زلزلہ زمین کی بھونچال کی کیفیت ہے جو زمین کی بیرونی سطح کے نیچے چتان کے پھٹنے ، آتش فشانی عمل یا اندرونی سطح میں کسی خلل کے سبب زمین کے کسی قشر کی لرزش ہے ۔
زلزلے کی سائنسی وجہ یہ ہئے کہ زمین کی تہ میں موجود tectonic plates جو کہ ازل سے حرکت میں ہیں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو سطح زمین پرزلزلہ کہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔زلزلہ دراصل زمین کی اندرونی سطح میں موجود لاوے کی وجہ سے زمین کی بیرونی سطح پرموجود چٹانوں کی کمزوری کی وجہ سے بھی وقوع پذیر ہوتا ہے ۔جس جگہ سے زمین کی بیرونی سطح پر موجود چٹانیں کمزور ہو جاتی ہیں اس جگہ سے زمین کے اندر موجود لاوا باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں بے انتہا انرجی پیدا ہوتی ہے جو کہ یا تو آتش فشانی کا سبب بنتی ہے یا زلزلوں کا ۔ یہ زلزلے بعض اوقات بے انتہا تباہی کا سبب بھی بنتے ہیں ۔
انسان نے اپنی رہائش کے مسائل کو چٹانوں اورپہاڑوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی شروع کر رکھی ہے جس کی بدولت زمین کی بیرونی سطح کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے ۔ اگر تاریخِ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زلزلوں کی تعداد آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے اس کی وجہ پہاڑوں اور چٹانوں کا بے دریغ کٹاؤ ہے ۔جب یہ چٹانیں ایک حد تک کاٹ دی جائیں گی تو زمین کی بیرونی سطح زمین میں موجود لاوے کو نہیں روک پائے گی اور اس طرح آتش فشانی عمل شروع ہو جائے گا ۔ حضرت انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درختوں کا بے دریغ کٹاؤ کیا جس کی وجہ سے قدرتی ماحول میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی ۔قدرتی درجہ حرارت بڑھا اور اوزون کی سطح جس نے زمین کو ایک غلاف کی مانند ڈھانپا ہوا ہے کمزور ہوئی ۔اوزون کی سطح کمزور ہونے کی وجہ کرہ ء ارض پر موجود گیشیئرتیزی سے پگھل رہے ہیں جو کہ دریاؤں ، سمندروں میں تغیانی اور زیر زمین لاوے کے دباؤ میں کمی کا سبب بن رہے ہیں ۔
زلزلوں کی دوسری بڑی وجہ زیزِ زمین لاوے کی اور چٹانوں کے درمیان وقفہ بھی ہے ۔ ایسی جگہوں کو earth quake belts کہا جاتا ہے اورزیادہ تر زلزلے ان بلٹس میں آتے ہیں ۔ زیرِ زمین لاوا اپنے اندر ایسی قوت رکھتا ہے جو زمین کی بیرونی سطح پر موجود پلیشس کو جنجھوڑ کر زلزلہ کا باعث بنتا ہے ۔
زلزلہ کی شدت تو معلوم کی جاسکتی ہے لیکن اس کی پیشگی اطلاع نہیں دی جا سکتی اس لیے اس کی تباہ کاریوں سے بھی بچنا ممکن نہیں ۔ اور انسان اس سلسلے میں توتقریبا بے بس نظر آتا ہے ۔ہر سال زلزلے پوری دنیا میں تباہی مچاتے نظرآتے ہیں ۔ ہر زمانے اور علاقے کے لوگوں کے زلزلے کے بارے میں مختلف خیالات رہے ہیں ۔ان خیالات کو کتابوں میں لکھا گیا ہے یا بعض روایات اور حکایات کی صورت میں سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں میں منتقل ہوئی ہیں ۔ ان حکایات میں سے چند ایک مشہور ہوئی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
قدیم یونانی ادب میں زلزلہ کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جن انسانوں کو مرنے کے بعد زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے وہ درحقیقت مرتے نہیں ۔بلکہ ان کی زمین کے نیچے ایک دنیا آباد ہے ۔ان مردوں کے بھی آپس میں گروہہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں ۔اپنے اختلافات کی وجہ سے ان کے درمیان جنگیں طویل بھی ہو جاتی ہیں ۔یہ مردے تلواروں اور بھالوں سے لڑتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین بھونچال کی سی کیفیت پیداہوتی ہے ۔ یہ بھونچال زمین کی بیرونی سطح کو بھی ہلا ڈالتا ہے اور زمین کی بیرونی سطح تھرا اٹھتی ہے ۔اس طرح زلزلے آتے ہیں ۔
قدیم ہندو ادب زلزلوں کی مختلف وجہ بیان کرتا ہے ۔ اس ادب کے مطابق زمین کوایک بیل نے اپنے سینگوں میں سے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے اوریہ بیل ایک کچھوے کی پیٹھ پر کھڑا ہے یہ کچھوا سمندر میں تیرتا رہتاہے ۔اس کچھوے کی رفتار بے حد سست ہوتی ہے۔جب یہ کچھوا اپنی جگہ تبدیل کرتا ہے تو بیل اپنا توازن قائم نہیں رکھ پاتا اور بیل کے سینگ پررکھی زمین بھی ہل جاتی ہے اس لیے زلزلے آتے ۔اس کے علاوہ اسی روایت کے ساتھ ساتھ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ بیل جب زمین کو ایک سینگ پر اٹھا ئے اٹھائے تھک جاتا ہے تو زمین کو ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے۔زمین فٹ بال کی طرح اچھل جاتی ہے جس کی وجہ سے زمین کی سطح پر بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔اور زلزلے آتے ہیں ۔
منگولیا چین کے رہنے والوں کے مطابق زمین کوایک بہت بڑے مینڈک نے فٹ بال کی ماننداپنی کمر پر اٹھا رکھا ہے جو کہ ترتیب وار وقفوں کے بعد اچھلتا رہتا ہے ۔ اس کے اچھلنے سے زمین ہلتی رہتی ہے۔کبھی یہ مینڈک آہستہ اچھلتا ہے تو کبھی طاقت سے ۔ کبھی اس کی رفتار زیادہ ہوتی ہے کبھی کم ۔زمین کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ مینڈک جب تھک جاتا ہے تو زمین کو ہوا میں اچھال دیتا ہے۔جب یہ زمین اچھالی جاتی ہے یا اچھلنے کودنے سے ہلتی ہے تو اسکی سطح پر بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ جس کے باعث زلزلہ وقوع پذیر ہوتا ہے ۔
مسلمانوں اور اہلِ کتاب کا عقیدہ ہے کہ جب انسان اپنی جہالت کی انتہاکر دیتا ہے ، برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، ان برائیوں میں حد سے آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنے رب کوبھول جاتا ہے اس وقت اﷲاس کو اپنی یاد کی طرف مائل کرنے کے لیے زمین کو جنجھوڑتا ہے تاکہ انسان اپنے رب کی جانب مائل ہو اپنے گناہوں پر تائب ہو کر نیکی کی راہ اختیار کرے لیکن انسان خوابِ غفلت سے نہیں جاگتا ۔ اﷲقرآن میں ارشاد ہوتا ہے
“اور اگر تم اﷲکے حکم سے رو گردانی کرو گے تو وہ تمھاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔”(سورت محمدﷺ۔ آیت ۳۸)
امام انب القیم اپنی تصنیف الجواب الکافی لمن سال عن الدوا ء الشافی میں زلزلے کے متعلق کئی روایات کا ذکر کرتے ہیں ۔ حضرت انسؓ نے فرمایا ۔
میں اور ایک شخص حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے میرے ساتھی نے سوال کیا ۔ “زلزلے کیوں آتے ہیں ؟ ”
حضرت عائشہؓ نے فرمایا ۔کہ” جب لوگ زنا کو حلال کرلیں ، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ بنا لیں تو اﷲتعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلپ برپا کر دے بس اگر اس علاقہ کے لوگ توبہ کر لیں اور بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لییہلاکت ہے ۔ ”
اس شخص نے عرض کیا ۔” کیا زلزلہ عذاب ہوتا ہے ؟ ” حضرت عائشہؓ نے فرمایا” اہل ایمان کے لیے عبرت و نصیحت ہوتی ہے اور جو صالحین اس میں جان بحق ہو جائیں ان کے لیے رحمت ہے ( یعنی شہادت کا مرتبہ ہے ) البتہ کافروں کے لیے تو زلزلہ قہر اور عذابِ الٰہی ہے” ۔ (راوہ ابنِ ابی الدنیا )
ابنِ ابی الدنیا نے ایک اور مرسل روایت ذکر کی ہے کہ نبی پاک ﷺ کے زمانہ میں زلزلہ کا جھٹکا محسوس ہوا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک زمین پر رکھا اور فرمایا ۔
” اے زمین تو ساکن ہو جا ۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ۔تمھارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو “۔ اس کے بعد زلزلہ رک گیا ۔
حضرت عمر ابنِ خطابؓ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کئے گئے تو حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔
” اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے اگر دوبارہ جھٹکا محسوس ہوا تو میں تم لوگوں کواس شہر سے بے دخل کروں گا ۔”
مسند احمد سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ “تم لوگوں نے کیا نئی روش اختیار کی ہے ؟ رسول اﷲﷺ کی رحلت کے بعد اتنی جلدی تمھارا حال بگڑ گیا ہے ؟”
حالیہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا شدت کے اعتبار سے سب سے تیز ترین زلزلہ تھا جو تقریبا پورے ملک میں محسوس کیا گیا لیکن اس زلزلے میں متاثر ہونے والا بڑا صوبہ ، صوبہ خیبر پختون نخواہ اور شمالی علاقہ جات
جن میں دیر ، سوات ، چترال وغیرہ شامل ہیں ۔ اس زلزلے کی شدت کو اگر مدِ نظر رکھا جائے تو نقصانات کم ہوئے ۔ حسبِ روایت اس آفت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ۔ کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ نقصان کم اس لیے ہوا کہ عمارات مضبوط بنائی گئی تھی اور زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں تھا ۔ لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ کیا اﷲ کے غضب کے آگے کوئی چیز ٹھر سکتی ہے ؟ نہیں ۔سائنسی وجوہات کچھ بھی ہوں اس زلزلے نے ایک لمحے کو سب کو اﷲکی جانب متوجہ کیا اور اس ذاتِ باری تعالی ٰ کا کرم شاملِ حال رہا کہ بہت زیادہ تباہی اور 2005 کے زلزلے جتنے نقصانات نہیں ہوئے ۔ مسلمان ہونے اور اہلِ کتاب ہونے کے ناطے ہمیں اﷲ سے معافی مانگنی چاہیے، اس سے رحم کی درخواست کرنی چاہیے ۔ اپنے اعمال پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ۔ حکومتی اور میڈیا کی سطح پر اجتماعی دعائیں منعقد کی جانی چاہیں ۔