قبریں ہی جانتی ہیں کہ اس شہر جبر میں
مر کر ہوئے ہیں دفن یا زندہ گڑے ہیں لوگ
اس کے دل و دماغ میں جھکڑچل رہے تھے۔دماغ بالکل خالی ہو چکا تھا۔اسے ایسا لگتا تھا جیسے اس کا دل بند ہو جائے گا۔چند لمحوں کے لئے اسے یوں محسوس ہوا جیسے پوری دنیا کی ہر چیز، ہر چہرہ، سب کچھ معدوم ہو گیا ہواور ساری دنیا میں وہ اکیلی کھڑی ہو۔ ایک دم سے ساری دنیا ہی غائب ہو گئی۔دیواریں، چھت دروازے، تمام کے تمام غائب ہو چکے تھے۔ اس کی انکھیں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھیں۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو اس کے گالوں سے ہوتے ہوئے اس کے چہرے کو دھوتے ہوئے گردن پرجا کر ختم ہو گئے۔پلکیں بھیگ چکی تھیں۔ آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے بھر گئے۔ان مین سرخ رنگ کی آمیزش نے اس کی آنکھوں کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔وہ چند سعت بالکل خاموش اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ پر رکھے کھڑی رہی۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کے تمام آنسو اس کے دل پر گرنے لگے۔ قطرہ قطرہ اس کے دل کو بھگونے لگے۔ چند لمحے تک وہ اسی بے یقینی کی حالت میں کھڑی رہی۔
“یہ دنیا کیوں ختم ہو گئی تھی۔یہ سب کچھ غائب کیوں ہو گیا “؟۔اس کو اپنے سانس کی آواز بھی اجنبی لگ رہی تھی۔اس نے اپنے ہاتھ سے بازو کوپوری قوت سے پکڑاشاید اس کا جسم زندہ تھا۔ پتہ نہیں زندہ تھا بھی یا نہیں؟ اس نے اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کی۔چند لمحے یونہی گزر گئے۔پھرساری دنیااس کے گرد آہستہ آہستہ ابھرنے لگی۔
سب سے پہلے واش بیسن پر لگے شیشے پر اس کا اپنا عکس ابھرا۔سرخ اجنبی آنکھیں سرخ آنکھوں کو تکنے لگی۔ اس نے احتیاط سے اس عکس کو چھوا مبادا کہیں پھر سے غائب نہ ہو جائے۔پھر اس نے اپنے ماتھے پر آئے پسینے کے قطروں پونچھا۔پھر اس نے اپنے ہاتھوں میں پانی کو بھرا اورایک چھپاکے سے اپنے چہرے پر پھنکا۔ پانی اتنی زور سے اس کی گالوں سے ٹکرایا کہ چند لمحے کے لیے اس کی گال پانی کی سختی کو محسوس کرنے لگے۔ اس نے ایک اوربار اتنی ہی زور سے پانی کو منہ پر پھینکا۔ساری دنیا پھر سے اتنی ہی شدت سے اب اس کے سامنے ابھر آئی تھی جتنی شدت سے پانی اس کے چہرے پر گرا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔
زندگی کی رمق ابھی باقی تھی، لیکن یہ زندگی کتنی اجنبی تھی۔ اس زندگی سے کہیں مختلف جو ابھی چندلمحے پہلے تک تھی۔ اس کو اس شخص کے بغیر زندگی گزارنا تھی جس نے اس کو زندگی کے معنی سے آشنا کیا تھا۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔ یہ ابھی بھی دھڑک رہا تھالیکن کیسی اجنبی دھڑکن تھی۔وہ دل پر ہاتھ رکھے ششدر تھی۔
“کیا یہ اسی کی دھڑکن ہے؟ “اس نے خود سے سوال کیا۔
” ہاں شاید “۔اس کے اندر سے کوئی آواز ابھری
اس کا جی چاہا کہ آج اس سے اس کی یہ سانس بھی چھین لی جائے۔اس کی یہ اجنبی دھڑکن رک جائے، اس کے دماغ کی کوئی رگ پھٹ جائے۔ آسمان اسے نگل لے یا یہ زمیں اسے اپنے سینے میں بند کر لے۔ لیکن ایسا پہلے نہ کبھی ہوا ہے اور نہ آج ہوا۔ آسانی سے صرف آزمائش آیا کرتی ہے موت نہیں۔
اس نے واش بیسن ہی کے نلکے سے پانی کو ہاتھوں میں بھرا اور ایک گھونٹ حلق میں اتارا۔ پانی کھارا تھا یا اس میں آنسوؤں کی آمیزش تھی اس کا دماغ یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ اسی طرح چلو میں پانی بھرتی اور پی لیتی۔وہ پانی پیتی چلی گئی۔ چند گھونٹ پانی پینے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔اس کی آنکھیں جل رہی تھیں۔
” آزمائش۔۔۔۔ اے اللہ!مجھے ناشکری سے بچا۔”سچے دل سے دعا مانگی اور آنکھیں کھول دیں۔ اس نے چاہا کہ وضو کر لے، وضو کی نیت سے اس نے پانی کے نل کے نیچے اپنے ہاتھ رکھے۔ کسی بت کی طرح وہیں ہی وہیں ساکت۔ وہ و ضو نہیں کر پائی۔
“آزمائش،۔۔”یہ لفظ اس کے دماغ میں گونجااس نے نل کے بہتے پانی سے ہاتھ ہٹا کر اپنے سر کو مضبوطی سے پکڑلیا شدید درد سے اس کا سر چکرانے لگا تھا۔ اس کے دماغ کی ایک ایک رگ دکھ رہی تھی۔چند سیکنڈ تک وہ اسی حالت میں رہی لیکن اگلے ہی لمحے وہ سنبھل گئی۔دنیا کے سامنے وہ ایک مضبوط لڑکی تھی اور دنیا کواسے خود کو مضبوط ہی دیکھانا تھا چاہے اس پر کتنا ہی دکھ کیوں نہ بیت جائے۔
یہ اس کا وہ روپ تھا جس سے صرف اس کی ذات ہی واقف تھی۔اس روپ سے تو وہ بھی واقف نہیں تھا جس نے اس سے محبت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے تلخی سے گزرے چند روز کو سوچا۔
محبت کیوں آگئی اس کی زندگی میں۔؟ بنا سوچے سمجھے ان چند دنوں میں نہ جانے اس کی آنکھوں نے کتنے ہی خواب دیکھ ڈالے تھے جن میں رنگ، تتلیاں، پھول اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔یہ خوشیاں،یہ خواب جتنی شدت اور جتنے چپکے سے آئے تھے اسی خاموشی سے لوٹ گئے تھے۔ وہ ہلکا سا مسکرائی۔
” تم بہت مضبوط ہو۔ تم کمزور ہو ہی نہیں سکتی۔جو گزر گیا اسے گزر جانے دینا ہو گا “اس نے خود کو تنبہہ کی ۔
اس کی ذات ایک خالی قلعے کی مانندتھی۔ جس کی دیواریں اونچی اور مضبوط تھیں اور اس میں غم اور دکھ کی نہ جانے کتنی ہی چمگادڑیں چیختی رہتی تھی۔ جن کی آوازیں قلعے کی مضبوط دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر اندر ہی گھٹ جاتی تھی۔ باہر کا کوئی فرد انھیں سننے سے قاصر تھا اور نہ ہی وہ کسی اور کو یہ آوازیں سننے کی اجازت دے سکتی تھی۔
“مضبوط، مضبوط، مضبوط..”اس نے اپنے اندر کی آوازوں سے بچنے کے لیے اپنے کانوں میں انگلیا ں ٹھونس لیا۔یہ آوازیں اس قلعے کے اندر گونجنے لگیں۔
اپنے چکراتے ہوئے سر کو تھاما اور فرش پر بیٹھ گئی۔ ایک لمحے کو قلعے کی تمام دیواریں کمزور پڑھنے لگی، تمام چمگادڑیں دیواروں سے ٹکرانے لگی تھی ایسا لگتا تھا جیسے اسے توڑ ڈالیں گی۔یا خود اس قلعے کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مر جائیں گی۔ لیکن ابھی اس قلعے کی دیواریں کسی حد تک مضبوط تھیں اوراس میں بسنے والی دکھ اور غم کی چمگادڑیں ان دیواروں سے بھی زیادہ مضبوط۔
اس قلعے میں موجود کمزوااور شکستہ حال ر لڑکی ان چمگادڑوں سے بچنے کے لیے ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھی تھی۔وہ معصوم سی لڑکی جو باہر کی لڑکی سے قطعا مختلف اور نازک تھی۔ باہر کی لڑکی جتنی مضبوط تھی اندر کی لڑکی اتنی ہی کمزور اور نازک دل۔
باہر کی مضبوط لڑکی نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اورچنگھاڑی
“تمھاری زندگی میں محبت کی گنجائش تھی۔؟؟؟؟” اندر کی کمزور لڑکی نے خفقت اور دکھ بھری آنکھوں سے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔ وہ کمزور لڑکی کسی کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی خصوصا اس آج جب تو بالکل نہیں جب وہ غم و اندوہ سے لہولہان تھی۔
“تو جانتے بوجتے یہ حماقت کرنے کی وجہ۔؟؟؟” دوسرا سوال داغاگیا۔ اندر کی لڑکی نے گھٹنوں پر رکھا سر اٹھایا اور شرمندگی سے سر جھکا لیا
“تم جانتی ہو نا۔ اپنے حالات کو۔ “باہر کی لڑکی پھر سے چیخی
“ہاں “۔ اندر کی لڑکی کی آواز بے حد کمزور اور شرمندگی سے بھر پور تھی
“پھر یہ محبت کا شوشہ کیوں اور اب جب کچھ بھی نہیں رہا تو اس بے وفا محبت پر رونا کیوں؟ کیوں تم نے یہ غلطی کی جرات کیسے ہوئی تمھاری؟” ظاہر کی لڑکی پھر سے دھاڑی
“میں تمھیں کیسے سمجھاؤں؟ یہ میرے ہاتھ میں نہیں تھا۔” اندر کی لڑکی نے وضاحت کی
“سب ہاتھ میں تھا۔ سب انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ تم اتنی کمزور کیسے ہوئی؟”ظاہر کی لڑکی نے پھر کہا
“میں سخت تھی ہی کب؟ “اندر کی لڑکی نے آہستگی سے کہا
“تمھیں سخت ہونا چاہیے۔ “باہر کی لڑکی سختی سے کہے جارہی تھی
“یہ میرے ہاتھ میں نہیں تھا۔ میں پگھل گئی تھی۔” اندر کی لڑکی نے روتے ہوئے کہا
“کیوں پگھل گئی تھی؟ کیا تم موم کی بنی تھی؟ “ظاہر کی لڑکی نے پھر سے سوال داغا
“میں موم کی تو نہیں تھی پھر بھی۔ “اندر کی لڑکی نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپا لیااور سسکیاں لینے لگی۔
“موم کی نہیں تھی پھر بھی پگھلی گئی؟ واہ کمال کیا تم نے۔۔۔”باہر کی لڑکی نے کیا
اندر کی لڑکی نے سر اپنے گھٹنوں سے اٹھایا اور اس کے سامنے اپنے ہاتھ معافی مانگنے کے انداز میں باندھ دیئے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جو کسی کسی وقت اس کی پلکوں کا بند توڑ کر باہر نکل آتے۔
معاف کردو مجھے۔ اندر کی لڑکی نے کہا
معاف۔ تم معافی کرنے کے قابل ہو؟ باہر کی لڑکی نے کہا
ہاں۔۔۔اندر کی لڑکی نے کہا
نہیں تم معافی کے قابل نہیں ہو۔ ظاہر کی لڑکی نے دھتکارتے ہوئے کہا۔
اندر کی لڑکی خاموشی سے روتی رہی، اس کی سسکیاں اس قلعے کے کی دیواروں سے ٹکراکر گونج پیدا کرنے لگی۔ظاہر کی لڑکی اس کی سسکیوں سے تنگ یہ اس کا وہ روپ تھا جس سے صرف اس
نہیں تم معافی کے قابل نہیں ہو۔ ظاہر کی لڑکی نے دھتکارتے ہوئے کہا۔
اندر کی لڑکی خاموشی سے روتی رہی، اس کی سسکیاں اس قلعے کے کی دیواروں سے ٹکراکر گونج پیدا کرنے لگی۔ظاہر کی لڑکی اس کی سسکیوں سے تنگ آگئی اورتنک کر بولی
“بس کرو یہ ڈرامہ۔ کب تک رو گی؟”
“ڈرامہ۔۔۔”اندر کی لڑکی دکھ سے بولی
“ہاں ڈرامہ میں نہ دیکھوں تمھیں اب روتا۔اٹھو!منہ دھو لو۔رونے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ” ظاہر کی لڑکی نے اسے ڈانٹا۔
“یہ ڈرامہ نہیں ہے۔۔میں تمھیں کیسے سمجھاؤں۔۔ “اس نے کہا
یہ ڈرامہ نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ تم ایک ایسے شخص کے لیے رو رہی ہو جس نے کسی صورت لوٹ کر نہیں آنا۔ جو آ سکتا ہی نہیں۔ اگر آنا ہوتا تو آہی جاتااور اگر وہ اتنا اچھا ہوتا تو جاتا ہی کیوں؟۔ باہر کی لڑکی نے کہا
وہ برا نہیں ہو سکتااس کی کوئی مجبوری ہوگی۔ اندر کی لڑکی باہر کی لڑکی کی بات ماننا ہی نہیں چاہتی تھی۔
مجبوری ہوگی تو کیا وہ یہ مجبوری چھوڑ کر آئے گا تمھارے پاس واپس؟کسی وقت وہ آ سکے گا؟ باہر کی لڑکی نے غصے میں کہا
مجھے علم ہے وہ نہیں آئے گا۔ اند ر کی لڑکی نے ناامیدی سے کہا
تمھیں علم ہے وہ نہیں آئے گا۔تم یہ بات جانتی ہو، اس بات کا یقین ہے کہ وہ نہیں آئے گا؟ باہر کی لڑکی نے کہا اندر کی لڑکی نے دھیرے سے اپنے سر کو جنبش دی۔
تو پھر اس ڈرامے کا مقصد؟ باہر کی لڑکی نے تلخی سے کہا
یہ ڈرامہ نہیں ہے۔ میں تمھیں کیسے سمجھاؤں؟ اندر کی لڑکی نے بے بسی سے کہا
نہیں نہیں تم سمجھاؤ ہر وہ بات سمجھاؤ جو سمجھا سکتی ہو۔کیونکہ میں تمھیں کچھ نہیں سمجھا سکتی۔ باہر کی لڑکی چیخی
میں تمھیں کچھ نہیں سمجھا سکتی۔ تم پریکٹیکل ہو اتنی پریٹیکل، تم سمجھ سکتی ہی نہیں۔تم کیا جانو محبت کا دکھ۔ تم کیا جانو یہ روگ، اس دکھ اور غم کی دیمک کو تم جان ہی نہیں سکتی۔وہ نہ آئے لوٹ کر لیکن میں اس دکھ کو کس طرح ختم کروں؟ اند کی لڑکی نے دکھ سے کہا
اس محبت کو کیسے مٹاؤں جو مجھے اس سے ہو چکی ہے، جو میری رگوں میں خون کی طرح بہہ رہی ہے۔ اندر کی لڑکی نے دل ہی دل میں سوچا وہ باہر کی لڑکی سے از حد خوف زدہ تھی۔
تمھیں اس محبت کا دکھ منانے کی ضرورت ہے؟ کیوں دکھ منا رہی ہو؟ سوگ منا کر کیا ملے گا تمھیں؟باہر کی لڑکی نے کہا
ضرورت۔۔کچھ چیزیں ضرورت سے بالا تر ہوتی ہیں۔میں جانتی ہوں مجھے کچھ نہیں ملے گا۔ میں تہی دامن ہوں۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا کچھ بھی نہیں۔ اندر کی لڑکی مسلسل رو رہی تھی
نہیں ضرورت سے کچھ بالاتر نہیں ہوتا۔ کچھ بھی۔ آئی سمجھ؟ اور کیا نہیں ملا تمھارے پاس پہلے کیا تھا ہاں؟ کیا تھا جو اب خالی ہاتھ ہونے کا دکھ ہے تمھیں۔؟ ظاہر کی لڑکی مسلسل سخت لہجہ اپنائے ہوئے تھی
میرے پاس کچھ نہیں تھا لیکن مجھے لگتا تھا کہ مجھے مل جائے گا وہ مجھے محبت دے گا۔ اندر کی لڑکی نے بے بسی سے کہا
کیا دی اس نے محبت اپنایا تمھیں؟ اس دنیا میں کوئی کسی کو محبت دے ہی نہیں سکتا۔ باہر کی لڑکی جراح کر رہی تھی
اس نے مجھ سے سچی محبت کی لیکن اپنا نہیں سکا۔ یہ الگ بات ہے۔ اندر کی لڑکی مسلسل تاویلیں دے رہی تھی
بس کرؤ۔ اس کی اور اپنی وکالت۔ بس بہت ہو گیا۔ باہر کی لڑکی نے کہا
میں کیا کروں؟ تم میری حالت کو سمجھو۔ اندر کی لڑکی نے کہا
“مجھے کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ میں تمھیں اس قدر احمق نہیں سمجھتی تھی۔ باہر کی لڑکی نے افسوس سے کہا
“میں احمق نہیں ہو ں۔”۔اندر کی لڑکی نے کہا
“تو کیا ہو تم؟ بولو۔۔”۔باہر کی لڑکی دھاڑی
اگر احمق نہیں تو کیا ہو؟ کیوں اس کے لیے رو رہی ہو جو تمھارے لیے آسکتا ہی نہیں تھا۔ جو تمھارے لیے کچھ نہیں کر پایا۔ ظاہر کی لڑکی نے کہا
میں اس دکھ پر رو رہی ہوں کہ میں نے کسی سے اس طرح کی امید وابسطہ کیسے کر لی۔ اندر کی لڑکی نے کہا
اب جو ہوا سو ہوا۔ ختم کرؤ یہ سب۔ باہر کی لڑکی نے غصے سے کہا
ااندر کی لڑکی نے منہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ مجھ پر رحم کھاؤ۔ لیکن ظاہر کی لڑکی رحم سے عاری تھی وہ رحم کرنا جانتی ہی نہیں تھی ۔کیونکہ اسے علم تھا کہ اگر اس نے اندر کی لڑکی پر ترس کھایا یا اس پر رحم کیا تو وہ کمزور پڑ جائے گی اور وہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو کمزور نہیں کر سکتی تھی۔
اندر کی نڈھال لڑکی کی طرف ایک غصے کی نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے آہستگی سے اپنے چہرے پر پانی ڈالا اور باہر آ گئی۔ اندر کی لڑکی سمٹی ہوئی سر جھکائے سسک رہی تھی۔
“چپ کرؤ۔ تمھاری سسکیوں کی آواز نہ سنوں میں “۔بس بہت ہو گیا۔ بہت۔ باہر کی لڑکی غصے میں چیخی
اندر کی لڑکی اپنے ہونٹ سختی سے بھنچے اپنے سانس کو روکے بے آواز آنسو گرا تی تھی۔ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی بے آواز رو رہی تھی۔ اس کے آنسو اس کی گالوں کو تر کرتے ہوئے اس کی گردن کو بھگوتے رہے۔اس کے گھٹنے جن پر وہ منہ رکھے رو رہی تھی وہ مکمل بھیگ چکے تھے لیکن اس کے آنسو تھے کہ ختم ہونے ہی میں نہ آتے تھے۔آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب آ گیا تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
اس کاسانس بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ احتجاج کر سکتی۔غم کی چمگادڑیں ا ٓ کر اس کو بار بارالفاظ کے زخم دے ہی تھی۔ وہ اپنی شکستہ حالی کی وجہ سے ان سے بچ بھی نہیں پا رہی تھی اور انھیں کاٹنے سے روک بھی نہیں رہی تھی۔ وہ ہر زخم سہہ رہی تھی۔آج وہ کسی قسم کی مزاحمت کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ بے انتہا کمزور ہو چکی تھی اس میں ہمت ہی نہیں بچی تھی۔غم کی چمگادڑیں آ آ کر اس کے نرم بازوں کو کاٹ رہی تھی اس کی کمر کو اس کے سر کے بالوں کو، اس کے نرم و ملائم ہاتھوں کو۔ صرف ایک چہرہ بچا تھا جو آنسوؤں سے تر اس کی اپنی گود میں چھپا تھا۔ اس چمگادڑوں نے اسے اس حد تک کاٹا کہ اس کا جسم کا گوشت جگہ جگہ سے پھٹ گیا۔ہر ایک زخم سے اس کا خون رسنے لگا۔ اور پھرآہستہ آہستہ وہ نڈھال ہو کر ایک طرف کو لڑک گئی
“سنو!۔۔۔ “باہر کی لڑکی نے آہستہ آواز میں اسے پکارالیکن وہ بے سدھ پڑی تھی۔
“مر گئی ہو۔” باہر کی لڑکی نے قدرے تلخی سے کہا۔ جواب ندارت۔اب باہر کی لڑکی کو اس کی فکر ہونے لگی تھی۔
“روٹھ گئی ہو؟؟؟؟”… باہر کی لڑکی کا لہجہ اب کہ کچھ نرم تھا۔
“روٹھو نہیں۔۔۔وقت کے تقاضے کو سمجھو۔۔۔۔”وہ اس کو سمجھانے کے انداز میں بولی۔
باہر کی لڑکی نے اپنا سخت ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھا لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولی باہرکی لڑکی نے اسے ہلایا لیکن اس کا جسم سرد ہو چکا تھا۔اس کے جسم کا بہتا خون، قلعے کے صاف فرش پر پھیل چکا تھا ۔وہ قلعہ جس کے فرش کو کئی بار اس کے آنسوؤں نے دھویا تھااب وہی فرش اندر کی لڑکی کے خون سے آلودہ ہو چکا تھا۔باہر کی لڑکی نے پہلے اس سرد کمزور جسم کو دیکھا پھر فرش پر پھیلے خون کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ بے یقینی سی تھی۔ اس نے پھر سے اس مردہ جسم کو ہلایا لیکن اس میں زندگی کی ایک رمق بھی موجود نہیں تھی۔ موت کی ٹھنڈک اس کے سخت ہاتھوں میں سرایت کر گئی۔باہر کی لڑکی بڑے اعتماد سے بولی
“کیا؟؟؟۔۔۔۔مر گئی، بہت کمزور نکلی۔۔۔”۔ اس نے دکھ سے سرہلایا۔اور قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
اسی لمحے قلعے کی چمگادڑیں چیخ چیخ کر رونے لگی۔ ان کا دیرینہ ساتھی ان سے بجھڑ گیا تھا
یوں اندر کی کمزور لڑکی کو باہر کی مضبوط لڑکی نے مار دیا اور آج وہی لڑکی جو تنہا جی نہ سکتی تھی۔ اندر کی معصوم لڑکی کے بنا خوش و خرم زندگی گزارے رہی ہے۔لیکن کبھی کبھی اسے اندر کی لڑکی کی معصومیت پر آنسو بہانے کا اندیشہ رہتاہے، اور یہ اندیشہ بھی کچھ عرصے تک اندر کی لڑکی کی طرح اپنی موت آپ مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔