تبصرہ :ابہام
از طرف : میمونہ صدف
میرے وجود میں تو حبس ہے مقدر کا
یوں مر نہ جائے کہیں تیری آرزو مجھ میں
وسیم سہل کی کتاب ابہام کھلتے ہی پہلا شعر آپ کو خوش آمدید کہے گا ، جس میں حبس ، محبت ، مقدر ، ہجر سبھی کچھ چھلک رہا ہے ۔ مختصر نژی نظموں پر مشتمل یہ کتاب اپنے ہر رنگ سموئے ہوئے ہے ۔ ان رنگوں میں ست رنگی محبت بھی ہے تو سرمئی اداسی بھی ، اگر سنہری خوشی ہے تو دکھ کا اندھیرابھی ہے ۔ انگریزی طرز کی یہ نظمیں عام فہم ، آسان اسلوب لیے ہوئے ہیں ۔ ابہام ، محبت کا ایک ایسا استعارہ ہے جس میں بیک وقت وصال ِ یار کا انتظار بھی ہے اورمحبت اب نہیں ہو گی کا نعرہ بھی ہے ۔
وسیم سہیل اپنی نظموں میں قاری کو مسمرائز کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔و ہ فلسفیانہ زندگانی کے ابہام کو پرکھتے ہوئے قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔وہ فلسفہء زندگانی کے ابہام کو پرکھتے ہوئے قاری کو بھی سوچنے پر مجبو رکر دیتے ہیں ۔ کسی بھی شاعر یا افسانہ نگار کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ وہ قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دے ۔ کرب تنہائی کے آسیب میں مبتلا آنسو صفحہ قرطاس پر بکھیرتے ہوئے وسیم سہیل انھیں خوبصورتی عطاء کرکے اپنے قاری کے دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں ۔اس کرب ِ تنہائی کو وہ اپنی نظم میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں
مجھ کو لگتا ہے
میں اکیلا ہوں
ساتھ میرے
جو بھی
جتنا بھی
وہ میری نظر کا دھوکا ہے
مجھ کو ڈستی ہے
یہ تنہائی
دھڑکنیں سہمی سہمی
دل کے کونے میں
چپ چاپ بیٹھ جاتی ہیں
کہیں افسوس ہے تو
فقظ اتنا
کہ وہ بھی مجھ کو
پاس میرے
اب نہیں ملتا
وسیم بیک وقت محبت ، تنہائی ، حقیقت پسندی ، گہرائی کا شکار نظر آتے ہیں اور اس کا اظہار وہ اپنی متعدد نظموں میں کرتے ہیں ۔وہ نہ صرف اپنے گرد پھیلے رشتوں سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس محبت کا برملاء اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ماں باپ ہوں ، بہن بھائی ہوں یا کوئی اور رشتہ وہ اظہارِ محبت میں کنجوسی کے قائل نہیں ۔ قاری ان کی نظموں میں اپنے رشتوں کو ڈھونڈنے لگتا ہے تو کہیں اپنے اندر کے خلاء میں کھو جاتا ہے ۔کہیں محبت کی جلترنگ میں گم ہو جاتا ہے تو کہیں ہجر کے صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے ۔ یہاں تک کہ قاری وسیم کے دکھ ، اس کی نظمو ں کی سادگی میں کھو کر اپنے دکھ نوچنے لگتا ہے ۔
وسیم سہیل جہاں عشق و محبت کے موتیوں کو بکھیرتے نظر آتے ہیں وہاں ملک کے طول و عرض میں ہونے والی غارت گری کا نوحہ بھی ان کی نوک ِ قلم سے لہو بن کر ٹپکتا ہے ۔ وہ دہشت گردی کی جنگ میں جان دینے والوں کے لیے سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے کہ وسیم سہیل رومانیوت میں کھو کر اپنے گرد و بیش سے غافل نہیں ۔



وسیم سہیل لفظوں کے ایسے جادو گر ہیں جو لفظوں کے لبادے میں قاری کو زندگی اور اس سے جڑے ہوئے

دکھ سکھ کو روشناس کرواتے ہوئے لفظوں کا جادو بکھیرتے اور انھیں اپنی نظموں میں ڈھالتے نظر آتے ہیں ۔

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *