مجھے سمجھ نہیں آتی یہ بلقیس کیونکر حمزہ کے بارے میں ایسی بات کی ۔”…….ثمرین اور چوہدری عدیم بیٹھے تھے تب ثمری نے بات کی ۔ کیا بات” کی بلقیس نے ؟”…… چوہدری عدیم نے پوچھا ۔

کہہ رہی تھی کہ حمزہ اور ارسہ کی شادی کر دی جاۓ ۔ثمرین نے کہا ۔

ہوش میں تو ہےبلقیس ۔۔؟ اسے پتہ ہے کہ ہماری کیا ذات ہے اور وہ “حمزہ کی ۔ ؟”….. چوہدری عدیم نے قدرے غصے سے کہا ۔

اسے نہیں پتہ تھا نا” …..۔ثمرین نے کہا ۔

اب بتا دو اسے ۔ میں کسی صورت بھی ارسہ کی شادی برادری سے باہر نہیں کر سکتا ۔ اگر میں ہی ایسا” کرنے لگوں تو سوچو ۔گاٶں میں میری کون سنے گا ؟”………. چوہدری عدیم نے کہا ۔

“…..پھر بھی چوہدری صاحب ہمارے ہاتھوں میں پلا بڑا ہے حمزہ ۔ شریف ہے ۔کبھی اس کے بارے میں ایسی بات نہیں سنی جو قابل گرفت ہو ۔ ثمرین نے حمزہ کی وقالت کی

 وہ درست ہی تو  کہہ رہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خامی اس کا ہماری برادری سے نہ ہونا ہے اور آپ کو میرے بارے میں علم ہونا چاہیے کہ میرے فیصلے بدلا نہیں کرتے۔ “……..چوہدری عدیم نے سختی سے کہا ۔

ثمرین نے اپنے ہونٹ بھنچ لیے ۔




ارسہ جو چاۓ بھرے کپ ٹرےمیں رکھے لا رہی تھی اس نے بس باپ کا آخری جملہ ہی سنا ۔ اس کی روح تک کانپ گٸی گویا بات اسی کے بارے میں ہو رہی ہے ۔

اک لمحے کے لے اس کے پاٶں زمین میں گڑ گٸے ۔

تھوڑی دیر بعد حواس بحال ہوۓ تو وہ کمرے میں داخل ہو گٸی ۔ اسے دیکھ کر ثمرین اور چوہدری عدیم دونوں چپ ہو گٸے۔

کچھ بھی تھا وہ ان کی لاڈلی بیٹی تھی ۔ رات کو ارسہ نے حمزہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ۔

حمزہ! ۔آپ بلقیس خالہ سے ملے تھے ؟”….. ارسہ نے سلام کے بعد پوچھا ۔

ہاں! ۔۔ملا تھا ۔۔”……حمزہ نے کہا ۔

کیوں ملے تھے جب میں نے بتا دیا تھا کہ آپ کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی “……..۔ ارسہ نے پوچھا ۔

ارسہ ۔۔میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا ۔میں نے سوچا شاید کوٸی راہ نکل ہی آۓ ۔”……حمزہ نے تھکے ہوۓ لہجے میں کہا ۔

راہ تو کیا نکلتی امی اور ابو کی لڑاٸی ہی ہو گٸی”……. ۔ ارسہ نے اداس لہجے میں کہا ۔

حمزہ ایک لمحے کو خاموش ہو گیا ۔

دیکھیں حمزہ! ۔۔۔جو نہیں ہو سکتا وہ نہیں ہو سکتا لیکن میری زندگی میں میرے دل میں آپ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور رہے گی” ۔ارسہ نے کہا ۔

ارسہ !…..میرے لیے یہ برداشت کرنا بےحد مشکل ہے مجھے یوں نہ آزماٶ۔”……. حمزہ نے کہا ۔

حمزہ !…..مجھے بتاٸیں میں کیا کروں ۔۔۔میں چاچا شفیع کی بیٹی نہیں ہوں ۔۔”……ارسہ نے چاچا شفیع کی بیٹی کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا ۔

میں تمھیں چاچا شفیع کی بیٹی جیسا بنانا بھی نہیں چاہتا لیکن اگر تم گھر میں بات کرو تو میں تمھارے گھر باقاعدہ رشتہ بھیج دوں گا ۔ “……حمزہ نے کہا ۔

میں گھر میں بات نہیں کر سکتی حمزہ ۔۔۔یہاں ابو کوٸی بات سننے کو تیار نہیں ۔اور اگر میں نے بات کی تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے”….. ۔ارسہ نے کہا ۔

ارسہ! ۔۔۔تو تم مجھے مار دو پھر ۔۔”….حمزہ نے کہا ۔

ارسہ کا حال ایسا تھا جیسے ایک طرف کھاٸی ہو اور دوسری طرف آگ اور جانا بھی ضروری ہو ۔

میں !…….آپ کو بھی نہیں مار سکتی ۔”……….. ارسہ نے کہا اور فون بند کر دیا ۔

میری زبان بھی بند رہے گی ارسہ ۔ میں اس سفید چادر کا بھرم کبھی نہیں توڑوں گا جو خود میں نے تمھارے سر پر رکھی ہے ۔ حمزہ نے سوچا اور آنکھیں موند لیں




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *