حضرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو آپ کی تنخواہ کا سوال آیا ۔ آپؓ نے فرمایا ۔ مدینہ میں ایک مزدور کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ہے اتنی ہی میرے لیے مقرر کر دو ۔ ایک صحابیؓ بولے کہ اس میں آپ کا گزارا کیسے ہو گا ؟ آپؓ نے فرمایا یہ گزارا اسی طرح ہو گا جیسے ایک مزدور کا ہوتا ہے ۔ ہاں ! اگر نہ ہو اتو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا ۔
یہ تھے ہمارے اسلاف اور ان کے حکمرانی کے اندا ز۔ جنھیں اس بات کا خوف تھا کہ انھیں اﷲکے حضور عوام کے لیے جواب دہ ہو نا ہے اور اس جوابدہی کے لیے وہ اپنی حتیٰ المکان کوشش کرتے رہے ۔ حضرت عمرؓ کا زمانہ ء خلافت وہ وقت تھا جب مسلمانوں کی حکومت میں ایک کثیر رقبہ موجود تھا اور حکمران کا یہ عالم تھا کہ وہ اس بات پر غمزدہ رہتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا سوتا ہے تو عمرؓ اس کے لیے جوابدہ ہیں ۔اب آئیے اپنے ملک کے حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس ملک میں اسلام کی حکمرانی ہو گی اور طرزِ حکومت اسلام کے مطابق ہو گا ۔ لیکن آج کئی برس گزر جانے کے باوجود اسلام کے نفاذ کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا ۔وطنِ عزیز کا یہ حال ہے کہ ایک جانب تھر کے صحر ا میں بے یار و مددگار بچے ، بوڑھے اور عورتیں جان کی بازیاں ہار رہے ہیں تو دوسری جانب حکمرانوں اور سیاست دانوں کے جلسوں میں کئی کئی دیگیں بانٹی جا رہی ہیں ، تھر کے لوگوں کے لیے ان گنت کالم لکھے گئے تحریکیں چلائی گئی لیکن ان بے سروساماں افراد کا کوئی پرسانِ حال نہ بن سکا اور نہ ہی تھر میں کسی بھی حکمران نے چاہے وہ صوبائی ہو یا وفاق کا کسی قسم کا کوئی فلاہی کام نہیں کیا ۔اب آتے ہیں جان کی امان کی جانب ، ایک جانب بم دھماکوں اور دہشت گردی کا آفریت ان گنت لوگوں کی جانیں لے رہا ہے تو دوسری جانب سرکاری آفسروں کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کی درآمد پر پالیمنٹ میں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے ۔ کیا دونوں انسانوں کے خون کے رنگ میں فرق ہے دونوں کی جان کی قیمت میں فرق ہے ؟ نہیں ۔ فرق ہے تو صرف عہدے کا ۔عام انسان ایک ایک دھماکے میں درجنوں کی تعداد میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ٹارگٹ کلنگ میں ان دیکھی ، ان جان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں لیکن جب کوئی سرکاری افسر سڑک سفر کرتا ہے تو اپنے ساتھ ایک حفاظتی دستہ اور کئی کئی گھنٹے کا روٹ لگواتا ہے ۔ اس کے بعد خود کو خادم کہلوانا بھی عجیب مضاحقہ خیز ہے ۔ صرف یہی نہیں تمام شعبوں کا یہی حال ہے اگر صحت کے شعبے کا جائزہ لیں تو ایک اور المیہ نظروں کے سامنے آتا ہے ۔ایک جانب نہ جانے کتنے ہی بچے غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث دم توڑ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان سرکاری خرچہ پر بیرونِ ملکاپنے علاج کے لیے کئی کئی روز گزارتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم اور سیاست دان ، مخیر حضرات جتنا پیسہ بیرونِ ملک اپنے علاج پر لگاتے ہیں اس کا نصف بھی اگر ملک میں کسی ہسپتال کی تعمیر اور سہولیات کی فراہمی پر لگائیں تو شاید صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بہت حد تک کمی واقع ہو سکے۔
یہ تما م تفریق محدود نہیں ہے بلکہ اقوامِ عالم پاکستا ن کے حکمرانوں کے اس بے حس رویے پر ششدر نظر آتی ہیں ۔ انجلینا جولی جو اقوام متحدہ کے مبصر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھی اس نے اقوام متحدہ کو پاکستان کے بارے میں رپورٹ دیتے ہوئے کہا
میں نے بہت برا محسوس کیا جب میں ایک جانب میز پر چنا گیا کھانا دیکھتی ہوں اور دوسری طرف وہ سیلاب زدگان جو آٹے کے ایک چھوٹے سے تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل کے لیے بے تاب تھے ، میں ذہنی طور پر مایوسی کا شکار ہوئی جب میں نے وزیر اعظیم اور دیگر عمارات کی سجاوٹ دیکھی جبکہ انھی ایوانوں سے باہر ہر طرف غربت کا دور دورہ ہے ۔