از طرف: میمونہ صدف
پاک، ترک کے سفارتی اوربرادرانہ تعلقات کی کڑیاں ماضی میں قائم سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جا ملتی ہیں۔ ایک صدی قبل سلطنیت عثمانیہ کا مرکز استنبول تھا۔ جب اس پر کڑا وقت آیا تو برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے حق میں ایک تحریک چلائی جس کا نام تحریک خلافت رکھا گیا۔ بر صغیر کے مسلمانوں کے جذباتی وابسطگی نے ترک مسلمانوں کے دلوں میں اس خطے کے مسلمانوں کے لیے خصوصی جذبہ بیدار کیا۔ ان مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ جو کہ بعد میں منقسم ہو گئی کی مالی اور اخلاقی امداد کی ہر ممکن کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد ترکی پاکستان کو تسلیم کرنے والا ایک اہم ملک بن گیا۔قائداعظم، ترک لیڈر کمال اتاترک کو ہمیشہ سراہتے اور پاکستان کو ترک ماڈل پر ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتے تھے۔
دونوں ممالک نے ہر کڑے وقت میں ایک دوسرے کی برادرانہ اخلاقی اور مالی مدد کی۔ آزادی ِ وطن کے بعدترکی نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی بھرپور حمایت کی۔پاک بھارت جنگوں میں ترکی نے پاکستان کی سفارتی اور مالی سطح پر حمایت کی۔سن ۵۰۰۲ء کے زلزلہ میں ترکی نے پاکستان کی ۰۵۱ ملین ڈالر تک امداد کی جبکہ آزاد کشمیر میں ترکی کی جانب سے ایک مسجد کی تعمیر بھی کی گئی۔ ۹۹۹۱ ء اور ۱۱۰۲ء کے زلزلوں میں بھی ترکی نے پاکستان کی امداد کی۔ سن ۹۰۰۲ ء میں ترکی نے سہہ ملکی کانفرنس میں پاکستانی اور افغانی سیکیورٹی اداروں کو ایک میز پر جمع کیا۔ اور فرینڈز آف پاکستان فورم میں ۰۰۱ ملین ڈالر ترکی کی جانب سے پاکستان کو ا مداد کے طور پر ادا کیے گئے۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر ترک صدر طیب ادرگان نے اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں نہ صرف پاکستان کی حمایت کاببانگِ دہل اعلان کیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا۔ جبکہ ترک سفیر نے آزاد کشمیر میں کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک ہفتہ تک قیام کیا۔ ترکی مسئلہ کشمیر کا پر امن حل چاہتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زوردیا تا کہ خطے کو جنگ کی آگ سے بچایا جا سکے اور اس سلسلے میں ترکی کی جانب سے مثبت اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ ترکی نے بھارت پر زور دیتے ہو اسے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک مستحکم پاکستان ہی خطے میں امن اور استحکام کی ضمانت ہے۔
اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں صدر اردگان کی کی گئی تقریر نے مسلمانوں کی طرف سے دنیا کے ذہنوں میں پلنے والے خیالات کا رخ بدلنے میں ایک اہم کردار اد ا کر سکتی ہے۔ دنیا سے اسلامو فوبیا ختم کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب ادرگان نے انڈونیشیا اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک ٹی وی چینل کے اجراء، مسلمانوں کی ایک ایسی تنظیم جو کہ تمام ممالک میں موجود مسلمانوں کے حقوق کے لیے بات کر سکے، او آئی سی کی تنظیم ِ نو اور ہر فورم پر مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ان کے نڈر انداز تکلم اور مسلم دنیا کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے انھیں پوری دنیا کے لیڈروں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔بلاشبہ ترک صدر اپنے دبگ انداز تکلم کے لیے اپنی مثال آپ ہیں۔
ترک صدر کے حالیہ دورہ ِ پاکستان دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور اقتصادی منصوبہ بندی پر غور کریں گے۔اس دورہ میں دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے بھی فریم ورک تیار کیا جائے گا۔اس سے پہلے پاکستان اور ترقی کی کوششوں سے اکنامک کو آپریشن آرکنائزیشن بھی بنائی جا چکی ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونکیشن، سیاحت اور دیگر شعبہ جات میں تعاؤن پر کام جاری ہے۔ دو طرفہ تجارت جو کہ ۰۹ ۶ ملین ڈالر تک ہے اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان کی مصنوعات میں چاول، سرسوں کا تیل، کھیلوں کا سامان، کپڑا،لیدر اور میڈیکل آلات ترکی برآمد کی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان ڈیزل، گندم، کیمکلز، مشینری اورتوانائی کے متبادل ذرائع ترکی سے درآمدکرتا ہے۔ ترکی کی حکومت کے علاوہ پرائیوٹ اداروں نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔دونوں ممالک فری ٹریڈ اگری مینٹ پر بھی کام کر رہے ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا فروغ اور تاجروں کو دی جانے والی سہولیات میں اضافہ ہے۔پاکستان اور ترکی کے درمیان عسکری تعلقات بھی مضبوط ہیں دونوں ممالک کے درمیان کئی عسکری معاہدے طے پا چکے ہیں۔دونوں ممالک اپنے اپنے براعظموں میں اہم ترین جغرافیائی حیثیت کے حامل ہیں۔دونوں ممالک سینٹو معاہدہ برائے عسکری تعلقات میں شامل ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان عسکری ساز و سامان کی تجارت کے معاہدے بھی ہو چکے ہیں جن میں پاکستان سے ترکی کو دئیے جانے والے مشاق طیاروں کی خریداری قابل ذکر ہے۔ پاکستان کے ۰۰۵۱ افسران نے ترکی سے فوجی ٹرینگ حاصل کی۔۹۱۰۲ء میں پاک بحریہ اور ترک بحریہ کے درمیان اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل ہوئی جس کی لاگت کم و بیش ۵۔۱ بلین ڈالر ہے۔
ترک صدر کی پاکستان آمد، پاکستان اور ترکی کے دو طرفہ تعلقات میں نہ صرف ایک نیا سنگ میل ہو گا بلکہ نئے اقتصادی دور میں پہلا قدم ثابت ہوگا۔ صدر طیب اردگان کی مختلف سیاست دانوں اور اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقتیں بھی متوقع ہیں۔ رجب طیب اردگان نے سن ۹۰۰۲ء میں بھی پاکستانی پالیمنٹ سے خطاب کیا تھا اور یہ دنیا کے چوتھے لیڈر ہیں جو پاکستانی قومی اسمبلی میں خطاب کرچکے ہیں۔ انھیں پہلے بھی نشان ِ پاکستان سے نوازا جا چکا ہے۔ پاکستان کی جانب سے انھیں اعلی ٰ اعزاز سے بھی نوازا جائے گا۔ یہ دو روزہ دورہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات کو آنے والے کئی سالوں کے لیے مستحکم کر دے گا۔بلاشبہ ترک صدر اور وزیر اعظم پاکستان دونوں ممالک کے درمیان قائم دیرینہ دوستانہ تعلقات، دو طرفہ تجارت میں نئی جہت لانے کے لیے کوشاں ہیں ۔