وہ کونپل جو پھوٹی ہے
کوئی اس کو بتلائے
یہ موسم, یہ زمانہ اس کا نہیں
وہ جو چاہے اس کو مل جائے
یہ ممکن ہو سکتا نہیں
وہ تتلی جو پر پھیلائے پھرتی ہے
اکثر حنوط کی جاتی ہے
وہ چڑیا جو چہچاتی اڑتی ہے
قفس کی قید اٹھاتی ہے
سنو ! ان کلیوں سے کہہ دو
بھیڑیے اب پیار کی چادر
اوڑھے پھرتے ہیں
نرم لہجے , روح کو تار تار
کرتے ہیں
رنگ سب پھیکے پڑ جاتے ہیں
بھنورے سب اڑ جاتے ہیں
کلیوں کے مرجھا جانے سے
وقت تھمتا نہیں
زمیں پھٹتی نہیں
ٹوٹتا آسماں نہیں
سنو !اب اپنے رنگ خود سنبھالنا ہوں گے
رہبر اب رہزن بن بیٹھے ہیں
وہ مان دینے والے رشتے
اب تاک لگائے بیٹھے ہیں
میمونہ صدف ہاشمی
