انتہائے محبت
از طرف :میمونہ صدف
عدیل احمد نسل نو کے نمائندہ شاعر ہیں ۔ان کی کتاب انتہائے محبت پرھنے کا اتفاق ہوا جس نے مجھے ان کی شاعری کے بارے میں کچھ لکھا جائے ۔ ان کی شاعری میں وصل و فراق ، معاشرتی ،مسائل ، امید و بیم ، غم و زنج ، خوشی سبھی جذبے قوس قزاع کے رنگوں کی مانند بکھرے نظر آتے ہیں ۔یہ جذبات اپنی پوری شدت سے عدیل کی شاعری میں سلگتے ، دہکتے محسوس ہوتے ہیں ۔ان کے جذبات جب الفاظ کا روپ دھارتے ہیں تو احساس سے مزین خوبصورت اشعار بن جاتے ہیں ۔ جیسے اپنے ایک شعر میں لکھتے ہیں
بن تیر ے زیست میں کیا کیا کمی آئی ہے
سوچ کر اتنا ہی آنکھوں میں نمی آئی ہے
احمد کی شاعری قاری کو ہر اس منظر میں گھسیٹ کرمہبوت کر دیتی ہے جس میں سے شاعر خود گزر رہا ہوتا ہے ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری ہر جذبہ اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔انتہائے محبت کا مطالعہ کرتے ہوئے جا بجا جذبات کے دہلکتے سلگتے اور سانس لیتے استعاروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ تنہائی کی سیاہ روشنائی جب الفاظ کا روپ دھارتی ہے تو عدیل کے قلم سے آنسو بن کر ٹپکنے لگتی ہے تو خوبصورت اشعار وجود پاتے ہیں ۔ یہ آنسو سسکتے ہوئے جذبات کے عکاس ، قاری کو بھی اپنے فسو ں میں قید کر لیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں
دکھ دردہیں تنہائی بھی ہے ڈیرہ جمائے
اب ان کے علاوہ نہ کوئی میرا سہارا
عدیل احمد وصل وفراق کے قصوں کو آہ میں سمونے پر آئے تو الفاظ کی ترتیب عجب جادو جگا دیتی ہے ۔ قاری فراق کے درد کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور وصل کی چاشنی قاری کی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔آنسوئوں کو لفظوں کی لڑی میں موتیوں کی طرح پرونے کا کمال ہر ایک کو حاصل نہیں ہوا کرتا ۔یہ کمال عدیل احمد کا خاصہ ہے ۔ الفاظ میں دکھ کی گہرائی کا اندازہ اس شعر سے ہو سکتا ہے ۔
جائو سفیر عشق کو پیغام دومیرا
اب کے نہ گھر پہ آئے اجازت کے دن گئے
ایک اور نظم میں یوں کہا
کہنے لگے یہ لوگ بھی روتے ہوئے مجھے
لفظوں کو تو سمیٹ کہانی کو قید کر
دوسری جانب اپنے دل کے گلشن کی آبیاری سے تھک کر جب نڈھال ہوتے ہیں تو جذبوں کی لے کچھ یوں بنتی ہے ۔
رخ موڑ لیا اپنا جو دیکھا یہ خزاں نے
اجڑے سے یہاں پر تو گلستان بہت
بلاشبہ میں عدیل احمد کو شاعری کے افق پر طلوع ہونے والے اس چاند کی مانند دیکھ رہی ہوں جو آنے والے وقت میں نہ صرف اپنا آپ منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے دنیائے شاعری کو منور بھی کرے گا ۔