(ینگ ویمن رائٹرز فورم اسلام آباد چیپٹر)
از طرف : میمونہ صدف ہاشمی
نقش پائے یوسفی ، مشتاق احمد یو سفی کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کاایک درخشاں ستارہ ہیں ۔یوسفی صاحب اردو ادب میں خاکہ نگاری کے موجدوں میں سے ایک ہیں۔ بلاشبہ یوسفی صاحب ایک شخصیت ہی کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہیں ۔نقش پائے یوسفی میں احمد رضوان صاحب لکھتے ہیں ۔ اردو ادب یوسفی صاحب کو آداب و تسلیم کہتا رہے ۔ وہ ان چند ادیبوں میں سے ہیں جنھیں پڑھ کر ، سن کر اور دیکھ کر یکساں فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔
بائیس خاکوں پر مشتمل یہ کتاب یوسفی صاحب کی اردو ادب کے لیے خدمات کا اعتراف ہے ۔ یہ اپنی طرز کی پہلی کتاب ہے جس میں خراج تحسین اس صورت میں پیش کیا گیا کہ یوسفی صاحب کے طرز تحریر پر مختلف لوگوں نے خاکہ نگاری کی ہے۔
ٓآج کے اس پر آشوب دور میں جہازن چہار جانب خود ساختہ پریشانیوں نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے وہاں یوسفی صاحب جیسے لوگ مسکراہٹ کا ایک ذریعہ ہیں ۔ جیسا کہ مریم ثمر نے مذکورہ کتاب میں کیا خوب لکھا ہے ۔ مزاح ہمں کچھ دیر کے لیے ہی سہی اپنے مسائل کو بھول کر ہنسنے کا موقع دے کر تناؤ اور کشیدگی سے نجات دلا تا ہے۔ دوسری طرف طنز ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ناہمواریوں ، تضادات اور منافقتوں سے آگاہ کرتا ہے۔
اب ایک نطر خاکہ نگاری کی صنف پر ڈالتے ہیں۔ خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں لکھاری معاشرے کو مختلف پہلوں کو مزاح کی صورت ایسے پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے ایک پورا منظر واضع ہو جاتا ہے ۔پڑھنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ اس طرح بھی بکھیری جاتی ہے کہ اپنی ذات ہی کے بارے میں لکھا جاتاہے۔ بعض مزاح نگار خاکہ نگاری میں تضحیک کو بھی کھنچ لاتے ہیں جوکہ پڑھنے والوں کو تو شاید مسکراہٹ دیتی ہے لیکن جس کے بارے میں لکھا گیا اس کا دل دکھاتی ہے۔ یوسفی صاحب کے ہاں ایسی کوئی سطر ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی جس سے کسی کی دل آزادی ہوتی ہواور نہ ہی اس کتاب میں ۔مافیہ شیخ اس کتاب میں کیا خوب لکھتی ہیں ۔ اپنی شخصیت کو بیان کرنا بڑا اوکھا کام ہے ۔
اب آئیے نقش پائے یوسفی کی جانب ، اس کتاب کا ہر ورق آپ کو ان لکھاریوں سے ملاقات کا موقع دے گی جو شاید مزاح نگار تو نہیں لیکن یوسفی صاحب کی طرز تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے خاکہ نگاری کرتے نظر آئیں گے ۔تلاش معاش کے حساب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان لکھاریوں میں مرد اور عورت دونوں ہی شامل ہیں ۔ اپنے قد ، رنگت ، عادات وافکار سے لے کر اپنی زندگی کی کتاب کو مزاح کی صورت پیش کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لمبے ہیں تو کچھ چھوٹے ، خیر چھوٹے قد کی خواتین کو ایڑی والی جوتی بڑی آسانی اور بنا کسی محنت کے لمبا کر دیا کرتی ہے ۔ ان لکھاریوں میں چند ایک وزن کے معاملے میں خوکفیل ہیں تو کچھ کو جیبوں میں پتھر رکھنا پڑھتے ہیں مبادا کہ ہوا نہ لے اڑے ۔کچھ کی زلفیں حسین ہیں تو کچھ کے سر پر چندیا چمکتی نظر آتی ہے ۔
آل حسن دوست کی نظر میں لکھتے ہیں پہچان کیا بتاؤں اس دور سے گزر رہا ہوں جہاں پڑوسی تو ایک دوسرے کو کوئی جانتا نہیں ہاں دور دراز انسان جس سے کبھی آمنا سامنا ہوا ، نہ ہو سکتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے ملاقات کی کوئی سبیل نکل آئے تو پتہ چلے جیسے ہم آج تک کوئی نازک اندام حسینہ سمجھ رہے تھے وہ ایک مکروہ شکل بزگوار بڑھیا نظر آئے ۔ کون جانتا ہے پردہ غیب سے کب کیا نمودار ہو جائے ۔ طارق عزیز صاحب کچھ یوں رطب رساں ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں گنجا ہوں ، میں گنجا نہیں ہوں ویسے ذرا بال چھڑ گئے ہیں ۔ خرم بقاء ہوئے جم کے ہم جو رسوا میں لکھتے ہیں ۔ ہمیں گنجا ہونے میں کوئی اعتراض تو نہیں مگر خوشی سے آج تک نہ تو کسی کو مرتے دیکھا ہے اور نہ ہی گنجا ہوتے۔رنگ ویسا ہے کہ جن کے کالے دلدادہ ہیں وہ ہمیں پرے ہی کرتے رہتے ہیں جن کے دلدادہ کالے نہیں ان کے ایمان کو بھی ہماری وجہ سے کوئی ضعف نہ پہنچا اس لیے اس رنگ کا ہمیں بالکل کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ فوزیہ قریشی تاریخ پیدائش کے بارے میں کہتی ہیں۔ آپ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ عورت کی عمر نہیں پوچھتے؟ سدا سولہ سال کی رہتی ہے ۔ ہمت کرکے اگر بتا بھی دے تو چند سال پھر بھی بڑی مہارت سے چھپا لیتی ہے ، چاہے بال اور گال چغلی کھا رہے ہوں ۔ سلمان باسط ڈھول کے پول میں لکھتے ہیں بقول انور مسعود ، اس کا نام سلمان کی بجائے پہلوان ہونا چاہیے۔ گھنگھریالے سیاہ بال جو ابھی تک گھنے ہیں ، چہرے سے سختی مترشح ہے ۔ پہلی نظر میں ہٹلر کا رشتہ دار نظر آتا ہے ۔ مگر پہلی نظر کی غلطی تو سب کو معاف ہوتی ہے لہذا آپ کو بھی عام معافی ہے ۔
ہما فلک نے ہم بتلائیں کیا میں یوں لکھا مجھے شک ہے اور ان کو یقین ہے کہ میں بیک وقت استاد ، تھانیدار، بڑھئی ، درزی ، قصاب ، پینٹر ، ڈرائیور ، خانساماں اور ، اور کے کام بخوبی سرانجام دے سکتی ہوں اسی لیے کوئی کام ہو تو آرام سے کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں ۔ میں نے یہ سب کام پہلے نہیں کئے اس لیے مجھے نہیں آتے اور میں تو جیسے منہ میں سونے چاندی کے چمچ کی بجائے ایک ہاتھ میں پیچ کس دوسرے میں ہتھوڑی لے کر پیدا ہوئی تھی ۔
بعض لکھاریوں نے پالتو جانوروں پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ یہاں میں فرحین جمال کی تحریر آئینے تو ہی بتا ۔۔! کے الفاظ چرانے کی جسارت کرتی ہوں وہ لکھتی ہیں ۔ بلی وہ بھی کالی جو ہر آتے جاتے کا راستہ کاٹ جائے ، رکھی بھی اسی لیے ہے کہ لوگ ہمارے گھر کا رخ ہی نہ کریں ، کالی بلی کے خوف سے ۔ خیر خود ہمیں بھی کالی بلی پر بڑا ترس آتا ہے ۔ بھلا اس کے کالا ہونے میں اس کا کیا قصور؟
اردو ادب میں مزاح نگاری کی صنف ہو اور شادی کو بدنام نہ کیا جائے یہ ممکن ہی نہیں ۔ امجدعلی شاہ ( بطرز یوسفی) ہی کو لیجیے ۔ لکھتے ہیں ۔ ہر مرد ایک فرضی محبت کرتا ہے ، وہ شادی کہلاتی ہے ۔ اورہمیں اس کا اقرار ہے ۔
الغرض تمام لکھاری حق قلم ادا کرتے ہوئے یوسفی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
بزم یاران اردو ادب اور ینگ ویمن رائٹر ز فورم اسلام آباد چپٹر نے خاکوں کا یہ مجموعہ مرتب کرکے اور اس کو منظر عام پر لا کر ایک اہم معرکہ سرانجام دیا ہے ما۔ان کی خدمات اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔