کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ انسا ن ایک گلاس کی مانند ہے ۔اس گلاس میں پریشانیاں اور تحریک پانی کی مانند ہیں ۔اگر آپ دکھوں کو پریشیانیوں کو ، ان دکھوں کو بہنے کا راستہ نہیں دیں گے تو وہ آپ کے اندر اتھل پتھل مچا دیں گے ۔آپ کو ان پریشانیوں کو ان دکھوں کو راستہ دینا پڑے گا اپنے اندر کی اس اتھل پتھل کو راہ دکھانا پڑے گی ۔بڑے بڑ ے مصور ، دانشور جب اپنے اندر کی اس تحریک سے گبھراتے ہیں تو اپنی اس قوت کو راہ دکھاتے ہیں ۔انسان بلا شبہ بے انتہا قوت کا حامل ہے ۔اگر اس قوت کو تعمیری رخ نہیں ملتا تو لازمی اس کا رخ تخریب کی جانب مڑ جائے گا ۔کسی ڈاکو یا کسی دھماکے کے ماسڑ مائنڈ کو دیکھیں تو آپ انھیں غیر معمولی ذہانت کا مالک پائیں گے ۔ذہانت ایک طرح کی قوت ہے اور بے انتہا قوت ۔اب اس کے استعمال پر منحصر ہے ۔ اس تحریک کو جو آپ کے اندر پانی کی طرح موجود ہے انسان کی ذات کی ضرورت ہے کہ اس کو اپنے اندر نہ رہنے دے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ پانی اپنی قوت سے اس کی ہستی کو نیست و نا بود کر دے گا اورنتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کسی نہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جا پہنچیں گے ۔اور وہ بھی آپ کا کوئی بھلا نہیں کر پائے گا سوائے اس کے کہ آپ کو سکون آور گولیاں دے۔ یا آپ سے کہے گا کہ آپ اپنی سار ے احساسات وخیالات اس کو سنائیں اوروہ ایک اچھے سامع کی طرح آپ کی بات کو سنے گا پہلے اس کا تجزیہ کریگا اور آپ کو دوبارہ آنے کا وقت دے گا اور اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں تو پھر فقیروں اور عاملوں کا رخ کریں گے ۔وہ بھی پوری داستان سن کر ایک تعاویز آپ کے ہاتھ میں تھماے گا ۔لیجیے آپ اس پر اعتقاد کیجیے اور آپ کی مشکل حل کرنے والا کون ہے؟

آپ خود یا آپ کا اعتقاد ۔چاہے یہ کسی پر بھی ہو ۔اور اعتقاد کیا ہے ؟

وہ بھی تو آپ کا اپنا اندر ہے ۔

چاہیں تو دل میں خدا کو بیٹھا لیں ۔۔چاہیں تو کسی فقیر کسی تعویذ کو۔مندر میں جا بیٹھیں یا مسجد میں یہ آپ کا اپنا عقیدہ ہے ۔

آپ کی پوری زندگی اسی عقیدے کے گرد گھومتی ہے ۔اسی قوت کے استعمال پر ۔جس نے اس راز کو پا لیا وہ پرسکون ، مطمئن اور کامیاب۔اور جو اس کو نہ پا سکا وہ بے سکون ، تشنہ لب اور ناکام ۔


کسی نے کسی مصور سے پوچھا تم یہ تصاویر کیوں بناتے ہو ۔اس نے جواب میں کہا میں تو صرف احساسات کو اوراق پر منتل کرتا ہوں ۔یہی حال ادیبوں ، شاعروں کا ہے ۔اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس حرکت میں ہے ۔جہاں حرکت رکی ، زندگی ختم ۔اس کی سب سے بڑی مثال خود انسانی جسم ہے ۔جس میں ہوا ، اندر باہر کے چکر لگاتی ہے ۔جہاں اس کی ترسیل رکی وہاں زندگی ختمْ سائنس کی تحقیق نے ثابت کیا کہ چالیس روز میں انسان کے پورے جسم کا ہر سیل ختم ہو جا تا ہے اور اس کی جگہ نئے سیل لے لیتے ہیں تو گویا چالیس دن بعد ایک نیا انسان جنم لیتا ہے اس شکست و ریخت میں اگر انسان اپنے دکھوں کو کانٹوں کی مانند سنبھا ل سنبھال کر رکھتا رہے تو وہ یقیناناسور بن جائیں گے ۔اور بالآخر انسان کی شخصیت پر غلبہ پا لیں گے ۔
اللہ کے قوانین بھی نرالے اور عجیب ہوتے ہیں اگر وہ بے انتہا انرجی دیتا ہے تو اس کے استعمال کی راہیں بھی دیکھاتا ہے ۔اگر پھر بھی کوئی سمجھ نہ پائے تو اپنی بربادی کا زمہ دار وہ خود ہے ۔ایک بے انتہا امیر شخص جس کا ہر کام کوئی اور کرتا ہو اس کا ڈپریشن سب سے زیادہ ہو گا ،صرف اس لیے کہ جو قوت اس کے اندر ہے وہ اسے استعمال سے قاصر ہے ،ناکارہ انرجی اس کے اندر کی عمارت کو توڑنے پھوڑنے لگتی ہے ۔ہر وہ شخص مطمئن ہے جو اس انرجی کا استعمال بہترین طریقہ سے کرے ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *