ارسہ کے دل میں حمزہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا ۔اب تقریبا روزانہ ہی وہ اس کا حال چال پوچھنے لگی تھی ۔
“حمزہ رات کا کھانا ضرور کھا لیں”۔ اس روز بھی حسب عادت ارسہ نے حمزہ کو مسیج کیا تھا۔
“ارسہ کو کیسے علم ہوا کہ میں نے کھانا نہیں کھایا”۔ حمزہ نے سوچا ۔ اور سوچ کر مسکرا دیا ۔
“اور جو میں نہ کھاٶں کھانا تو” ؟ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا ۔
“تو میں بھی کھانانہیں کھاٶں گی”۔ ارسہ کھانے کھانے کے لیے بیٹھی ہی تھی جب اس نے حمزہ کو مسیج کیا ۔
“نہ نہ آپ کھانا کھاٸیں ۔ میں بھی کھانا کھا لوں گا”۔حمزہ نے کہا ۔
کوٸی آپ کا خیال رکھنے لگے تو سب کتنا اچھا لگنے لگتا ہے ۔
زندگی میں ایک ایسا موڑ ضرور آتا ہے جب ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کا کوٸی ایسا ساتھی ہو جس پر وہ اپنا ہرایک طرح کا حق جما سکے ۔ ایسا ہی حمزہ کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔ ارسہ شاید اس کے لیے ایسا ساتھی تھی جس پر وہ ہر طرح کا مان جتا سکتا تھا ۔
“ارسہ آپ میری اتنی فکر کیوں کرتی ہیں “؟ ۔ حمزہ نے رات گٸے میسج کیا ۔
“کیونکہ مجھے آپ کا رویہ آپ کا انداز بہت پسند ہے”۔ ارسہ نے جواب دیا ۔
“آپ سوٸی نہیں “۔۔۔حمزہ نے ارسہ کے جواب پر توجہ دیے بنا سوال داغا ۔
“نہیں!.. نیند نہیں آ رہی تھی” ۔ارسہ نے جواب دیا ۔
بس آپ کو ہی سوچ رہی تھی ۔ارسہ نے سوچا لیکن حمزہ سے کہانہیں ۔
“کوشش کریں سو جاٸیں رات بہت ہو گٸی ہے”۔ حمزہ نے کہا ۔
“آپ بھی تو جاگ رہے ہیں نا “۔۔ارسہ نے جواب دیا ۔
“میں بس ابھی سو جاٶں گا ۔۔ایک دو ای میلز کرنا تھیں بزنس کے سلسلے میں” ۔ حمزہ نے کہا ۔
“حمزہ!… اپنا خیال رکھا کریں ۔ اپنی آنکھوں کے گرد ہلکے دیکھے ہیں” ۔۔ارسہ نے کہا ۔ حمزہ مسکرا دیا ۔
اس نے کبھی اپنی آنکھوں پر غور نہیں کیا تھا۔
“اب دیکھوں گا پہلے کبھی نہیں دیکھا “…۔ حمزہ نے کہا ۔
“میری آنکھوں سے دیکھیے گا کیونکہ اپنی آنکھوں سے آپ محبت سے نہیں دیکھ پاٸیں گے۔”… ارسہ نے کہا ۔
حمزہ مسیج پڑ کر چونک گیا۔
“آپ جانتی ہیں نا ۔ کاسٹ “۔ ۔۔حمزہ نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی ۔
“میرے لیے یہ ذات پات اہمیت نہیں رکھتی حمزہ “۔۔ارسہ نے کہا ۔
“لیکن اوروں کے لیے ۔ آپ کے گھر والوں کے لیے رکھتی ہے”۔ حمزہ نے کہا ۔ ارسہ نے مسیج کا کوٸی جواب نہ دیا۔
“سو جاٸیں”…. ۔ چند لمحے بعد حمزہ نے مسیج کیا ۔
“جی ٹھیک ہے” ۔… ارسہ نے جواب دیا ۔
حمزہ نے اگرچہ آنکھیں موند لیں تھیں لیکن ارسہ کا سراپإ اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا ۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ اسے سوچنے لگا تھا ۔ “میں کسی سے بات ضرور کروں گا “۔ حمزہ نے دل ہی دل میں سوچا ۔
اسے اورتو کوٸی نظر نہ آیا البتہ ارسہ کی ایک خالہ ایسی ضرور تھیں جو ان کی شاید مدد کرتیں ۔
“ہاں!.. میں خالہ سے بات کروں گا “…۔ حمزہ نے سوچا اور پر سکون ہو کر سو گیا ۔
دوسری جانب ارسہ کے کانوں میں حمزہ کے الفاظ گونج رہے تھے ۔ اس نے جو بھی کہا تھا سچ ہی کہا تھا۔ وہ جانے انجانے میں کانٹوں بھرے راستے پر چل پڑی تھی ۔ اسے خود بھی علم نہ تھا کہ آگے کتنی بڑی کھاٸی ہے جس میں وہ منہ کے بل گرے گی۔ ۔۔۔۔
……………………………………………………………………………..
مرد اور عورت کی دوستی کبھی دوستی رہ ہی نہیں سکتی کبھی نہ کبھی یہ دوستی محبت یا کم از کم کشش کا سبب ضرور بن جاتی ہے ۔ یہی ہوا تھا حمزہ اور ارسہ کے ساتھ۔ انھیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب دوستی نے محبت کا روپ دھارا ۔ حمزہ اپنے فیصلے پر قاٸم تھا ۔ اس کے گھر میں کسی کو اس کی دلی حالات کا علم نہ تھا یہاں تک کہ عاٸشہ کو بھی نہیں ۔
وہ ایک گرم دن تھاسورج اپنی تمازت سے زمین کی رنگت کو سنولاۓ جا رہا تھا۔
حمزہ ارسہ کی خالہ کے گھر چلا آیا ۔ ارسہ کی خالہ دوسرے گاٶں میں رہتی تھی ۔
“حمزہ!….. پتر ۔۔تم خیر تو ہے نا ؟ تمھارے گھر میں سب خیر ہے نا ؟ یا کوٸی خوشخبری کا نیوتا ( پیغام)”۔….. ارسہ کی خالہ نے اسے مہمان خانے میں بٹھاتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔
“خالہ جی!…. سب ٹھیک ہے بس مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے لیکن کسی کو علم نہ ہو کہ میں نے آپ سے کوٸی بات کی ہے” ۔ حمزہ نے رازداری سے کہا۔
“ہیں!۔۔۔پتر ایسی کیا بات ؟” ۔ ارسہ کی خالہ نے حیرانی سے پوچھا ۔
“خالہ !…..وہ آپ ارسہ کی امی سے میرے رشتے کی بات کریں اگر وہ ہاں کر دیں تو مجھے ضرور بتا دیں ۔ میں اپنے والدین کو بھیج دوں گا ان کے گھر”…۔حمزہ نے ججھکتے ہوۓ کہا ۔
“پتر! ۔۔ایسا کیا ہے کہ تم اپنےماں باپ کو پہلے نہیں بھیجنا چاہتے ؟ تم ان کے ڈھوک (گاٶں) کے ہی ہو “…۔ ارسہ کی خالہ نے کہا ۔
“خالہ! ۔۔۔ہماری ذات ۔۔۔بس آپ بات کریں نا” ۔ حمزہ نے منت کے انداز میں کہا ۔
“اچھا !….تو فکر نہ کرمیں بات کروں گی ۔ بیٹھ میں چاہ ٹکر (چاۓ کھانے) کا انتظام کروں “۔ ارسہ کی خالہ نے کہا ۔
“نہ خالہ نہ ۔ میں چلتا ہوں ۔ کچھ جلدی میں ہوں پھر سہی” ۔ حمزہ نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“حمزہ!…. پتر ۔۔۔کچھ کھا لیتا اتنی دور سے آیا ہے” ۔ ارسہ کی خالہ نے کہا ۔
“خالہ! ۔۔پھر سہی “۔۔حمزہ نے کہا اور ان کے گھر سے نکل آیا ۔ تمام رستہ وہ اسی بارے میں سوچتا رہا ۔
معاملہ اتنا سادہ نہ تھا ۔ اصل آزماٸش تو اب شروع ہونا تھی ۔