“عزت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے ۔ عزت کماتے کماتے ساری زندگیاں بیت جایا کرتی ہیں” ۔حمزہ قریشی کی آواز بولتے بولتے بھیگنے لگی تھی ۔۔۔
وہ مشہور ساٸیکالوجسٹ کے سامنے بیٹھا تھا۔ رابیل علی شہر کی مشہور ترین ساٸیکالوجسٹ تھی۔ ساٸیکالوجسٹس سے عموما وہ لوگ بات کیا کرتے ہیں جو ان کے دل و دماغ میں گرہ بنا دیا کرتی ہے۔
“یہ تو درست کہا عزت کمانےکےلیے عرصہ گزر جایا کرتا ہے ۔۔ڈاکٹر صاحبہ میں نے وہ چادر اسے خود خرید کر دی تھی۔میں نے وہ سفید رنگ کی چادر اس کے سر پر ڈالی تھی خود ہی اس کو داغدار کیونکر کر دیتا۔ کیسے اس چادر میں چھید کرتا۔ میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔لیکن یہ دکھ ۔۔۔بچھڑ جانے کا دکھ”۔۔۔حمزہ قریشی ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ اونچا قد گندمی کھلتا ہوا رنگ۔ ۔۔
“آپ کو دکھ کیا ہے ؟ کیا یہ دکھ ہے کہ وہ آپ کو نہیں ملی” ؟ رابیل نے پوچھا ۔
“شاید مجھے یہ دکھ بھی نہیں ۔۔میں جانتا تھا پر ایک امید تھی کہ شاید” ۔۔حمزہ نے کہا ۔
“جب آپ جانتے تھے تو پھر یہ دکھ اور اتنا شدید دکھ “۔۔۔رابیل نے کہا ۔
“ہاں ہےمجھے دکھ شدید دکھ۔ انتا شدید کہ میرا دل پھٹا جا رہا ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں مر جاٶں مجھے کچھ ہوتا کیوں نہیں ۔۔میرا دل کیوں نہیں پھٹتا۔میرے دماغ کی کوٸی رگ نہیں پھٹتی “۔حمزہ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا تھا۔
اپنے زندہ ہونے کا نوحہ سنا رہا تھا یا شاید اپنے نہ مرنے کا ۔ رابیل غور سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی ۔
“حمزہ آپ کا دل اس لیے نہیں پھٹتا کہ اللہ نہیں چاہتا کہ آپ مر جاٸیں”۔۔رابیل نے مذہبی کارڈ کھیلا۔۔
“اگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں مرجاٶں تو مجھ سے میری زندگی چھینی ہی کیوں۔ ارسہ میری زندگی تھی ۔۔وہ میری زندگی ہے”۔۔حمزہ نے پہلے تھی کہا اور پھر ہے پر زور دیتے ہوۓ کہا ۔
“اس لیے کہ آپ کو دوسروں کے دکھوں کا اندازہ ہو اور آپ معاشرے میں دوسروں کے لیے کام کر سکیں” ۔ رابیل نےکہا ۔
“کام میں کیا کام کر سکتا ہوں ۔میں صرف رو سکتا ہوں کچھ کر نہیں سکتا”۔ حمزہ نے اپنی کمزوری سےرابیل کو آگاہ کیا ۔
“آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔آپ کو کرنا چاہیے”۔ رابیل نے کہا ۔
“مثلا کیا ؟”.. حمزہ نے تنک کر پوچھا ۔
“مثلا یہ کہ تھوڑا وقت گزرنے دیجیے ۔۔۔پھر آپ کو بتاٶں گی تب تک اپنی زندگی کا مقصد آپ خود بھی تلاش کریں”۔۔رابیل نے کہا ۔
حمزہ نے اس کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہا ہو تم بے انتہا احمق ہو۔۔
رابیل مسکراٸی وہ اس طرح کی نظروں کی عادی تھی ۔
ہمارے معاشرے میں ان گنت ایسے لوگ ہیں جو اپنے دکھوں سے خود لڑتے لڑتے تھکنے لگتے ہیں ۔ پھر یہ دکھ ان کے اندر لاوا بن کر دہکنے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے دکھوں کا کسی اپنے کے سامنے اظہار بھی نہیں کر پاتے اورآہستہ آہستہ گھلتے رہتے ہیں۔ان لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی سواۓ تسلی کے چند بولوں گی ۔ مشکل وقت سے نکلنے کے لیے سہارے کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈڈیال گاٶں پنجاب کے سر سبز و شاداب گاٶں میں سے ایک ہے ۔ یہاں ہر سو ہریالی پھیلی ہوٸی ہے ۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے جبکہ کچھ نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بیرون ملک ملازمت کے لیے چلے جاتے ہیں۔ یہاں ابھی بھی ذات پات برادری ازم اپنے پورے زور کے ساتھ قاٸم ہے ۔ اس گاٶں میں جٹ ذات جنھیں عموما چوہدری کہا جاتا ہے کثیر زرعی علاقہ اور روپیہ پیسہ کے مالک ہیں۔
جٹ یا چوہدری اپنی ذات برادری سے باہرشادی نہیں کرتے خصوصا اپنی بیٹیوں کی شادیاں اپنے ہی خاندان میں کرتے ہیں البتہ بیٹوں کی ایک شادی خاندان ہی سے کی جاتی ہے جبکہ دوسری کی اسے اجازت ہوتی ہے۔
دوسری بڑی ذات جو اس علاقہ میں بستے ہیں وہ قریشی ہیں اگرچہ روپیہ پیسہ کے حساب سے انھیں غریب نہیں کہا جاسکتا لیکن چوہدریوں کی نسبت ان ک مالی حالات کمزور ہیں ۔
ان کے زیادہ تر لوگ یا تو چوہدریوں کی زمینوں پر کام کرتے ہیں یا پھر اگر کوٸی پڑھ لکھ جاۓ تو ملازمت کے لیے متحدہ عرب امارات ,سعوری عرب کا رخ کرتے ہیں۔
یہ لوگ بھی عموما خاندان ہی میں شادیاں کرتے ہیں لیکن متوسط طبقہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قدرے لبرل بھی ہوتے ہیں۔
یہ ڈڈیال گاٶں کی ایک بڑی حویلی تھی ۔ ایک طرف چوپال اور مردان خانہ تھا جہاں گاٶں کے پنچوں کی بیٹھک بھی تھی دوسری جانب گھر کا اندرونی حصہ تھا۔
چوہدریوں میں عدیم چوہدری کا ایک نام اک مقام تھا۔ اس کی بنیادی وجہ عدیم چوہدری کی انصاف پسندی تھی۔ ارسہ چوہدری تین بھاٸیوں کی اکلوتی بہن تھی اور لاڈلی بھی ۔ چوہدری خاندان کے سپوت ہونے کے باوجود ان بہن بھاٸیوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا.
عدیم چوہدری کو اپنی اولاد پر فخر تھا اور اولاد کو ان سے محبت۔ ارسہ چوہدری نے میٹرک کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا۔ اس کا داخلہ مقامی کالج میں کروا دیا گیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے سبھی لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے لگےتھے۔
“مبارک ہو خالہ ہم دونوں پاس ہو گٸی ہیں ۔ میں مٹھاٸی لے کر آٸی تھی” ۔ یہ عاٸشہ تھی ۔سکول کے دنوں ہی سے ہی ارسہ کی دوستی عاٸشہ سے ہو گٸی تھی ۔
عاٸشہ اسی علاقے میں رہنے والے قریشی خاندان کی بیٹی تھی ۔ دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا۔
“بہت مبارک بچے۔ بیٹھو میں تمھارے لیے چاۓ لے آٶں”۔۔ثمرین چوہدری ارسہ کی ماں تھی ۔
“خالہ ۔۔میرے ساتھ حمزہ بھی ہے اسے اندر بلوا لوں” ۔ عاٸشہ نے پوچھا ۔
“ویسے عاٸشہ پتر ۔۔ایسے پراٸیوں والی بات کیوں کی تم نے اور اس بچارے بچے کو گھر سے باہر کیوں روکا ہوا ہے ۔ حد ہو گٸی”۔ ثمرین نے عاٸشہ کو جھاڑ پلاٸی ۔
“علی ۔۔۔بیٹے یہ جھلی عاٸشہ حمزہ پتر کو باہر کھڑا کر آٸی ہے جا بلالے اسے اندر” ۔ ثمرین نے اپنے چھوٹے بیٹے کو ڈانٹا ۔۔۔
عدیم چوہدری کے بیٹوں میں علی ۔ عثمان اور ابوبکر سبھی کی حمزہ سے دوستی تھی۔
“عاٸشہ باجی ۔۔آپ بھی ویسے کمال کرتی ہیں”۔ علی نے گلہ کرنے کے انداز میں کہا.
علی حمزہ کا ہم عمر ہم جماعت تھا ۔ اور باہر کی جانب بڑھ گیا ۔ ۔
۔عاٸشہ اور ارسہ آپس میں باتیں کرنے لگیں ۔ ثمرین نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ ۔۔علی اور حمزہ باہر گلی میں ہی کھڑے ہو کر گپیں ہانکنے لگے ۔
قریشی خاندان اور چوہدریوں کے بچوں کی دوستی پورے گاٶں میں مشہور تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے باہر اسجد لاج کی تختی لگی تھی۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس گھر کے مکین زندہ دل اور خوش مزاج تھے۔اس گھرانے میں کل چھ افراد تھے ۔
حمزہ اور نوفل دو بھاٸی عاٸشہ اور راحیلہ بہنیں جبکہ ان کی ماں کا نام رابعہ تھا ۔
گھر میں اگر کوٸی سخت مزاج تھا تو وہ اسجد صاحب تھے ۔ ۔۔
“عاٸشہ باجی ۔۔چا پیسو ۔۔(چاۓ پیٸں گی)” ۔۔حمزہ شرارتی اور ہنسنے ہنسانے والا لڑکا تھا ۔۔
“اہاں ۔۔پیساں ۔۔(پیوں گی)”۔ عاٸشہ جو کچھ لکھنے میں مصروف تھی نے سر اٹھا کر کہا ۔تے
“جاٶ ۔۔بناٸی آنو ۔۔(تو جا کر بنا لاٸیں) “۔۔حمزہ نے شرارت سے کہا اور کمرے میں بیٹھے سبھی لوگ ہنسنے لگے۔
“اماں۔”۔۔۔عاٸشہ نے دہاٸی دی ۔۔۔
“جا میرا بچہ بنا لا چاۓ” ۔۔رابعہ نے پیار سے پچکارا ۔
“اٹھ جاٶ باجی ۔۔تھوڑی پتلی ہو جاٶ گی” ۔ یہ نوفل تھا جس نے لقمہ دیا ۔
“رامین تم اٹھو ۔۔میں پڑھ رہی ہوں” ۔ عاٸشہ نے رامین پر رعب ڈالا ۔
“ہاں ہاں ۔آج باجی نے ایٹم بم بنانے کا فارمولا ایجاد کرنا ہے “..۔ حمزہ نے رامین کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری ۔
“حمزے ۔۔۔۔سدھر جا” ۔۔عاٸشہ نے غصے سے کہا ۔
“میں سدھر سکتا ہوں آپ کے حسین ہاتھوں کی بنی چاۓ پی کر” ۔ حمزہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
عاٸشہ نے حمزہ کو غصے سے دیکھا۔
“ہاں ہاں تم تو جیسے چاۓپیتے ہی سدھر جاٶ گے ۔ تم وہ چیز ہو جو کبھی سیدھی ہو ہی نہیں سکتی” ۔ عاٸشہ نے حمزہ کو گھورتے ہوۓ کہا۔ “باجی جاٶ ۔۔چاۓ بنا لاٶ ۔۔۔واپس آ کر لڑ لینا” ۔ نوفل نے معصومیت سے کہا ۔
“نہ تو یہ نیک کام تم کیوں نہیں کرلیتے “۔ عاٸشہ نے نوفل سے کہا ۔
“کیونکہ میں نے نیک کام کرنے سے توبہ کر لی ہے” ۔ نوفل بھی باتوں میں کسی سے کم نہ تھا ۔
رابعہ ان سب کی پیار بھری نوک جھوک دیکھ رہی تھیں ۔
“اچھا بابا۔۔کوٸی بھی نہ جاۓ میں چاۓ بنا لاتی ہوں”.. ۔رابعہ نے مسکراتے ہوۓ سب کی جانب بار بار دیکھا اورچاۓ بنانے لیے اٹھ کھڑی ہوٸیں۔ اس گھر میں ایسی نوک جھوک اکثر چلتی رہتی تھی۔۔۔
بہت حسین ، دل چھو لینے تحریر۔ بھرپور کردار نگاری اور بے ساختہ اور حقیقی مکالمے ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ