خدا کی محبت کیا ہے ؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی کہتا ہے خدا ہر طرف ہے، تو کوئی کہتا ہے کے وہ بہت اونچا بیٹھا ہے ۔ مجھ سے کسی نے یہ سوال پوچھا خدا اگر انسان سے محبت کرتا ہے تو وہ اس قدر مشکلات کیوں دیتا ہے ؟

اس کے جواب میں میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ۔ میں نے اس بات کو بہت سوچا ۔بہت سوچا ۔ لیکن جواب ندارت ۔

نیوٹن کے مطابق جس سوال کا جواب نہ ملے اس کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ سو بالآخرمیں نے اس کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔
اس دن فضا میں خنکی کا عنصر زیادہ تھا ۔آسمان سے پانی برسا کر رب کریم نے تمام کائنات کو غسل کروا دیا


تھا ۔ہر چیز گویا پاک اور صاف تھی ۔میں بارش میں کھڑی سامنے نظر آتے درخت کو دیکھ رہی تھی ۔

بارش کے تیز قطرے اس کے وجود کو کہیں کہیں سے چھلنی کرتے ہوتے برستے جاتے تھے ۔ ان قطروں نے اس کے کتنے ہی پتوں کو زخمی کیا ہو گا ۔لیکن یہ بارش اس کے لیے کس قدر ضروری ہے ۔

گویا زندگی۔

اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جسے وہ رحیم و کریم مجھ سے خود مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے جیسے کوئی ماہر مالی جس بھی پودے کو زیادہ پسند کرتا ہے اس پر توجہ زیادہ کرتا ہے اس کی تراش خراش باقی پودوں کی نسبت زیادہ کرتا ہے ۔ بہت محنت کے بعد بھی اس کی تشفی نہیں ہوتی وہ سارا دن ایک بڑی سی قینچی ہاتھ میں لیے اس کے اردگرد گھومتا رہتا ہے ۔ اس کی کونپلوں کو کاٹتا رہتا ہے ۔بالکل اسی طرح خدا جس سے محبت کرتا ہے اس کی تراش خراش کرتا ہے اس کے اوپر آزمائش ڈال کر پھر اگر کوئی انسان سبق نہ سیکھے اس جنگلی پودے کی طرح پھر سے اسی رخ پر کونپل نکالے تو مالی کی محبت یہ ہے کہ وہ نئی کونپل کو کاٹ دے اس میں قصور مالی کی محبت کا نہیں بلکہ اس پودے کا ہے ۔ مالی تو بے انتہا محبت کرنے والا ہے ۔جو اس پودے کی ہیت کو بگڑنے نہیں دے رہا ۔اس پر محنت کیے جاتا ہے ۔تھکتا نہیں ، غصہ نہیں کرتا ، اس کو اس کے حال پر نہیں چھوڑتا ۔یہاں تک کہ وہ سنور جائے ۔پھر بھی اس کی تشفی نہیں ہوتی ۔

اللہ کی محبت یہ ہے کہ وہ اپنے بندے سے ا س و قت بھی منہ نہیں موڑتا ۔جب وہ اس کی نافرمانی کرتا ہے ۔وہ بار بار اسے پکارتا ہے ۔یوں نہیں تو اس طرح سہی ۔ وہ اسے لالچ دیتا ہے ، جنت کی لالچ ، ابدی سکون کی لالچ ، جنت میں بہتے جھرنوں کی لالچ، دودھ اور شہد کی نہروں کی لالچ کس لیے ، صرف اس لیے کہ وہ انسان سے محبت کرتا ہے۔کہ وہ لالچ کے لیے ہی سہی سیدھے راستے پر رہے ۔ ساتھ ہی ڈراتا بھی ہے ، جہنم کی آگ سے ، کرم اور کھولتے پانی سے ، تھوہر کے پھل سے ۔ کہ اگر لالچ سے نہ مانے تو ڈر سے سیدھے راستے پر آجائے ۔

اﷲنے انسان کو حد سے زیادہ محبت سے بنایا ہے ، اس کی دل لگی کے سامان پیدا کیے ، پھر وہ اپنی اس تخلیق پر برھم کیوں ہوتا ہے ؟ کبھی حضرت انسان کے ماضی کا مطالعہ کیجیے ۔ جس بھی قوم پر عذاب نازل ہوا توصرف اس وقت جب وہ حد سے بڑھ گئے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ ان کے سنورنے کی کوئی صورت نہ رہی تھی ۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی پودے کے پتے اور ٹہنیاں اگر جل جائیں تو انھیں کاٹ دیا جاتا ہے ۔جب دیمک تنے سے ہوتی ہوئی جڑ تک جا پہنچے تو مالی اسے اکھاڑ پھنکتا ہے ۔بالکل یہی حال انسان کا ہے اگر وہ اس حد تک نکل جائے کہ سنوارا نہ جا سکے تو اﷲاس کو مٹا دیتا ہے ۔گویا زمین سے اکھاڑ کر باہر اور یہ مالی کی آخری حد ہوتی ہے ۔
اس رب عظیم نے اپنے اس انسان کی محبت کے لیے ایک پوری کائناٹ تخلیق کر دی ۔ پہاڑ ، چرند پرند ، ہوا۔اس کے لیے انواع و اقسام کی نعمتیں پیدا کی ۔صرف اس لیے کہ اس کا دل اس دنیا میں لگا رہے اس کی محبت کا اندازہ جس کو ہو جائے وہ انگشت بداں ، محو حیرت، اور خاموش ہو جاتا ہے اور اس کے پاس گلہ کرنے اور ناشکری کے الفاظ نہیں رہتے ۔

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *