انسان کو اﷲنے بہت کم اختیا ر دیا ہے لیکن جتنا بھی اختیارانسان کو دیا گیا ہے وہ اس کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ اختیار وہ طاقت یا برتری ہے جو انسان کو کسی دوسرے انسان پر حاصل ہے ۔یہ اختیار درحقیقت ایک طرح کی ذمہ داری ہے جو ا ﷲنے انسان پر ڈالی ہے ۔ جس کے پاس جتنازیادہ اختیار ہے اتنا ہی اس پر ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
“تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور جواب دہ ہے اپنی رعیت کا (رعیت سے مراد ہر وہ اختیار ہے جو انسان کو دوسرے انسان پر کسی بھی طور حاصل ہے وہ کم ہو یا زیادہ ۔ جیسے بادشاہ کی رعیت اس کی رعایا ، باپ کی رعیت اس کی اولاداور بیوی ، بیوی کی رعیت اس کی اولاد وغیرہ ۔گویا جس کا عہدہ ، اختیار جتنا زیادہ ہے اس کی رعیت بھی اتنی ہی زیادہ ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے لیے اﷲکے حضورجوابدہ ہے)”
انسان کا اختیار یہ ہے کہ اس کو دو رستے دیئے گئے ہیں ایک سیدھارستہ صلح رحمی اور نیکی کا جسے صراط مستقیم کہا گیا اوردوسرا غلط رستہ جو ظلم اوربے انصافی کا ہے ۔اب یہ انسان کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے وہ راستہ اختیار کرے ۔ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرتے ہوئے علماء اورفقہاء کی صف میں جا کھڑا ہواور دنیا میں نیک نامی کمائے، چاہے تو ظلم اور بے انصافی کا رستہ اختیار کرکے ہلاکو خان یا چنگیز خان کہلائے اور انسانیت کی سطح سے کہیں نیچے گر جائے ۔ انسان کو کھیتی باڑی کے لیے زمین عطا کی گئی ،انسان کا اختیار یہ ہے کہ وہ اﷲکی عطاکی گئی زمین سے اناج حاصل کرے اور اس اناج سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹپالے۔ اس تمام زمین میں اس کی اپنی ملکیت صرف وہ چند گز ہے جس میں اس خاک کیپتلے نے دفن ہونا ہےْ لیکن وہ اسی زمین کی خاطر دوسرے انسان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔اسی زمین کی واثت کے لیے بھائیبھائی کا دشمن بن جاتاہے اوربھائی بھائی کا گلہ کاٹنے سے نہیں ڈرتا۔خدا کے دئے گئے اختیار کا، اس کے قہر و غضب سے ڈرے بنااستعمال کرتا ہے ۔طاقت ور کمزور کی زمین پر قابض ہو کر اگر کمزور کو جان سے نہ مارے تو کورٹ کچہری کے چکر میں ڈال دیتا ہے ۔اور جو پہلے ہی کمزور ہو اس کی نسلیں تک یہ مقدمے بھگتی رہتی ہیں ۔
کسی سرمایہ کار ہی کو لیجیئے ، کوئی سرمایہ کار غریب مزدور کے ساتھ احسن سلوک نہیں کرتا۔ جدید دور میں بھی اگر نوٹ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سرمایہ کار اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے غریب مزدور کا حق غصب کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مزدور کو کم سے کم اجرت دے ۔ دنیا کا کوئی بھی حصہ ہو ، کتنی ہی بڑی حقوق کی علمبردار قوم ہو ، مزدور کے حالات ہر جگہ یکساں ہیں ۔ صبح سے شام تک کام کرنے والے صرف اتنی اجرت کما پاتے ہیں کہ اپنی زندگی کی گاڑی کھنچ سکیں اور کوئی بھی لیبر یونین اس مزدور کے حق میں کچھ نہیں کرتی ۔بلکہ ان لیبر یوننیز کی وجہ سے جو ہڑتالیں ہوتی ہیں اس میں سب سے زیادہ دیہاڑی دار مزدور نقصان اٹھاتا ہے ۔کسی بھی جگہ کام کرنے والے لوگ اس ادارے کے مالک کی رعیت میں آتے ہیں اوروہ ان کے حقوق کے لیے اﷲ کے حضور جوابدہ ہے ۔سرمایہ کار کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی رعیت میں آنے والے مزدوروں کے ساتھ احسن سلوک کرے یا اس اختیار کا ناجائز فائدہ اتھاتے ہوئے دوسروں کا استحصال کرے۔
اختیار یہ ہے کہ انسان کو طاقت عطاکی گئی کہ جو مضبوط ہے وہ کمزور کا سہارا بنے لیکن جب انسان کو طاقت مل جاتی ہے تو وہ کمزور پر حکومت کرنے لگتا ہے ۔اس طاقت کو اﷲکی دین سمجھنے کی بجائے وہ اس طاقت پر اکڑنے لگتا ہے اوریہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ طاقت ہمیشہ اس کے پاس رہے گی اور اس کے اعمال کی کوئی باز پرس نہیں ہوگی ۔ اس طاقت کے بل بوتے پر وہ ٰ کمزور کے حق کو غصب کرتا ہے اور اس کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا ۔ یہی اختیار انسان کو دوسروں پر
ندوق اٹھانے پر مجبور کرتا ہے ۔ انسان کا اختیار یہ ہے کہ وہ بندوق اٹھا سکتا ہے، اب یہ اس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس بندوق کو ظالم کے خلاف استعمال کرتا ہے یاخود ظالم بن جاتاہے ۔عموما دیکھا گیا ہے کہ اس اختیار کے زیر اثرعموما لوگ خود ظالم بن جاتے ہیں ۔سو وہ ذمہ داری جو ان پر اختیار کی صورت میں ڈالی گئی ہے وہ اس کوطاقت گرداننے لگتے ہیں ۔جب انسان طاقت کے زعم میں مبتلا ہوکر غریب یا کمزور کا حق غصب کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت سے غافل ہو جاتا ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ بلآخراسے اس جہان کو چھوڑ کر جانا ہے اور چھوڑتے ہوئے وہ اپنے ساتھ صرف اور صرف اپنے اعمال لے کر جائے گااور چھ گز زمین اس کی کل ملکیت ہو گی ۔خوشامد کرنے والے اس کے اس فعل کو قابل تعریف گردانتے ہیں جبکہ مظلوم اس کے خوف کی وجہ سے اس کے آگے حق بات سے قاصر ہوتا ہے ، اس طرح وہ غرور اور غفلت میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔قرآن میں اﷲانسان کی اس سوچ کو کچھ یوں بیان کرتا ہے ۔
“بے شک ہم نے انسان کو ایک گندے نطفہ سے پیدا کیا اوروہ کھڑ کھڑ کھڑکھڑانے لگا ۔ (اور لڑائی جھگڑا کرنے لگا )”
ذرا غور کیجیے ! معاشرے میں جہاں جہاں ظلم ہوتا ہے وہ صرف اور صرف اﷲکے دئے گئے اختیار کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ جب دلوں میں اﷲکا خوف ختم ہو جاتا ہے تب ظلم جنم لیتا ہے ۔اس ظلم کی وجہ انسان کی غفلت ہے ، وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو اختیار دے سکتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے اگر اس اختیار کا استعمال درست طریقے سے انسان اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کرے اور اپنی آخرت کو یاد رکھے توظلم و بربریت کو ختم کرنے کے لیے کسی لمبے چوڑے انسانی حقوق کے چارٹر کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔اگر ہر انسان انفرادی سطح پر اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگے اور یہ سمجھ لے کہ جس قدر اختیار ات زیادہ ہیں اسی قدر اس کی ذمہ داری زیادہ ہے تو کوئی وڈیرہ کسی کامے پر بندوق نہ اٹھائے ، کوئی بھائی کسی بھائی کی گرن نہ کاٹے ، کوئی خاوند اپنی بیوی کو قتل نہ کرے ، کسی قسم کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہو ور ایسے ان گنت جرائم از خود ختم ہو جائیں ۔
انسان کو چاہیے کہ جو اختیار اور طاقت اﷲنے اسے ایک ذمہ داری کے طور پر عطا کی ہے اس کو طاقت نہ سمجھے اس پر غرورنہ کرے بلکہ اﷲکا شکر ادا کرتے ہوئے اس اختیار کو ذمہ داری گردانے اور اس کا درست استعمال کرے۔ اپنے سے کمتر افراد کا خیال رکھے اور ہر وہ جواس کی رعیت میں آتا ہے اس کا حق ادا کرے ۔ایک مشہور قول ہے
When the power of love overcome the love of power the world will know peace”
“جب محبت کی طاقت ، طاقت کی محبت پر برتری حاصل کر لے گی اس وقت دنیا امن کا گہوارہ ہو گی ۔”