بلقیس خالہ کو حمزہ کا رویہ اس کی شخصیت نے بے حد متاثر کیا تھا۔

اگر ارسہ کا اس بچے سے رشتہ ہو جاۓ تو یقینا یہ اسے خوش رکھ سکتا ہے ۔ بلقیس خالہ نے سوچا اور دل ہی دل میں ارسہ کو دلہن بنے  سوچنے لگیں۔

میں جاتی ہوں آج ہی ثمرین کی طرف ۔”……. بلقیس خالہ نے اپنے شوہر سے کہا ۔

کس لیے” ۔۔سرمد خالو نے پوچھا ۔

آپ کو بتایا تو تھا کہ وہ لڑکا حمزہ آیا تھا ۔”…… وہ ثمرین لوگوں کے گاٶں ہی کا ہے۔ اس کے بارے میں بات کرنا ہے ثمرین سے۔ “…..بلقیس خالہ نے پھر سے تفصیل بتاٸی ۔

تم ضرور بات کرو ثمرین سے لیکن یاد رکھنا کوٸی ایسی بات نہ کر بیٹھنا جو تمھارے اورتمھاری بہن کے درمیان لڑاٸی کا سبب بن جاۓ۔”……… سرمد خالو نے سوچتے ہوۓ کہا ۔

نہیں!….. نہیں ۔میرا کوٸی بیٹا تو ہے نہیں بیٹی اپنے گھر کی ہے یہ بات ثمرین بھی جانتی ہے۔ مجھے ارسہ اپنی گڑیا کی طرح عزیز ہے۔ “….بلقیس خالہ نے کہا۔

چلیں !۔۔میرے ساتھ ۔۔اٹھیں تیار ہوں ۔۔”…..بلقیس خالہ نےکہا سرمد خالو نے سر ہلایا اور اٹھ کھڑے ہوۓ۔ ایک گھنٹے میں وہ ثمرین کے گھر تھے ۔

بلقیس خالہ ۔!…..کیسی ہیں آپ ۔۔”……دروازہ کھولنے والا علی تھا۔

میں ٹھیک ہوں ۔۔۔تم ٹھیک ہو مجھے کمزورسے لگ رہے ہو ۔”……۔بلقیس خالہ نے علی کو سر سے پاٶں تک دیکھتے ہوۓکہا۔

نہیں تو خالہ ۔!….کیسے ہیں خالو “۔۔علی نے پہلے بلقیس سے کہا اور پھر سرمد صاحب کے گلے لگ گیا ۔



جیتے رہو ۔۔”…..سرمد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

آٸیں نا “۔۔۔علی نے انھیں گزرنے کے لیے راستہ دیا ۔

وہ دونوں آگے بڑھ گٸے علی دروازہ بند کرکے ان کے پیچھے ہو لیا ۔

ارسہ! ۔امی۔۔!خالہ خالو آۓ ہیں۔”…..علی نے چہکتے ہوۓ آواز لگاٸی ۔

السلام علیکم !۔۔کیسے ہیں خالو۔خالہ ۔”…….ارسہ خوشی خوشی بلقیس اور سرمد صاحب سے ملی۔

جیتی رہو !۔۔۔سرمد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بلقیس خالہ نے اسے گلے سے لگایا ۔

علی ۔!….تمھارے اباکدھر ہیں ؟ “…..سرمدصاحب نے پوچھا ۔

وہ باہر ڈیرے پر ۔میں انھیں بلا لاتا ہوں ۔”…… علی نے کہا ۔۔۔

نہیں انھیں بلانے کی ضرورت نہیں ۔ چلو ہم ادھر ہی چلتے ہیں۔”…..سرمد صاحب نے کہا ۔

چلیں !۔۔ارسہ چاۓ بنا کر مجھے مس بیل دینا میں آ کے لے جاٶں گا ۔”….. علی نے کہا۔

ٹھیک ہے۔ “……جب سے ابوبکر ملک سے باہر گیا تھا علی ہی گھر کا بڑاچکا تھا ۔

وہ گھر زمینوں کے سب معاملات دیکھتا تھا۔

آٶ۔!۔۔میرے کمرے میں چلو آرام سے بیٹھیں گے ۔”……ثمرین نے چہکتے ہوۓ کہا ۔ اوردونوں اس کے کمرے کی جانب بڑھ گٸیں ۔

ثمرین !…. یہ تمھارے گاٶں میں جو لڑکا ہے حمزہ ۔۔کیسا ہے وہ ؟”….۔۔بلقیس نے پوچھا۔

بہت اچھا ۔نیک شریف میرے بیٹوں کے ساتھ بہت اچھی دوستی ہے اس کی ۔ اس کے بارے میں کبھی کوٸی بری بھلی نہیں سنی ۔ “……ثمرین نے تعریفوں کے پل باندھ دیے ۔

یہ ہماری ارسہ کے لیے بہترین شخص نہ ہو گا ؟.. ارسہ سے رشتہ کروا دیتے حمزہ کا ۔۔”….بلقیس خالہ نے کہا ۔



بلقیس!….. ارسہ کے ابا کبھی نہیں مانیں گے ۔ ہم چوہدری اور وہ قریشی ۔ دو الگ الگ ذاتیں ہیں۔”….. ثمرین نے کہا ۔

ذاتوں کو دیکھنے کے بجاۓ تم لوگ اس کی شخصیت گھر بار دیکھو ۔ یہ دیکھو کہ وہ ارسہ کو خوش رکھ سکتا ہے یا نہیں ۔بلقیس نے کہا ۔ بلقیس!…. تم چوہدری صاحب کو جانتی ہو وہ کچھ بھی ہو جاۓ اپنے اصولوں پر قاٸم ہیں ۔میں پھر بھی بات کر دیکھوں گی۔”…. ثمرین نے کہا ۔ ہاں !….ضرور بات کر کے مجھے بھی بتانا میں معاملہ آگے بڑھا لوں گی۔”….. بلقیس نے کہا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں ۔

اتنے میں ارسہ چاۓ لے آٸی ۔

بیٹا !…..ڈیرے پر  بھیج دی چاۓ ؟”….. ثمرین نے پوچھا۔

جی امی۔!بھیج دی “…………. ارسہ نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ امید اور ناامیدی کے درمیان کسی پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا ۔کبھی تو پر امید ہوجاتا اور کبھی ناامیدی کی اتھاہ گہراٸیوں میں جا ڈوبتا۔ بلقیس خالہ نے پتہ نہیں بات کی ہو گی یا نہیں ۔۔۔اپنافون نمبرتومیں دے آیا تھا انھیں ۔ وہ تین دن سے گاہے بگاہے یہی سوچ رہا تھا۔

اسے شدت سے بلقیس کی کال کا انتظارتھا ۔ بالآخر اس کا انتظار ختم ہوا ۔ بلقیس کی کال آ ہی گٸی ۔

حمزہ بیٹے! ۔۔میں نےثمرین سے بات کی ہے امید زیادہ نہیں ہے ۔ انھوں نے بھی ذات برادری ہی کی بات کی ہے۔ لیکن میں پھر بھی انھیں قاٸل کرنے کی کوشش کروں گی ۔ “……بلقیس نے کہا ۔

خالہ!۔۔۔حمزہ کے منہ سے کوٸی اور لفظ ادا نہ ہوا ۔

بچے!…. اللہ سے دعا کرو ۔”……… بلقیس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

حمزہ اک لمحے کے لیے ڈھے سا گیا ۔ اس نے انجانے ہی میں سہی ارسہ کو اپنی خوشیوں کا محور بنا لیا تھا۔  اس نے ان گنت خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیے تھے جن میں سے ہر خواب ارسہ کے نام کا تھا۔وہ اپنے دفتر سے اٹھ کر گھر آ گیا ۔

حمزہ خیریت ہے ؟ آج جلدی آ گٸے ۔ “……رابعہ نے حیرانی سے پوچھا۔

ان کا یہ بیٹا اپنی دھن کا پکا اور بے حد محنتی تھا۔

امی ۔طبیعت خراب ہے کچھ ۔”……. حمزہ نے ٹالا ۔

اپنے گھر میں کوٸی بھی اس کی واردات دلی سے واقفیت نہیں رکھتا تھا۔

وہ بات کرتا بھی تو کس سے ؟  چاۓ پیو گے ؟ “……رابعہ نے پوچھا ۔

نہیں !…..امی بس سونا چاہتا ہوں”۔ حمزہ نے کہا ۔

اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر دو دے ۔ اس کی اتنی بڑی خواہش کا خون ہونے کو تھا ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *