ازطرف: میمونہ صدف
ُ پاکستان میں ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین حالات کچھ عرصہ پہلے کشمیر میں بھارتی بربریت کے نئے دور کے آغاز کے بعد کشیدہ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے ہر فورم پر کشمیر کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن کی سی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے زائد عرصہ سے بھارت نواز کشمیری سیاست دان زیر ِ حراست ہیں اور ریاست میں مکمل لاک ڈاؤن کی صورتحال میں الیکشن کی تیاری کی جارہی ہے۔بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد وادی میں پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق پہلی بارمقبوضہ وادی میں لیفٹیننٹ گورنر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقہ میں پہلی بار آئی اے ایس کے افسر گریش چندر کو لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ دیا گیا ہے، افسر گریش چندر وزیراعظم نیدر مودی کے قریبی ساتھیوں میں ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیو، لاک ڈاؤن کو دو ماہ سے زائد وقت کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصہ میں وادی کے مکینوں کو دواؤں اور خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ جبکہ کشمیری مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت بھی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر اور پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو بہتر طور پر پیش کرنے کی وجہ سے اقوام ِ عالم کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول ہو چکی ہے۔مختلف ممالک میں کشمیر ی عوام کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی خواہش ہے کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے دنیا آنکھیں چرانے لگے۔ بھارتی میڈیا اس مسئلہ کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے لیے پیش پیش ہے۔
بھارتی عدالت انصاف بھی کشمیر کے معاملے میں حکومت وقت اور وزیر اعظم نرنید ر مودی کی حلیف ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کسی صورت بھی کشمیر کے معاملہ میں غیرجانبدارانہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ کشمیر کی تحریک آزادی خود کشمیری لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کے معاملہ میں ریاستی قانون کو بدلنے سے لے کر وادی میں افسپا جیسے کالے قانون کو رائج کروانے میں بھارتی سپریم کورٹ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔


بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کسی قسم کے انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی۔ بھارتی میڈیا کے چینل ڈی ڈی نیوز نے اپنے پروگرام دی کشمیر ٹروتھ میں کشمیر کے بارے میں ایک جعلی پراپیگنڈہ ویڈیو نشر کی ہے جس میں کشمیر کی وادی کو بالکل پرسکون قرار دیا گیا ہے۔اس ڈاکو مینٹری میں کچھ پاکستانی سوشل میڈیا پوسٹس کو ہدف بناتے ہوئے انھیں غلط قرار دیا گیاہے۔ بھارت کے مطابق جموں و کشمیر میں ترقی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ بھارت اپنے عوام اور اقوام عالم کی آنکھوں میں اس طرح کی ڈاکومینٹری اور ٹی وی پروگرامز کر کے دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنے مظالم کو چھپانے کے لیے پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی میڈیا رپورٹس کو ایک پراپیگنڈا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سول یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جموں و کشمیر کے حالات بہتر ہیں تو کشمیر میں کرفیو کیوں لگایا گیا ہے؟ کیوں انسانی حقوق کے اداروں کو اس علاقہ میں جانے کی اجازت نہیں؟ بھارت جو خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا آج خود ہی ان قراردادوں کو ماننے سے انکاری ہے۔
ایک طرف تو بھارت ہے جہاں اقلیتوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا ہے۔ اقلیتوں کی مذہبی بنیادوں پر نسل کشی جاری ہے۔ گاہے بگاہے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے اقدامات دنیا کی نظروں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان نے بھارتی سکھ یاتریوں کو بابا گرونانک کے جنم دن کی رسوما ت میں شرکت کی دعوت دی ہے اور سکھ یاتریوں کو اس ماحول کے با با گرونانک کے مزار پر حاضری سے روکا نہیں گیا۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے نہ صرف سکھ یاتریوں کو ان کی مذہبی رسومات میں شرکت کی دعوت د ی ہے بلکہ مقامی آبادی کو ان یاتریوں کو کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کرنے کے لیے ہدایات دیں۔ پاکستان کی جانب سے کرتار پور راہداری کو کھول دینے کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مذہب کا احترام کرتا ہے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا اس اقدام کو بھی غلط رنگ دینے کے درپے ہے۔
بھارت ہر قسم کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے چاہے وہ سیاسی سطح پر ہوں یا پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں کی صورت میں۔ اسی سلسلہ میں بھارت افغانستان کی سرزمین کو بھی استعمال کرتا ہے۔ بھارت افغانستان میں عرصہ دراز اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بھارتی سفیر وینے کمار نے ایک تقریب میں دوMI-24v گن شپ ہیلی کاپٹر افغانستان کے وزیر دفاع اسداللہ خالد کے حوالے کیے گئے۔ افغانی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر امن وامان، دشمنوں کے حملوں سے بچاؤ اور افغانستان میں بہتر ی لانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ بھارت نے تین بلین ڈالر بھی افغانستان کو امداد کی مد میں دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر ان ہیلی کاپٹرز کا متبادل ہیں جو افغان طالبان کے حملوں میں تباہ ہو گئے تھے۔ بھارت کی یہ کوششیں افغانستان میں اپنے قدموں کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کی جارہی ہیں۔


ادھر ترکی کے بھارت میں سفیر شاکر اوزکان نے کشمیر کے بارے میں ترک لیڈر اور حکومت کے بیانیہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی دہشت گردی سے لڑنے میں گریز نہیں کرے گا۔ بھارت کے لیے یہ بات انتہائی حد تک ناقابل برداشت ہے کہ ملائیشیا اور ترکی جیسے معاشی طور پر مضبوط ممالک نے کشمیر کے موقف میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ دوسری جانب نئی دہلی کی جانب سے سائپرس کے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔بھارت کا یہ اعلامیہ ترکی کے مخالف ہے۔ دوسری جانب بھارت ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد بھی کم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ جو کہ ملائیشیا کی جانب سے کشمیر کے موقف پر مضبوط اقدام کے بعد کیا گیا۔ بھارتی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کسی بھی مسلمان ریاست کا اچھا دوست نہیں ہو سکتااور یہ کسی بھی وقت مسلمان ممالک کو اپنے مفادات کی خاطر دھوکہ دے سکتا ہے۔ ترکی اور ملائیشیا کشمیر کے اصولی موقف میں پاکستان کے ساتھ اس لیے بھی کھڑے ہیں کیونکہ ان ممالک کے ساتھ ہمارے قدیم برادرانہ تعلقات رہے ہیں۔
بھارتی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرتا آ رہا ہے۔حال ہی میں بھارتی میڈیا نے لائن آف کنٹرول پر جاری جھڑپوں اور ان میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کے جواب میں پاکستانی افواج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے غیر ملکی مندوبین کے ہمراہ لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا اور بھارتی میڈیا کی ہرزہ سرائیوں کا پول کھول دیا۔اس کے باوجود بھارتی میڈیا، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے سے گریز نہیں کرتا۔ واضع رہے! دنیا کے گلوبل ویلج میں تبدیل ہوجانے کے بعد جہاں معلومات کی ترسیل ہر خاص و عام کے لیے آسان ہو چکی ہے وہاں میڈیا کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو جہاں کئی چیلنچز کا سامنا ہے وہاں بھارتی میڈیا کے پراپگنڈہ کا بھی سامنا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو ان چیلنچز کا سامنا کرنے کے لیے خود کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔


One thought on “عالمی منظر نامہ اور بھارتی میڈیا”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *