی نظر اتارتی تمھاری۔”…….. رابعہ نے محبت بھرے لہجے میں کہا ۔
حمزہ خاموش رہا۔
جس کو محبت کا روگ لگ جاۓ اس کو کوٸی اورنظر کیا لگنی ۔ وہ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہیں پایا۔
رابعہ باورچی خانے سے مرچیں لے آٸی ۔اس کے سر پر سے گھما کے لے گٸیں۔ حمزہ نے ماں کو دیکھانے کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔ رابعہ بیگم نے حمزہ کی بند آنکھیں دیکھیں تو انھیں تسلی ہوٸی ۔وہ دبے پاٶں لوٹ گٸیں
………………………………………………………..
علی!…… بیٹا ۔تمھاری بلقیس خالہ نے ارسہ کی شادی حمزہ سے کروانے کی بات کی ہے “۔ علی اپنے کمرے میں نیم دراز موباٸل استعمال کر رہا تھا جب ثمرین نے علی کے پاس بیٹھتے ہوۓ رازدارانہ انداز میں کہا۔
امی !….۔ آپ نے ابو سے بات کی ۔ حمزہ میرا دوست ہے اور بہت اچھا خیال رکھنے والا ہے۔ “…..علی نے کہا اس کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گٸی تھی۔
میں نے تمھارے ابو سے بات کی وہی ذاتیں درمیان میں آ گٸی ہیں۔ “…..ثمرین نے دکھ سے کہا ۔
امی ۔!…. آپ کیا کہتی ہیں ۔میں بات کروں ابوسے ؟”…….علی نے راۓ پوچھی ۔ ق
اٸل کرنے کی کوشش کر دیکھو ۔ ہو سکتا ہےوہ قاٸل ہو ہی جاٸیں ۔”….. ثمرین نے بے بقینی سے کہا۔
امی ۔!…..میں پوری کوشش کروں گا ۔ “……علی نے کہا ۔
ثمرین کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گٸی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ علی کسی کو بھی قاٸل کر سکتا تھا۔وہ اس کے پاس سے اٹھ گٸی ۔ علی تھوڑی دیر بعد اٹھ کے چوپال میں آگیا۔ جہاں چوہدری عدیم کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ چوہدری عدیم کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اس بات کی غماز تھی کہ ماحول خوشگوار تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اٹھ کر چل دیے ۔
آٶ علی!…. ۔ بیٹھو ۔۔تم سے ضروری مشورہ لینا ہے ۔ “….چوہدری عدیم نے کہا ۔
جی ابو!…۔۔علی تابعداری سے ان کے پاس جا بیٹھا ۔
بیٹا!….. ۔یہ چوہدری رشید صاحب جو ابھی اٹھ کر گٸے ہیں ہماری ارسہ کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگ رہے تھے ۔ “….چوہدری عدیم نے کہا ۔
ان کا بیٹا اچھا خاصا کام کر رہا ہے کردار کا بھی ٹھیک ہے ۔”….. چوہدری عدیم تفصیلات بتا رہے تھے ۔
ابو !۔۔وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ کا حمزہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ “……علی نے موقع محل دیکھ کر بات کی۔
یہاں حمزہ کہاں سے آ گیا ؟ “……..چوہدری عدیم کا گویا منہ ہی کڑوا ہو گیا ۔
ابو!۔۔وہ امی۔”۔۔علی گڑبڑایا ۔
تمھاری ماں کو میں نے کل بھی سمجھایا تھا پر اس کے دل و دماغ میں جو خناس بھر جاۓ۔ وہ پھر اللہ ہی نکالے ۔”………. چوہدری عدیم نے چڑتے ہوۓ کہا ۔
ابو!……… حمزہ کو ہم بچپن سے جانتے ہیں ۔”………….علی نے کہا ۔
تمھیں اس کی ذات کا پتہ ہے ؟ یا نہیں ۔۔”…………چوہدری عدیم نے کہا۔
پتہ تو ہے ابو۔۔لیکن ذات انسان خود تونہیں بناتا نا۔ “…………علی نے قاٸل کرنٕے کی کوشش کی۔
لیکن اللہ نے انسان کو عقل اس لیے دی ہےکہ وہ اس کااستعمال کرے۔”……..چوہدری عدیم نےکہاتوعلی ایک لمحےکے لیے چپ ہو گیا ۔
ابو! ۔۔آپ اس معاملے کا دوبارہ جاٸزہ لیں ۔”…….. علی نے کہا۔
ہاں !۔۔میں اب جاٸزہ لوں گا لیکن چوہدری رشید کے بیٹے سے ارسہ کی شادی کا ۔ یہ بات تم اپنی ماں کو اچھے سے سمجھا دو” ۔ چوہدری عدیم نے تلملاۓ ہوٸے لہجے میں کہا